Poet
stringclasses
30 values
Poem_name
stringlengths
19
107
Poetry
stringlengths
68
2.22k
Meer Taqi Meer
بنی تھی کچھ اک اُس سے مدت کے بعد میر تقی میر غزلیں
بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد جدائی کے حالات میں کیا کہوں قیامت تھی ایک ایک ساعت کے بعد موا کوہ کن بے ستوں کھود کر یہ راحت ہوئی ایسی محنت کے بعد لگا آگ پانی کو دوڑے ہے تو یہ گرمی تری اس شرارت کے بعد کہے کو ہمارے کب ان نے سنا کوئی بات مانی سو منت کے بعد سخن کی نہ تکلیف ہم سے کرو لہو ٹپکے ہے اب شکایت کے بعد نظر میرؔ نے کیسی حسرت سے کی بہت روئے ہم اس کی رخصت کے بعد
Mirza Ghalib
وان پہنچ کر جو گش آتا پائے ہم ہیں، ہم کو مرزا غالب کی غزلیں
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو صد رہ آہنگ زمیں بوس قدم ہے ہم کو دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتا ہے کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کو ضعف سے نقش پئے مور ہے طوق گردن ترے کوچے سے کہاں طاقت رم ہے ہم کو جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو رشک ہم طرحی و درد اثر بانگ حزیں نالۂ مرغ سحر تیغ دو دم ہے ہم کو سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار پاس بے رونقی دیدہ اہم ہے ہم کو تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو مقطع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو طاقت رنج سفر بھی نہیں پاتے اتنی ہجر یاراں وطن کا بھی الم ہے ہم کو لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
Mohsin Naqvi
بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا محسن نقوی غزلیں
بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا ہوا سے ڈرنا بجھے چراغوں سے پیار کرنا کھلی زمینوں میں جب بھی سرسوں کے پھول مہکیں تم ایسی رت میں سدا مرا انتظار کرنا جو لوگ چاہیں تو پھر تمہیں یاد بھی نہ آئیں کبھی کبھی تم مجھے بھی ان میں شمار کرنا کسی کو الزام بے وفائی کبھی نہ دینا مری طرح اپنے آپ کو سوگوار کرنا تمام وعدے کہاں تلک یاد رکھ سکو گے جو بھول جائیں وہ عہد بھی استوار کرنا یہ کس کی آنکھوں نے بادلوں کو سکھا دیا ہے کہ سینۂ سنگ سے رواں آبشار کرنا میں زندگی سے نہ کھل سکا اس لیے بھی محسنؔ کہ بہتے پانی پہ کب تلک اعتبار کرنا
Firaq GorakhPuri
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں، فراق گورکھپوری غزلیں
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں نگاہ نرگس رعنا ترا جواب نہیں زمین جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل وہ رات ہے کوئی ذرہ بھی محو خواب نہیں حیات درد ہوئی جا رہی ہے کیا ہوگا اب اس نظر کی دعائیں بھی مستجاب نہیں زمین اس کی فلک اس کا کائنات اس کی کچھ ایسا عشق ترا خانماں خراب نہیں ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی ابھی حیات کے چہرے پر آب و تاب نہیں جہاں کے باب میں تر دامنوں کا قول یہ ہے یہ موج مارتا دریا کوئی سراب نہیں دکھا تو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے خراب ہو کے بھی یہ زندگی خراب نہیں
Parveen Shakir
دعا کا ٹوٹا ہوا ہرف سرد آہ میں ہے، پروین شاکر غزلیں
دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں ہے بکھر چکا ہے مگر مسکرا کے ملتا ہے وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے وہ اک مکان ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا ہماری سال گرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے
Noon Meem Rashid
جو بے ثبات ہو اس سرخوشی کو کیا کیجیے نون میم راشد غزلیں
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے
Habib Jalib
باتیں رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو حبیب جالب غزلیں
بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو ہوئے نہ ایک تو منزل نہ بن سکے گا لہو ہو کس گھمنڈ میں اے لخت لخت دیدہ ورو تمہیں بھی قاتل محنت کشاں کہے گا لہو اسی طرح سے اگر تم انا پرست رہے خود اپنا راہنما آپ ہی بنے گا لہو سنو تمہارے گریبان بھی نہیں محفوظ ڈرو تمہارا بھی اک دن حساب لے گا لہو اگر نہ عہد کیا ہم نے ایک ہونے کا غنیم سب کا یوں ہی بیچتا رہے گا لہو کبھی کبھی مرے بچے بھی مجھ سے پوچھتے ہیں کہاں تک اور تو خشک اپنا ہی کرے گا لہو صدا کہا یہی میں نے قریب تر ہے وہ دور کہ جس میں کوئی ہمارا نہ پی سکے گا لہو
Nida Fazli
اس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے، ندا فضلی غزلیں
اس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا یہ غم باقی ہے اب نہ وہ چھت ہے نہ وہ زینہ نہ انگور کی بیل صرف اک اس کو بھلانے کی قسم باقی ہے میں نے پوچھا تھا سبب پیڑ کے گر جانے کا اٹھ کے مالی نے کہا اس کی قلم باقی ہے جنگ کے فیصلے میداں میں کہاں ہوتے ہیں جب تلک حافظے باقی ہیں علم باقی ہے تھک کے گرتا ہے ہرن صرف شکاری کے لیے جسم گھائل ہے مگر آنکھوں میں رم باقی ہے
Habib Jalib
باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں حبیب جالب غزلیں
باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں سوچا ہے خموشی سے ہر اک زہر کو پی جائیں اپنا تو نہیں کوئی وہاں پوچھنے والا اس بزم میں جانا ہے جنہیں اب تو وہی جائیں اب تجھ سے ہمیں کوئی تعلق نہیں رکھنا اچھا ہو کہ دل سے تری یادیں بھی چلی جائیں اک عمر اٹھائے ہیں ستم غیر کے ہم نے اپنوں کی تو اک پل بھی جفائیں نہ سہی جائیں جالبؔ غم دوراں ہو کہ یاد رخ جاناں تنہا مجھے رہنے دیں مرے دل سے سبھی جائیں
Waseem Barelvi
دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا وسیم بریلوی غزلیں
دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا پہنچا ہے بزرگوں کے بیانوں سے جو ہم تک کیا بات ہوئی کیوں وہ زمانہ نہیں آتا میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا اس چھوٹے زمانے کے بڑے کیسے بنوگے لوگوں کو جب آپس میں لڑانا نہیں آتا ڈھونڈھے ہے تو پلکوں پہ چمکنے کے بہانے آنسو کو مری آنکھ میں آنا نہیں آتا تاریخ کی آنکھوں میں دھواں ہو گئے خود ہی تم کو تو کوئی گھر بھی جلانا نہیں آتا
Naji Shakir
لب شیریں ہے مصری، یوسف ثانی ہے یہ لڑکا، نجی شاکر غزلیں۔
لب شیریں ہے مصری یوسف ثانی ہے یہ لڑکا نہ چھوڑے گا میرا دل چاہ کنعانی ہے یہ لڑکا لیا بوسہ کسی نے اور گریباں گیر ہے میرا ڈوبایا چاہتا ہے سب کو طوفانی ہے یہ لڑکا سر اوپر لال چیرا اور دہن جوں غنچۂ رنگیں بہار مدعا لعل بدخشانی ہے یہ لڑکا قیامت ہے جھمک بازو کے تعویذ طلائی کی حصار حسن کوں قائم کیا بانی ہے یہ لڑکا ہوئے روپوش اس کا حسن دیکھ انجم کے جوں خوباں چمکتا ہے برنگ مہر نورانی ہے یہ لڑکا قیامت قامت اس کا جن نے دیکھا سو ہوا بسمل مگر سر تا قدم تیغ سلیمانی ہے یہ لڑکا میں اپنا جان و دل قرباں کروں اوس پر سیتی ناجیؔ جسے دیکھیں سیں ہوئے عید رمضانی ہے یہ لڑکا
Wali Mohammad Wali
دل طلبگار ناز ماہ وش ہے، ولی محمد ولی کی غزلیں۔
دل طلب گار ناز مہوش ہے لطف اس کا اگرچہ دل کش ہے مجھ سوں کیوں کر ملے گا حیراں ہوں شوخ ہے بے وفا ہے سرکش ہے کیا تری زلف کیا ترے ابرو ہر طرف سوں مجھے کشاکش ہے تجھ بن اے داغ بخش سینہ و دل چمن لالہ دشت آتش ہے اے ولیؔ تجربے سوں پایا ہوں شعلۂ آہ شوق بے غش ہے
Naseer Turabi
ہم راہی کی بات مت کر، امتحان ہو جائے گا، نصیر ترابی غزلیں
ہمرہی کی بات مت کر امتحاں ہو جائے گا ہم سبک ہو جائیں گے تجھ کو گراں ہو جائے گا جب بہار آ کر گزر جائے گی اے سرو بہار ایک رنگ اپنا بھی پیوند خزاں ہو جائے گا ساعت ترک تعلق بھی قریب آ ہی گئی کیا یہ اپنا سب تعلق رائیگاں ہو جائے گا یہ ہوا سارے چراغوں کو اڑا لے جائے گی رات ڈھلنے تک یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا شاخ دل پھر سے ہری ہونے لگی دیکھو نصیرؔ ایسا لگتا ہے کسی کا آشیاں ہو جائے گا
Bahadur Shah Zafar
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیے نہ تاج شاہانہ، بہادر شاہ ظفر غزلیں
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا کتابوں میں دھرا ہے کیا بہت لکھ لکھ کے دھو ڈالیں ہمارے دل پہ نقش کالجحر ہے تیرا فرمانا غنیمت جان جو دم گزرے کیفیت سے گلشن میں دئے جا ساقیٔ پیماں شکن بھر بھر کے پیمانا نہ دیکھا وہ کہیں جلوہ جو دیکھا خانۂ دل میں بہت مسجد میں سر مارا بہت سا ڈھونڈا بت خانا کچھ ایسا ہو کہ جس سے منزل مقصود کو پہنچوں طریق پارسائی ہووے یا ہو راہ رندانا یہ ساری آمد و شد ہے نفس کی آمد و شد پر اسی تک آنا جانا ہے نہ پھر جانا نہ پھر آنا ظفرؔ وہ زاہد بے درد کی ہو حق سے بہتر ہے کرے گر رند درد دل سے ہاو ہوئے مستانا
Akbar Allahabadi
دل میرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا اکبر الہ آبادی غزلیں
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا بت کے بندے ملے اللہ کا بندا نہ ملا بزم یاراں سے پھری باد بہاری مایوس ایک سر بھی اسے آمادۂ سودا نہ ملا گل کے خواہاں تو نظر آئے بہت عطر فروش طالب زمزمۂ بلبل شیدا نہ ملا واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے کر دیا کعبہ کو گم اور کلیسا نہ ملا رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم رنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملا ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبرؔ مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ ملا
Javed Akhtar
ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے، جاوید اختر غزلیں
ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے ابھی ہمارا کوئی امتحان باقی ہے ہمارے گھر کو تو اجڑے ہوئے زمانہ ہوا مگر سنا ہے ابھی وہ مکان باقی ہے ہماری ان سے جو تھی گفتگو وہ ختم ہوئی مگر سکوت سا کچھ درمیان باقی ہے ہمارے ذہن کی بستی میں آگ ایسی لگی کہ جو تھا خاک ہوا اک دکان باقی ہے وہ زخم بھر گیا عرصہ ہوا مگر اب تک ذرا سا درد ذرا سا نشان باقی ہے ذرا سی بات جو پھیلی تو داستان بنی وہ بات ختم ہوئی داستان باقی ہے اب آیا تیر چلانے کا فن تو کیا آیا ہمارے ہاتھ میں خالی کمان باقی ہے
Nida Fazli
دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی، ندا فاضلی غزلیں
دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی دیکھا ہے جسے میں نے کوئی اور تھا شاید وہ کون تھا جس سے تری صورت نہیں ملتی ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی نکلا کرو یہ شمع لیے گھر سے بھی باہر کمرے میں سجانے کو مصیبت نہیں ملتی
Allama Iqbal
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، علامہ اقبال کی غزلیں ۱
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
Wali Mohammad Wali
وہ صنم جب سوں بسا دیدہ حیران میں آ ولی محمد ولی غزلیں
وو صنم جب سوں بسا دیدۂ حیران میں آ آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ ناز دیتا نہیں گر رخصت گل گشت چمن اے چمن‌‌ زار حیا دل کے گلستان میں آ عیش ہے عیش کہ اس مہ کا خیال روشن شمع روشن کیا مجھ دل کے شبستاں میں آ یاد آتا ہے مجھے وو دو گل باغ وفا اشک کرتے ہیں مکاں گوشۂ دامان میں آ موج بے تابیٔ دل اشک میں ہوئی جلوہ نما جب بسی زلف صنم طبع پریشان میں آ نالہ و آہ کی تفصیل نہ پوچھو مجھ سوں دفتر درد بسا عشق کے دیوان میں آ پنجۂ عشق نے بیتاب کیا جب سوں مجھے چاک دل تب سوں بسا چاک گریبان میں آ دیکھ اے اہل نظر سبزۂ خط میں لب لعل رنگ یاقوت چھپا ہے خط ریحاں میں آ حسن تھا پردۂ تجرید میں سب سوں آزاد طالب عشق ہوا صورت انسان میں آ شیخ یہاں بات تری پیش نہ جاوے ہرگز عقل کوں چھوڑ کے مت مجلس رندان میں آ درد منداں کو بجز درد نہیں صید مراد اے شہ ملک جنوں غم کے بیابان میں آ حاکم وقت ہے تجھ گھر میں رقیب بد خو دیو مختار ہوا ملک سلیمان میں آ چشمۂ آب بقا جگ میں کیا ہے حاصل یوسف حسن ترے چاہ زنخدان میں آ جگ کے خوباں کا نمک ہو کے نمک پروردہ چھپ رہا آ کے ترے لب کے نمک دان میں آ بس کہ مجھ حال سوں ہمسر ہے پریشانی میں درد کہتی ہے مرا زلف ترے کان میں آ غم سوں تیرے ہے ترحم کا محل حال ولیؔ ظلم کو چھوڑ سجن شیوۂ احسان میں آ
Waseem Barelvi
تو سمجھتا ہے کہ رشتوں کی دہائی دیں گے وسیم بریلوی غزلیں
تو سمجھتا ہے کہ رشتوں کی دہائی دیں گے ہم تو وہ ہیں ترے چہرے سے دکھائی دیں گے ہم کو محسوس کیا جائے ہے خوشبو کی طرح ہم کوئی شور نہیں ہیں جو سنائی دیں گے فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف آپ کیا صاحب عدالت میں صفائی دیں گے پچھلی صف میں ہی سہی ہے تو اسی محفل میں آپ دیکھیں گے تو ہم کیوں نہ دکھائی دیں گے
Akbar Allahabadi
حیا سے سر جھکا لینا، ادا سے مسکرا دینا، اکبر الہ آبادی غزلیں
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا خدا کی یاد میں محویت دل بادشاہی ہے مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا
Sahir Ludhianvi
فین جو نادار تک نہیں پہنچا، ساحر لدھیانوی غزلیں
فن جو نادار تک نہیں پہنچا ابھی معیار تک نہیں پہنچا اس نے بر وقت بے رخی برتی شوق آزار تک نہیں پہنچا عکس مے ہو کہ جلوۂ گل ہو رنگ رخسار تک نہیں پہنچا حرف انکار سر بلند رہا ضعف اقرار تک نہیں پہنچا حکم سرکار کی پہنچ مت پوچھ اہل سرکار تک نہیں پہنچا عدل گاہیں تو دور کی شے ہیں قتل اخبار تک نہیں پہنچا انقلابات دہر کی بنیاد حق جو حق دار تک نہیں پہنچا وہ مسیحا نفس نہیں جس کا سلسلہ دار تک نہیں پہنچا
Akbar Allahabadi
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں، اکبر الہ آبادی غزلیں
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی عاقلوں کو بے غم عقبیٰ مزا ملتا نہیں کشتئ دل کی الٰہی بحر ہستی میں ہو خیر ناخدا ملتے ہیں لیکن با خدا ملتا نہیں غافلوں کو کیا سناؤں داستان عشق یار سننے والے ملتے ہیں درد آشنا ملتا نہیں زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں صرف ظاہر ہو گیا سرمایۂ زیب و صفا کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر کوہساروں میں نشان نقش پا ملتا نہیں شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستی بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں جس پہ دل آیا ہے وہ شیریں ادا ملتا نہیں زندگی ہے تلخ جینے کا مزا ملتا نہیں لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہئے کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں اہل ظاہر جس قدر چاہیں کریں بحث و جدال میں یہ سمجھا ہوں خودی میں تو خدا ملتا نہیں چل بسے وہ دن کہ یاروں سے بھری تھی انجمن ہائے افسوس آج صورت آشنا ملتا نہیں منزل عشق و توکل منزل اعزاز ہے شاہ سب بستے ہیں یاں کوئی گدا ملتا نہیں بار تکلیفوں کا مجھ پر بار احساں سے ہے سہل شکر کی جا ہے اگر حاجت روا ملتا نہیں چاندنی راتیں بہار اپنی دکھاتی ہیں تو کیا بے ترے مجھ کو تو لطف اے مہ لقا ملتا نہیں معنیٔ دل کا کرے اظہار اکبرؔ کس طرح لفظ موزوں بہر کشف مدعا ملتا نہیں
Mirza Ghalib
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے مرزا غالب غزلیں
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلہ ہوتا ہے پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو شکوۂ جور سے سرگرم جفا ہوتا ہے عشق کی راہ میں ہے چرخ مکوکب کی وہ چال سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے خامہ میرا کہ وہ ہے باربد بزم سخن شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے اے شہنشاہ کواکب سپہ و مہر علم تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے میں جو گستاخ ہوں آئین غزل خوانی میں یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
Mirza Ghalib
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردہِ ساز مرزا غالب غزلیں
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز تو اور آرائش خم کاکل میں اور اندیشہ ہائے دور دراز لاف تمکیں فریب سادہ دلی ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز ہوں گرفتار الفت صیاد ورنہ باقی ہے طاقت پرواز وہ بھی دن ہو کہ اس ستم گر سے ناز کھینچوں بجائے حسرت ناز نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلباز اے ترا غمزہ یک قلم انگیز اے ترا ظلم سر بہ سر انداز تو ہوا جلوہ گر مبارک ہو ریزش سجدۂ جبین نیاز مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تو غریب نواز اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا اے دریغا وہ رند شاہد باز
Allama Iqbal
عالمِ آب و خاک و باد سرِ آیاں ہے تو کہ میں علامہ اقبال غزلیں
عالم آب و خاک و باد سر عیاں ہے تو کہ میں وہ جو نظر سے ہے نہاں اس کا جہاں ہے تو کہ میں وہ شب درد و سوز و غم کہتے ہیں زندگی جسے اس کی سحر ہے تو کہ میں اس کی اذاں ہے تو کہ میں کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم سیر شانۂ روزگار پر نار گراں ہے تو کہ میں تو کف خاک و بے بصر میں کف خاک و خود نگر کشت وجود کے لیے آب رواں ہے تو کہ میں
Altaf Hussain Hali
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا، الطاف حسین حالی کی غزلیں
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا اے دل رضائے غیر ہے شرط رضائے دوست زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا دیکھی ہیں ایسی ان کی بہت مہربانیاں اب ہم سے منہ میں موت کے جایا نہ جائے گا مے تند و ظرف حوصلۂ اہل بزم تنگ ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا ملنا ہے آپ سے تو نہیں حصر غیر پر کس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائے گا مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن اس قدر یعنی وہ ڈھونڈتے ہیں جو پایا نہ جائے گا جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا
Mirza Ghalib
نالہ جز حسنِ طلب اے ستم ایجاد نہیں مرزا غالب غزلیں
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں ہے تقاضائے جفا شکوۂ بیداد نہیں عشق و مزدوری عشرت گہ خسرو کیا خوب ہم کو تسلیم نکو نامی فرہاد نہیں کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب لطمۂ موج کم از سیلئ استاد نہیں وائے محرومی تسلیم و بدا حال وفا جانتا ہے کہ ہمیں طاقت فریاد نہیں رنگ تمکین گل و لالہ پریشاں کیوں ہے گر چراغان سر رہ گزر باد نہیں سبد گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں مژدہ اے مرغ کہ گلزار میں صیاد نہیں نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا دی ہے جائے دہن اس کو دم ایجاد نہیں کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت یہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد نہیں کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ تم کو بے مہری یاران وطن یاد نہیں
Waseem Barelvi
کہاں ثواب کہاں کیا عذاب ہوتا ہے وسیم بریلوی غزلیں
کہاں ثواب کہاں کیا عذاب ہوتا ہے محبتوں میں کب اتنا حساب ہوتا ہے بچھڑ کے مجھ سے تم اپنی کشش نہ کھو دینا اداس رہنے سے چہرا خراب ہوتا ہے اسے پتا ہی نہیں ہے کہ پیار کی بازی جو ہار جائے وہی کامیاب ہوتا ہے جب اس کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا تو کوئی آج کا عزت مآب ہوتا ہے جسے میں لکھتا ہوں ایسے کہ خود ہی پڑھ پاؤں کتاب زیست میں ایسا بھی باب ہوتا ہے بہت بھروسہ نہ کر لینا اپنی آنکھوں پر دکھائی دیتا ہے جو کچھ وہ خواب ہوتا ہے
Mirza Ghalib
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب، مرزا غالب غزلیں
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب خون جگر ودیعت مژگان یار تھا اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا کس کا جنون دید تمنا شکار تھا آئینہ خانہ وادیٔ جوہر غبار تھا کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا دیکھی وفائے فرصت رنج و نشاط دہر خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا
Noon Meem Rashid
حسرتِ انتظارِ یار نہ پوچھ نون میم راشد غزلیں
حسرت انتظار یار نہ پوچھ ہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ رنگ گلشن دم بہار نہ پوچھ وحشت قلب بے قرار نہ پوچھ صدمۂ عندلیب زار نہ پوچھ تلخ انجامئ بہار نہ پوچھ غیر پر لطف میں رہین ستم مجھ سے آئین بزم یار نہ پوچھ دے دیا درد مجھ کو دل کے عوض ہائے لطف ستم شعار نہ پوچھ پھر ہوئی یاد مے کشی تازہ مستی ابر نو بہار نہ پوچھ مجھ کو دھوکا ہے تار بستر کا نا توانئ جسم یار نہ پوچھ میں ہوں نا آشنائے وصل ہنوز مجھ سے کیف وصال یار نہ پوچھ
Javed Akhtar
پھرتے ہیں کب سے در بدر اب اس نگر اب اس نگر ایک دوسرے کے ہم سفر میں اور میری آوارگی جاوید اختر غزلیں
پھرتے ہیں کب سے در بدر اب اس نگر اب اس نگر اک دوسرے کے ہم سفر میں اور مری آوارگی نا آشنا ہر رہگزر نا مہرباں ہر اک نظر جائیں تو اب جائیں کدھر میں اور مری آوارگی ہم بھی کبھی آباد تھے ایسے کہاں برباد تھے بے فکر تھے آزاد تھے مسرور تھے دل شاد تھے وہ چال ایسی چل گیا ہم بجھ گئے دل جل گیا نکلے جلا کے اپنا گھر میں اور مری آوارگی جینا بہت آسان تھا اک شخص کا احسان تھا ہم کو بھی اک ارمان تھا جو خواب کا سامان تھا اب خواب ہے نے آرزو ارمان ہے نے جستجو یوں بھی چلو خوش ہیں مگر میں اور مری آوارگی وہ ماہ وش وہ ماہ رو وہ ماہ کام ہو بہو تھیں جس کی باتیں کو بہ کو اس سے عجب تھی گفتگو پھر یوں ہوا وہ کھو گئی تو مجھ کو ضد سی ہو گئی لائیں گے اس کو ڈھونڈ کر میں اور مری آوارگی یہ دل ہی تھا جو سہ گیا وہ بات ایسی کہہ گیا کہنے کو پھر کیا رہ گیا اشکوں کا دریا بہہ گیا جب کہہ کے وہ دل بر گیا تیرے لیے میں مر گیا روتے ہیں اس کو رات بھر میں اور مری آوارگی اب غم اٹھائیں کس لیے آنسو بہائیں کس لیے یہ دل جلائیں کس لیے یوں جاں گنوائیں کس لیے پیشہ نہ ہو جس کا ستم ڈھونڈیں گے اب ایسا صنم ہوں گے کہیں تو کارگر میں اور مری آوارگی آثار ہیں سب کھوٹ کے امکان ہیں سب چوٹ کے گھر بند ہیں سب گوٹ کے اب ختم ہیں سب ٹوٹکے قسمت کا سب یہ پھیر ہے اندھیر ہے اندھیر ہے ایسے ہوئے ہیں بے اثر میں اور مری آوارگی جب ہمدم و ہمراز تھا تب اور ہی انداز تھا اب سوز ہے تب ساز تھا اب شرم ہے تب ناز تھا اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا ہے ساتھ وہ تو وہ بھی کیا اک بے ہنر اک بے ثمر میں اور مری آوارگی
Faiz Ahmad Faiz
ہم فیض احمد فیض کی غزلوں سے قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں۔
قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم سب کچھ نثار راہ وفا کر چکے ہیں ہم کچھ امتحان دست جفا کر چکے ہیں ہم کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم دیکھیں ہے کون کون ضرورت نہیں رہی کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم ان کی نظر میں کیا کریں پھیکا ہے اب بھی رنگ جتنا لہو تھا صرف قبا کر چکے ہیں ہم کچھ اپنے دل کی خو کا بھی شکرانہ چاہیے سو بار ان کی خو کا گلا کر چکے ہیں ہم
Jigar Moradabadi
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد، جگر مرادآبادی غزلیں
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدت غم سے ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزش پا یاد کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
Dagh Dehlvi
جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا، داغ دہلوی غزلیں
جو ہو سکتا ہے اس سے وہ کسی سے ہو نہیں سکتا مگر دیکھو تو پھر کچھ آدمی سے ہو نہیں سکتا محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا الگ کرنا رقیبوں کا الٰہی تجھ کو آساں ہے مجھے مشکل کہ میری بیکسی سے ہو نہیں سکتا کیا ہے وعدۂ فردا انہوں نے دیکھیے کیا ہو یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا یہ مشتاق شہادت کس جگہ جائیں کسے ڈھونڈیں کہ تیرا کام قاتل جب تجھی سے ہو نہیں سکتا لگا کر تیغ قصہ پاک کیجئے دادخواہوں کا کسی کا فیصلہ کر منصفی سے ہو نہیں سکتا مرا دشمن بظاہر چار دن کو دوست ہے تیرا کسی کا ہو رہے یہ ہر کسی سے ہو نہیں سکتا پرسش کہو گے کیا وہاں جب یاں یہ صورت ہے ادا اک حرف وعدہ نازکی سے ہو نہیں سکتا نہ کہئے گو کہ حال دل مگر رنگ آشنا ہیں ہم یہ ظاہر آپ کی کیا خامشی سے ہو نہیں سکتا کیا جو ہم نے ظالم کیا کرے گا غیر منہ کیا ہے کرے تو صبر ایسا آدمی سے ہو نہیں سکتا چمن میں ناز بلبل نے کیا جو اپنی نالے پر چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی سے ہو نہیں سکتا نہیں گر تجھ پہ قابو دل ہے پر کچھ زور ہو اپنا کروں کیا یہ بھی تو نا طاقتی سے ہو نہیں سکتا نہ رونا ہے طریقے کا نہ ہنسنا ہے سلیقے کا پریشانی میں کوئی کام جی سے ہو نہیں سکتا ہوا ہوں اس قدر محجوب عرض مدعا کر کے کہ اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا غضب میں جان ہے کیا کیجے بدلہ رنج فرقت کا بدی سے کر نہیں سکتے خوشی سے ہو نہیں سکتا مزا جو اضطراب شوق سے عاشق کو ہے حاصل وہ تسلیم و رضا و بندگی سے ہو نہیں سکتا خدا جب دوست ہے اے داغؔ کیا دشمن سے اندیشہ ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکتا
Mirza Ghalib
سرمہ مفت نظر ہوں، میری قیمت یہ ہے مرزا غالب غزلیں
سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا رخصت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم پنہاں میرا خلوت آبلۂ پا میں ہے جولاں میرا خوں ہے دل تنگیٔ وحشت سے بیاباں میرا حسرت نشۂ وحشت نہ بہ سعیٔ دل ہے عرض خمیازۂ مجنوں ہے گریباں میرا فہم زنجیری بے ربطی دل ہے یارب کس زباں میں ہے لقب خواب پریشاں میرا
Ahmad Faraz
گفتگو اچھی لگی، ذوق نظر اچھا لگا، احمد فراز کی غزلیں
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں اس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول شاخ سے بڑھ کر کف دل دار پر اچھا لگا کوئی مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے تیغ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
Firaq GorakhPuri
زندگی درد کی کہانی ہے، فراق گورکھپوری غزلیں
زندگی درد کی کہانی ہے چشم انجم میں بھی تو پانی ہے بے نیازانہ سن لیا غم دل مہربانی ہے مہربانی ہے وہ بھلا میری بات کیا مانے اس نے اپنی بھی بات مانی ہے شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز یا ترا شعلۂ جوانی ہے وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو گاہ گل گاہ رات رانی ہے بن کے معصوم سب کو تاڑ گئی آنکھ اس کی بڑی سیانی ہے آپ بیتی کہو کہ جگ بیتی ہر کہانی مری کہانی ہے دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیں دل اسی غم کی راجدھانی ہے ہم تو خوش ہیں تری جفا پر بھی بے سبب تیری سرگرانی ہے سر بہ سر یہ فراز‌ مہر و قمر تیری اٹھتی ہوئی جوانی ہے آج بھی سن رہے ہیں قصۂ عشق گو کہانی بہت پرانی ہے ضبط کیجے تو دل ہے انگارا اور اگر روئیے تو پانی ہے ہے ٹھکانا یہ در ہی اس کا بھی دل بھی تیرا ہی آستانی ہے ان سے ایسے میں جو نہ ہو جائے نو جوانی ہے نو جوانی ہے دل مرا اور یہ غم دنیا کیا ترے غم کی پاسبانی ہے گردش چشم ساقیٔ دوراں دور افلاک کی بھی پانی ہے اے لب ناز کیا ہیں وہ اسرار خامشی جن کی ترجمانی ہے مے کدوں کے بھی ہوش اڑنے لگے کیا تری آنکھ کی جوانی ہے خودکشی پر ہے آج آمادہ ارے دنیا بڑی دوانی ہے کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں بد گمانی سی بد گمانی ہے مجھ سے کہتا تھا کل فرشتۂ عشق زندگی ہجر کی کہانی ہے بحر ہستی بھی جس میں کھو جائے بوند میں بھی وہ بیکرانی ہے مل گئے خاک میں ترے عشاق یہ بھی اک امر آسمانی ہے زندگی انتظار ہے تیرا ہم نے اک بات آج جانی ہے کیوں نہ ہو غم سے ہی قماش اس کا حسن تصویر شادمانی ہے سونی دنیا میں اب تو میں ہوں اور ماتم عشق آنجہانی ہے کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب رات ہے نیند ہے کہانی ہے
Ahmad Faraz
اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے احمد فراز غزلیں
اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے ہم نے اس کے شہر کو چھوڑا اور آنکھوں کو موند لیا ہے اپنا یہ شیوہ تو نہیں تھا اپنے غم اوروں کو سونپیں خود تو جاگتے یا سوتے ہیں اس کو کیوں بے خواب کیا ہے خلقت کے آوازے بھی تھے بند اس کے دروازے بھی تھے پھر بھی اس کوچے سے گزرے پھر بھی اس کا نام لیا ہے ہجر کی رت جاں لیوا تھی پر غلط سبھی اندازے نکلے تازہ رفاقت کے موسم تک میں بھی جیا ہوں وہ بھی جیا ہے ایک فرازؔ تمہیں تنہا ہو جو اب تک دکھ کے رسیا ہو ورنہ اکثر دل والوں نے درد کا رستہ چھوڑ دیا ہے
Mohsin Naqvi
زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہیں محسن نقوی کی غزلیں۔
زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے بعض اوقات مری روح غضب کرتی ہے جو تری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں چاندنی ایسے اندھیروں کا ادب کرتی ہے اپنے انصاف کی زنجیر نہ دیکھو کہ یہاں مفلسی ذہن کی فریاد بھی کب کرتی ہے صحن گلشن میں ہواؤں کی صدا غور سے سن ہر کلی ماتم‌ صد جشن طرب کرتی ہے صرف دن ڈھلنے پہ موقوف نہیں ہے محسنؔ زندگی زلف کے سائے میں بھی شب کرتی ہے
Mirza Ghalib
حسن ماہ گرچہ بہ حنگام کمال اچھا ہے، مرزا غالب غزلیں
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے قطرہ دریا میں جو مل جاے تو دریا ہو جائے کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
Firaq GorakhPuri
آج بھی قافلہ عشق رواں ہے کہ جو تھا فراق گورکھپوری غزلیں
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا
Bahadur Shah Zafar
بھاری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں، بہادر شاہ ظفر غزلیں
بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں سنے ہے کون مصیبت کہوں تو کس سے کہوں جو تو ہو صاف تو کچھ میں بھی صاف تجھ سے کہوں ترے ہے دل میں کدورت کہوں تو کس سے کہوں نہ کوہ کن ہے نہ مجنوں کہ تھے مرے ہمدرد میں اپنا درد محبت کہوں تو کس سے کہوں دل اس کو آپ دیا آپ ہی پشیماں ہوں کہ سچ ہے اپنی ندامت کہوں تو کس سے کہوں کہوں میں جس سے اسے ہووے سنتے ہی وحشت پھر اپنا قصۂ وحشت کہوں تو کس سے کہوں رہا ہے تو ہی تو غم خوار اے دل غمگیں ترے سوا غم فرقت کہوں تو کس سے کہوں جو دوست ہو تو کہوں تجھ سے دوستی کی بات تجھے تو مجھ سے عداوت کہوں تو کس سے کہوں نہ مجھ کو کہنے کی طاقت کہوں تو کیا احوال نہ اس کو سننے کی فرصت کہوں تو کس سے کہوں کسی کو دیکھتا اتنا نہیں حقیقت میں ظفرؔ میں اپنی حقیقت کہوں تو کس سے کہوں
Altaf Hussain Hali
جنون کار فرما ہوا چاہتا ہے الطاف حسین حالی غزلیں
جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے قدم دشت پیما ہوا چاہتا ہے دم گریہ کس کا تصور ہے دل میں کہ اشک اشک دریا ہوا چاہتا ہے خط آنے لگے شکوہ آمیز ان کے ملاپ ان سے گویا ہوا چاہتا ہے بہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کو وہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہے ابھی لینے پائے نہیں دم جہاں میں اجل کا تقاضا ہوا چاہتا ہے مجھے کل کے وعدے پہ کرتے ہیں رخصت کوئی وعدہ پورا ہوا چاہتا ہے فزوں تر ہے کچھ ان دنوں ذوق عصیاں در رحمت اب وا ہوا چاہتا ہے قلق گر یہی ہے تو راز نہانی کوئی دن میں رسوا ہوا چاہتا ہے وفا شرط الفت ہے لیکن کہاں تک؟ دل اپنا بھی تجھ سا ہوا چاہتا ہے بہت حظ اٹھاتا ہے دل تجھ سے مل کر قلق دیکھیے کیا ہوا چاہتا ہے غم رشک کو تلخ سمجھے تھے ہمدم سو وہ بھی گوارا ہوا چاہتا ہے بہت چین سے دن گزرتے ہیں حالیؔ کوئی فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے
Gulzar
ذکر ہوتا ہے جہاں بھی میرے افسانے کا، گلزار غزلس۔
ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا ایک دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا بلبلہ پھر سے چلا پانی میں غوطے کھانے نہ سمجھنے کا اسے وقت نہ سمجھانے کا میں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے ایسا میٹھا ترا انداز تھا فرمانے کا کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے نہ تو آنے کی خبر ہے نہ پتا جانے کا
Javed Akhtar
میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا، جاوید اختر غزلیں
میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا برس کے کھل گئے آنسو نتھر گئی ہے فضا چمک رہا ہے سر شام درد کا تارا کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا اک امانت ہے مری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا جو پر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی کھلے تھے پر تو مرا آسمان تھا سارا وہ سانپ چھوڑ دے ڈسنا یہ میں بھی کہتا ہوں مگر نہ چھوڑیں گے لوگ اس کو گر نہ پھنکارا
Kaifi Azmi
خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے، کیفی اعظمی غزلیں
خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم خیر بجھنے دو ان کو ہوا تو چلے حاکم شہر یہ بھی کوئی شہر ہے مسجدیں بند ہیں مے کدہ تو چلے اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے بیلچے لاؤ کھولو زمیں کی تہیں میں کہاں دفن ہوں کچھ پتا تو چلے
Javed Akhtar
وہ زمانہ گزر گیا کب کا جاوید اختر غزلیں
وہ زمانہ گزر گیا کب کا تھا جو دیوانہ مر گیا کب کا ڈھونڈھتا تھا جو اک نئی دنیا لوٹ کے اپنے گھر گیا کب کا وہ جو لایا تھا ہم کو دریا تک پار اکیلے اتر گیا کب کا اس کا جو حال ہے وہی جانے اپنا تو زخم بھر گیا کب کا خواب در خواب تھا جو شیرازہ اب کہاں ہے بکھر گیا کب کا
Jigar Moradabadi
دل کو سکون، روح کو آرام آ گیا، جگر مرادآبادی غزلیں
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے میں آ گیا کہ سایہ تہ دام آ گیا دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ اب آفتاب زیست لب بام آ گیا
Habib Jalib
تم سے پہلے وہ جو ایک شخص یہاں تخت نشین تھا، حبیب جالب غزلیں۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
Faiz Ahmad Faiz
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر، فیض احمد فیض کی غزلیں
''آپ کی یاد آتی رہی رات بھر'' چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر ایک امید سے دل بہلتا رہا اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
Bahadur Shah Zafar
روکھ جو زیرِ سنبل پُر پیچ و تاب آ جائے گا، بہادر شاہ ظفر غزلیں
رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا پھر کے برج سنبلہ میں آفتاب آ جائے گا تیرا احساں ہوگا قاصد گر شتاب آ جائے گا صبر مجھ کو دیکھ کر خط کا جواب آ جائے گا ہو نہ بیتاب اتنا گر اس کا عتاب آ جائے گا تو غضب میں اے دل خانہ خراب آ جائے گا اس قدر رونا نہیں بہتر بس اب اشکوں کو روک ورنہ طوفاں دیکھ اے چشم پر آب آ جائے گا پیش ہووے گا اگر تیرے گناہوں کا حساب تنگ ظالم عرصۂ روز حساب آ جائے گا دیکھ کر دست ستم میں تیری تیغ آب دار میرے ہر زخم جگر کے منہ میں آب آ جائے گا اپنی چشم مست کی گردش نہ اے ساقی دکھا دیکھ چکر میں ابھی جام شراب آ جائے گا خوب ہوگا ہاں جو سینہ سے نکل جائے گا تو چین مجھ کو اے دل پر اضطراب آ جائے گا اے ظفرؔ اٹھ جائے گا جب پردہ شرم و حجاب سامنے وہ یار میرے بے حجاب آ جائے گا
Mirza Ghalib
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا، مرزا غالب غزلیں
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاو جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یا رب اپنے خط کو ہم پہنچایں کیا موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستان یار سے اٹھ جائیں کیا عمر بھر دیکھا کیا مرنے کی راہ مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
Mirza Ghalib
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا مرزا غالب غزلیں
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
Dagh Dehlvi
ظاہد نہ کہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں، داغ دہلوی غزلیں
زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں تجھ کو لپٹ پڑیں گے دیوانے آدمی ہیں غیروں کی دوستی پر کیوں اعتبار کیجے یہ دشمنی کریں گے بیگانے آدمی ہیں جو آدمی پہ گزری وہ اک سوا تمہارے کیا جی لگا کے سنتے افسانے آدمی ہیں کیا جرأتیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں مے بوند بھر پلا کر کیا ہنس رہا ہے ساقی بھر بھر کے پیتے آخر پیمانے آدمی ہیں تم نے ہمارے دل میں گھر کر لیا تو کیا ہے آباد کرتے آخر ویرانے آدمی ہیں ناصح سے کوئی کہہ دے کیجے کلام ایسا حضرت کو تا کہ کوئی یہ جانے آدمی ہیں جب داور قیامت پوچھے گا تم پہ رکھ کر کہہ دیں گے صاف ہم تو بیگانے آدمی ہیں میں وہ بشر کہ مجھ سے ہر آدمی کو نفرت تم شمع وہ کہ تم پر پروانے آدمی ہیں محفل بھری ہوئی ہے سودائیوں سے اس کی اس غیرت پری پر دیوانے آدمی ہیں شاباش داغؔ تجھ کو کیا تیغ عشق کھائی جی کرتے ہیں وہی جو مردانے آدمی ہیں
Mirza Ghalib
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے مرزا غالب غزلیں
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے ہوا رقیب تو ہو نامہ بر ہے کیا کہئے یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بن نہ رہے قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہئے رہے ہے یوں گہہ و بے گہہ کہ کوئے دوست کو اب اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے کیا کہئے زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے کیا کہئے سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پرسش حال کہ یہ کہے کہ سر رہ گزر ہے کیا کہئے تمہیں نہیں ہے سر رشتۂ وفا کا خیال ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے مگر ہے کیا کہئے انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑیے ہمیں جواب سے قطع نظر ہے کیا کہئے حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئے کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں لیکن سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے کیا کہئے
Jaan Nisar Akhtar
تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا جاں نثار اختر غزلیں
تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا یہ کم نہیں ہمیں جینے کا حوصلہ تو رہا گزر ہی آئے کسی طرح تیرے دیوانے قدم قدم پہ کوئی سخت مرحلہ تو رہا چلو نہ عشق ہی جیتا نہ عقل ہار سکی تمام وقت مزے کا مقابلہ تو رہا میں تیری ذات میں گم ہو سکا نہ تو مجھ میں بہت قریب تھے ہم پھر بھی فاصلہ تو رہا یہ اور بات کہ ہر چھیڑ لاابالی تھی تری نظر کا دلوں سے معاملہ تو رہا
Sahir Ludhianvi
لب پہ پابندی تو ہے، احساس پر پہرا تو ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں
لب پہ پابندی تو ہے احساس پر پہرا تو ہے پھر بھی اہل دل کو احوال بشر کہنا تو ہے خون اعدا سے نہ ہو خون شہیداں ہی سے ہو کچھ نہ کچھ اس دور میں رنگ چمن نکھرا تو ہے اپنی غیرت بیچ ڈالیں اپنا مسلک چھوڑ دیں رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے ہے جنہیں سب سے زیادہ دعویٔ حب الوطن آج ان کی وجہ سے حب وطن رسوا تو ہے بجھ رہے ہیں ایک اک کر کے عقیدوں کے دیے اس اندھیرے کا بھی لیکن سامنا کرنا تو ہے جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے
Bahadur Shah Zafar
کیونکہ ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں بہادر شاہ ظفر غزلیں
کیونکہ ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں اک سبب کیا بھید واں کا سب کا سب کھلتا نہیں پوچھتا ہے حال بھی گر وہ تو مارے شرم کے غنچۂ تصویر کے مانند لب کھلتا نہیں شاہد مقصود تک پہنچیں گے کیونکر دیکھیے بند ہے باب تمنا ہے غضب کھلتا نہیں بند ہے جس خانۂ زنداں میں دیوانہ تیرا اس کا دروازہ پری رو روز و شب کھلتا نہیں دل ہے یہ غنچہ نہیں ہے اس کا عقدہ اے صبا کھولنے کا جب تلک آوے نہ ڈھب کھلتا نہیں عشق نے جن کو کیا خاطر گرفتہ ان کا دل لاکھ ہووے گرچہ سامان طرب کھلتا نہیں کس طرح معلوم ہووے اس کے دل کا مدعا مجھ سے باتوں میں ظفرؔ وہ غنچہ لب کھلتا نہیں
Bahadur Shah Zafar
نہ دائم غم ہے نہ عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے، بہادر شاہ ظفر غزلیں
نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے تبدل یاں ہے ہر ساعت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے گریباں چاک ہوں گاہے اڑاتا خاک ہوں گاہے لیے پھرتی مجھے وحشت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے ابھی ہیں وہ مرے ہم دم ابھی ہو جائیں گے دشمن نہیں اک وضع پر صحبت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے جو شکل شیشہ گریاں ہوں تو مثل جام خنداں ہوں یہی ہے یاں کی کیفیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے کسی وقت اشک ہیں جاری کسی وقت آہ اور زاری غرض حال غم فرقت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے کوئی دن ہے بہار گل پھر آخر ہے خزاں بالکل چمن ہے منزل عبرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے ظفرؔ اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
Jaan Nisar Akhtar
رنج و غم مانگے ہیں اندوہ و بلا مانگے ہیں جان نثار اختر غزلیں
رنج و غم مانگے ہے اندوہ و بلا مانگے ہے دل وہ مجرم ہے کہ خود اپنی سزا مانگے ہے چپ ہے ہر زخم گلو چپ ہے شہیدوں کا لہو دست قاتل ہے جو محنت کا صلہ مانگے ہے تو بھی اک دولت نایاب ہے پر کیا کہیے زندگی اور بھی کچھ تیرے سوا مانگے ہے کھوئی کھوئی یہ نگاہیں یہ خمیدہ پلکیں ہاتھ اٹھائے کوئی جس طرح دعا مانگے ہے راس اب آئے گی اشکوں کی نہ آہوں کی فضا آج کا پیار نئی آب و ہوا مانگے ہے بانسری کا کوئی نغمہ نہ سہی چیخ سہی ہر سکوت شب غم کوئی صدا مانگے ہے لاکھ منکر سہی پر ذوق پرستش میرا آج بھی کوئی صنم کوئی خدا مانگے ہے سانس ویسے ہی زمانے کی رکی جاتی ہے وہ بدن اور بھی کچھ تنگ قبا مانگے ہے دل ہر اک حال سے بیگانہ ہوا جاتا ہے اب توجہ نہ تغافل نہ ادا مانگے ہے
Jaan Nisar Akhtar
دل کو ہر لمحہ بچاتے رہے جذبات سے ہم، جاں نثار اختر غزلیں
دل کو ہر لمحہ بچاتے رہے جذبات سے ہم اتنے مجبور رہے ہیں کبھی حالات سے ہم نشۂ مے سے کہیں پیاس بجھی ہے دل کی تشنگی اور بڑھا لائے خراجات سے ہم آج تو مل کے بھی جیسے نہ ملے ہوں تجھ سے چونک اٹھتے تھے کبھی تیری ملاقات سے ہم عشق میں آج بھی ہے نیم نگاہی کا چلن پیار کرتے ہیں اسی حسن روایات سے ہم مرکز دیدۂ خوبان جہاں ہیں بھی تو کیا ایک نسبت بھی تو رکھتے ہیں تری ذات سے ہم
Wali Mohammad Wali
شغل بہتر ہے عشق بازی کا ولی محمد ولی غزلیں
شغل بہتر ہے عشق بازی کا کیا حقیقی و کیا مجازی کا ہر زباں پر ہے مثل شانہ مدام ذکر تجھ زلف کی درازی کا آج تیری بھواں نے مسجد میں ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا گر نئیں راز عشق سوں آگاہ فخر بے جا ہے فخر رازی کا اے ولیؔ سرو قد کو دیکھوں گا وقت آیا ہے سرفرازی کا
Allama Iqbal
وہ حرفِ راز کی مجھ کو سکھا گیا ہے جنون علامہ اقبال غزلیں
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں عجب مزہ ہے مجھے لذت خودی دے کر وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستئ شوق نہ مال و دولت قاروں نہ فکر افلاطوں سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں علاج آتش رومیؔ کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں
Kaifi Azmi
جو وہ میرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا، کیفی اعظمی غزلیں ۱
جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا لبوں سے اڑ گیا جگنو کی طرح نام اس کا سہارا اب مرے گھر میں نہ روشنی کا رہا گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا
Mirza Ghalib
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا مرزا غالب غزلیں
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا
Mirza Ghalib
حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے، مرزا غالب غزلیں
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے آئنہ زانوئے فکر اختراع جلوہ ہے تا کجا اے آگہی رنگ تماشا باختن چشم وا گردیدہ آغوش وداع جلوہ ہے
Firaq GorakhPuri
زمین بدلی، فلک بدلا، مذاقِ زندگی بدلا، فراق گورکھپوری غزلیں
زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا رموز بے خودی بدلے تقاضائے‌ خودی بدلا بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں نہیں بدلی ابھی دنیا تو دنیا کو ابھی بدلا نئی منزل کے میر کارواں بھی اور ہوتے ہیں پرانے خضر رہ بدلے وہ طرز رہبری بدلا کبھی سوچا بھی ہے اے نظم کہنہ کے خداوندو تمہارا حشر کیا ہوگا جو یہ عالم کبھی بدلا ادھر پچھلے سے اہل‌‌ مال و زر پر رات بھاری ہے ادھر بیداری جمہور کا انداز بھی بدلا زہے سوز‌ غم آدم خوشا ساز دل آدم اسی اک شمع کی لو نے جہان تیرگی بدلا نئے منصور ہیں صدیوں پرانے شیخ و قاضی ہیں نہ فتوے کفر کے بدلے نہ عذر دار ہی بدلا بتائے تو بتائے اس کو تیری شوخئ پنہاں تری چشم توجہ ہے کہ طرز بے رخی بدلا بہ فیض آدم خاکی زمیں سونا اگلتی ہے اسی ذرے نے دور مہر و ماہ و مشتری بدلا ستارے جاگتے ہیں رات لٹ چھٹکائے سوتی ہے دبے پاؤں کسی نے آ کے خواب زندگی بدلا فراقؔ ہمنوائے‌‌ میرؔ و غالبؔ اب نئے نغمے وہ بزم زندگی بدلی وہ رنگ شاعری بدلا
Mirza Ghalib
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار مرزا غالب غزلیں
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار نگاہ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار وفور اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید مقدم یار گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار ہوئی ہے کس قدر ارزانی مۓ جلوہ کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار جو ہے تجھے سر سوداۓ انتظار تو آ کہ ہیں دکان متاع نظر در و دیوار ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار وہ آ رہا مرے ہم سایے میں تو سائے سے ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار نہ پوچھ بے خودی عیش مقدم سیلاب کہ ناچتے ہیں پڑے سر بہ سر در و دیوار نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانے میں حریف راز محبت مگر در و دیوار
Naseer Turabi
سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو، نصیر ترابی غزلیں۔
سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو مرے دیار سے گزری جو اے کرن پھر تو لباس جاں میں نہیں شعلگی کا رنگ مگر جھلس رہا ہے مرے ساتھ کیوں بظاہر تو وفائے وعدہ و پیماں کا اعتبار بھی کیا کہ میں تو صاحب ایماں ہوں اور منکر تو مرے وجود میں اک بے زباں سمندر ہے اتر کے دیکھ سفینے سے میری خاطر تو میں شاخ سبز نہیں محرم صبا بھی نہیں مرے فریب میں کیوں آ گیا ہے طائر تو اسی امید پہ جلتے ہیں راستوں میں چراغ کبھی تو لوٹ کے آئے گا اے مسافر تو
Allama Iqbal
سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں، علامہ اقبال غزلیں
سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میں میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست وائے محرومی خذف چین لب ساحل ہوں میں ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں بزم ہستی اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
Waseem Barelvi
دعا کرو کہ کوئی پیاس نظرِ جام نہ ہو، وسیم بریلوی غزلیں
دعا کرو کہ کوئی پیاس نذر جام نہ ہو وہ زندگی ہی نہیں ہے جو ناتمام نہ ہو جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے صدیوں سے کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو کوئی چراغ نہ آنسو نہ آرزوئے سحر خدا کرے کہ کسی گھر میں ایسی شام نہ ہو عجیب شرط لگائی ہے احتیاطوں نے کہ تیرا ذکر کروں اور تیرا نام نہ ہو صبا مزاج کی تیزی بھی ایک نعمت ہے اگر چراغ بجھانا ہی ایک کام نہ ہو وسیمؔ کتنی ہی صبحیں لہو لہو گزریں اک ایسی صبح بھی آئے کہ جس کی شام نہ ہو
Habib Jalib
اور سب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا، حبیب جالب غزلیں 1
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ لکھا شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی پڑھ کے نا خوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالبؔ رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا
Bahadur Shah Zafar
یہاں خاک کا بستر ہے، گلے میں کفن ہے، بہادر شاہ ظفر غزلیں۔
یاں خاک کا بستر ہے گلے میں کفنی ہے واں ہاتھ میں آئینہ ہے گل پیرہنی ہے ہاتھوں سے ہمیں عشق کے دن رات نہیں چین فریاد و فغاں دن کو ہے شب نعرہ زنی ہے ہشیار ہو غفلت سے تو غافل نہ ہو اے دل اپنی تو نظر میں یہ جگہ بے وطنی ہے کچھ کہہ نہیں سکتا ہوں زباں سے کہ ذرا دیکھ کیا جائے ہے جس جائے نہ کچھ دم زدنی ہے مژگاں پہ مرے لخت جگر ہی نہیں یارو اس تار سے وہ رشتہ عقیق یمنی ہے لکھ اور غزل قافیے کو پھیر ظفرؔ تو اب طبع کی دریا کی تری موج زنی ہے
Mohsin Naqvi
نیا ہے شہر، نئے آثار تلاش کروں، محسن نقوی غزلیں
نیا ہے شہر نئے آسرے تلاش کروں تو کھو گیا ہے کہاں اب تجھے تلاش کروں جو دشت میں بھی جلاتے تھے فصل گل کے چراغ میں شہر میں بھی وہی آبلے تلاش کروں تو عکس ہے تو کبھی میری چشم تر میں اتر ترے لیے میں کہاں آئنے تلاش کروں تجھے حواس کی آوارگی کا علم کہاں کبھی میں تجھ کو ترے سامنے تلاش کروں غزل کہوں کبھی سادہ سے خط لکھوں اس کو اداس دل کے لیے مشغلے تلاش کروں مرے وجود سے شاید ملے سراغ ترا کبھی میں خود کو ترے واسطے تلاش کروں میں چپ رہوں کبھی بے وجہ ہنس پڑوں محسنؔ اسے گنوا کے عجب حوصلے تلاش کروں
Mirza Ghalib
شبنم بہ گل لالہ نہ خالی ز ادا ہے، مرزا غالب غزلیں
شبنم بہ گل لالہ نہ خالی ز ادا ہے داغ دل بے درد نظر گاہ حیا ہے دل خوں شدۂ کشمکش حسرت دیدار آئینہ بہ دست بت بد مست حنا ہے شعلے سے نہ ہوتی ہوس شعلہ نے جو کی جی کس قدر افسردگی دل پہ جلا ہے تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بہ صد ذوق آئینہ بہ انداز گل آغوش کشا ہے قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے خو نے تری افسردہ کیا وحشت دل کو معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے مجبوری و دعواۓ گرفتاری الفت دست تۂ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے معلوم ہوا حال شہیدان گزشتہ تیغ ستم آئینۂ تصویر نما ہے اے پرتو خورشید جہاں تاب ادھر بھی سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے بیگانگی خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے
Dagh Dehlvi
تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ، داغ دہلوی غزلیں
تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ مری طرف بھی تو سرکار دیکھتے جاؤ نہ جاؤ حال دل زار دیکھتے جاؤ کہ جی نہ چاہے تو ناچار دیکھتے جاؤ بہار عمر میں باغ جہاں کی سیر کرو کھلا ہوا ہے یہ گلزار دیکھتے جاؤ یہی تو چشم حقیقت نگر کا سرمہ ہے نزاع کافر و دیں دار دیکھتے جاؤ اٹھاؤ آنکھ نہ شرماؤ یہ تو محفل ہے غضب سے جانب اغیار دیکھتے جاؤ نہیں ہے جنس وفا کی تمہیں جو قدر نہ ہو بنیں گے کتنے خریدار دیکھتے جاؤ تمہیں غرض جو کرو رحم پائمالوں پر تم اپنی شوخیٔ رفتار دیکھتے جاؤ قسم بھی کھائی تھی قرآن بھی اٹھایا تھا پھر آج ہے وہی انکار دیکھتے جاؤ یہ شامت آئی کہ اس کی گلی میں دل نے کہا کھلا ہے روزن دیوار دیکھتے جاؤ ہوا ہے کیا ابھی ہنگامہ اور کچھ ہوگا فغاں میں حشر کے آثار دیکھتے جاؤ شب وصال عدو کی یہی نشانی ہے نشان بوسۂ رخسار دیکھتے جاؤ تمہاری آنکھ مرے دل سے لے سبب بے وجہ ہوئی ہے لڑنے کو تیار دیکھتے جاؤ ادھر کو آ ہی گئے اب تو حضرت زاہد یہیں ہے خانۂ خمار دیکھتے جاؤ رقیب برسر پرخاش ہم سے ہوتا ہے بڑھے گی مفت میں تکرار دیکھتے جاؤ نہیں ہیں جرم محبت میں سب کے سب ملزم خطا معاف خطاوار دیکھتے جاؤ دکھا رہی ہے تماشا فلک کی نیرنگی نیا ہے شعبدہ ہر بار دیکھتے جاؤ بنا دیا مری چاہت نے غیرت یوسف تم اپنی گرمئ بازار دیکھتے جاؤ نہ جاؤ بند کئے آنکھ رہروان عدم ادھر ادھر بھی خبردار دیکھتے جاؤ سنی سنائی پہ ہرگز کبھی عمل نہ کرو ہمارے حال کے اخبار دیکھتے جاؤ کوئی نہ کوئی ہر اک شیر میں ہے بات ضرور جناب داغؔ کے اشعار دیکھتے جاؤ
Nazm Tabatabai
یہ ہوا مال حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا، نظم تباہی، غزلیں
یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا کہ صدا ہے لطمۂ موج کی سر پر غرور کدھر گیا مجھے جذب دل نے اے جز بہک کے رکھا قدم کوئی مجھے پر لگائے شوق نے کہیں تھک کے میں جو ٹھہر گیا مجھے پیری اور شباب میں جو ہے امتیاز تو اس قدر کوئی جھونکا باد سحر کا تھا مرے پاس سے جو گزر گیا اثر اس کے عشوۂ ناز کا جو ہوا وہ کس سے بیاں کروں مجھے تو اجل کی ہے آرزو اسے وہم ہے کہ یہ مر گیا تجھے اے خطیب چمن نہیں خبر اپنے خطبۂ شوق میں کہ کتاب گل کا ورق ورق تری بے خودی سے بکھر گیا کسے تو سناتا ہے ہم نشیں کہ ہے عشوۂ دشمن عقل و دیں ترے کہنے کا ہے مجھے یقیں میں ترے ڈرانے سے ڈر گیا کروں ذکر کیا میں شباب کا سنے کون قصہ یہ خواب کا یہ وہ رات تھی کہ گزر گئی یہ وہ نشہ تھا کہ اتر گیا دل ناتواں کو تکان ہو مجھے اس کی تاب نہ تھی ذرا غم انتظار سے بچ گیا تھا نوید وصل سے مر گیا مرے صبر و تاب کے سامنے نہ ہجوم خوف و رجا رہا وہ چمک کے برق رہ گئی وہ گرج کے ابر گزر گیا مجھے بحر غم سے عبور کی نہیں فکر اے مرے چارہ گر نہیں کوئی چارہ کار اب مرے سر سے آب گزر گیا مجھے راز عشق کے ضبط میں جو مزہ ملا ہے نہ پوچھیے مے انگبیں کا یہ گھونٹ تھا کہ گلے سے میرے اتر گیا نہیں اب جہان میں دوستی کبھی راستے میں جو مل گئے نہیں مطلب ایک کو ایک سے یہ ادھر چلا وہ ادھر گیا اگر آ کے غصہ نہیں رہا تو لگی تھی آگ کہ بجھ گئی جو حسد کا جوش فرو ہوا تو یہ زہر چڑھ کے اتر گیا تجھے نظمؔ وادئ شوق میں عبث احتیاط ہے اس قدر کہیں گرتے گرتے سنبھل گیا کہیں چلتے چلتے ٹھہر گیا
Jigar Moradabadi
یاداش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا، جگر مرادآبادی غزلیں
یادش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا جب عشق اپنے مرکز اصلی پہ آ گیا خود بن گیا حسین دو عالم پہ چھا گیا جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا وہ کر سکے بیاں نہ ہمیں سے کہا گیا ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا دل بن گیا نگاہ نگہ بن گئی زباں آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا میرا کمال شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
Parveen Shakir
مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے پروین شاکر غزلیں
مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر اک عمر مرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے محنت مری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے نکلے ہیں تو رستے میں کہیں شام بھی ہوگی سورج بھی مگر آئے گا اس رہ گزر سے
Parveen Shakir
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا، پروین شاکر غزلیں
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
Mirza Ghalib
پیناس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے مرزا غالب غزلیں
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
Waseem Barelvi
میں اپنے خواب سے بچھڑا نظر نہیں آتا، وسیم بریلوی غزلیں
میں اپنے خواب سے بچھڑا نظر نہیں آتا تو اس صدی میں اکیلا نظر نہیں آتا عجب دباؤ ہے ان باہری ہواؤں کا گھروں کا بوجھ بھی اٹھتا نظر نہیں آتا میں تیری راہ سے ہٹنے کو ہٹ گیا لیکن مجھے تو کوئی بھی رستہ نظر نہیں آتا میں اک صدا پہ ہمیشہ کو گھر تو چھوڑ آیا مگر پکارنے والا نظر نہیں آتا دھواں بھرا ہے یہاں تو سبھی کی آنکھوں میں کسی کو گھر مرا جلتا نظر نہیں آتا غزل سرائی کا دعویٰ تو سب کرے ہیں وسیمؔ مگر وہ میرؔ سا لہجہ نظر نہیں آتا
Mohsin Naqvi
بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا، محسن نقوی غزلیں
بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا اداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا حیات اب شام غم کی تشیبہ خود بنے گی تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں ہمارے جذبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا
Jaun Eliya
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں، جون ایلیا غزلیں
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں اب ہمارا مکان کس کا ہے ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں ہو تری خاک آستاں پہ سلام ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
Mirza Ghalib
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا، مرزا غالب غزلیں
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
Akbar Allahabadi
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں، اکبر الہ آبادی غزلیں
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی ہر چند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں افسردہ ہوں عبرت سے دوا کی نہیں حاجت غم کا مجھے یہ ضعف ہے بیمار نہیں ہوں وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے الجھوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں ہوں یا رب مجھے محفوظ رکھ اس بت کے ستم سے میں اس کی عنایت کا طلب گار نہیں ہوں گو دعوی تقوی نہیں درگاہ خدا میں بت جس سے ہوں خوش ایسا گنہ گار نہیں ہوں افسردگی و ضعف کی کچھ حد نہیں اکبرؔ کافر کے مقابل میں بھی دیں دار نہیں ہوں
Parveen Shakir
اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے پروین شاکر غزلیں
اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا تو کشتی کام لے کیا بادباں سے بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں پتا منزل کا میر کارواں سے توجہ برق کی حاصل رہی ہے سو ہے آزاد فکر آشیاں سے ہوا کو رازداں ہم نے بنایا اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے مگر فرصت نہ تھی کار جہاں سے وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے
Nida Fazli
گھر سے نکلے تو ہو سوچا بھی کدھر جاؤ گے، ندا فاضلی غزلیں
گھر سے نکلے تو ہو سوچا بھی کدھر جاؤ گے ہر طرف تیز ہوائیں ہیں بکھر جاؤ گے اتنا آساں نہیں لفظوں پہ بھروسا کرنا گھر کی دہلیز پکارے گی جدھر جاؤ گے شام ہوتے ہی سمٹ جائیں گے سارے رستے بہتے دریا سے جہاں ہو گے ٹھہر جاؤ گے ہر نئے شہر میں کچھ راتیں کڑی ہوتی ہیں چھت سے دیواریں جدا ہوں گی تو ڈر جاؤ گے پہلے ہر چیز نظر آئے گی بے معنی سی اور پھر اپنی ہی نظروں سے اتر جاؤ گے
Wali Mohammad Wali
ہوئے ہیں رام پیتم کے نین آہستہ آہستہ ولی محمد ولی کی غزلیں۔
ہوئے ہیں رام پیتم کے نین آہستہ آہستہ کہ جیوں پھاندے میں آتے ہیں ہرن آہستہ آہستہ مرا دل مثل پروانے کے تھا مشتاق جلنے کا لگی اس شمع سوں آخر لگن آہستہ آہستہ گریباں صبر کا مت چاک کر اے خاطر مسکیں سنے گا بات وو شیریں بچن آہستہ آہستہ گل و بلبل کا گلشن میں خلل ہووے تو برجا ہے چمن میں جب چلے وو گل بدن آہستہ آہستہ ولیؔ سینے میں میرے پنجۂ عشق ستم گر نے کیا ہے چاک دل کا پیرہن آہستہ آہستہ
Wali Mohammad Wali
اگر گلشن طرف وہ نو خطِ رنگین ادا نکلے والی محمد والی غزلیں
اگر گلشن طرف وو نو خط رنگیں ادا نکلے گل و ریحاں سوں رنگ و بو شتابی پیشوا نکلے کھلے ہر غنچۂ دل جیوں گل شاداب شادی سوں اگر ٹک گھر سوں باہر وو بہار دل کشا نکلے غنیم غم کیا ہے فوج بندی عشق بازاں پر بجا ہے آج وو راجہ اگر نوبت بجا نکلے نثار اس کے قدم اوپر کروں انجھواں کے گوہر سب اگر کرنے کوں دل جوئی وو سرو خوش ادا نکلے صنم آئے کروں گا نالۂ جاں سوز کوں ظاہر مگر اس سنگ دل سوں مہربانی کی صدا نکلے رہے مانند لعل بے بہا شاہاں کے تاج اوپر محبت میں جو کوئی اسباب ظاہر کوں بہا نکلے بخیلی درس کی ہرگز نہ کیجو اے پری پیکر ولیؔ تیری گلی میں جب کہ مانند گدا نکلے
Allama Iqbal
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی علامہ اقبال غزلیں
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنئ پیغام ابھی شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی تو ہے زناریٔ بت خانۂ ایام ابھی عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی سعئ پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی ابر نیساں یہ تنک بخشیٔ شبنم کب تک میرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی بادہ گردان عجم وہ عربی میری شراب مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی
Akbar Allahabadi
خدا علی گڑھ کے مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے، اکبر الہ آبادی غزلیں
خدا علی گڑھ کی مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے بھرے ہوئے ہیں رئیس زادے امیر زادے شریف زادے لطیف و خوش وضع چست و چالاک و صاف و پاکیزہ شاد و خرم طبیعتوں میں ہے ان کی جودت دلوں میں ان کے ہیں نیک ارادے کمال محنت سے پڑھ رہے ہیں کمال غیرت سے بڑھ رہے ہیں سوار مشرق کی راہ میں ہیں تو مغربی راہ میں پیادے ہر اک ہے ان میں کا بے شک ایسا کہ آپ اسے جانتے ہیں جیسا دکھائے محفل میں قد رعنا جو آپ آئیں تو سر جھکا دے فقیر مانگیں تو صاف کہہ دیں کہ تو ہے مضبوط جا کما کھا قبول فرمائیں آپ دعوت تو اپنا سرمایہ کل کھلا دے بتوں سے ان کو نہیں لگاوٹ مسوں کی لیتے نہیں وہ آہٹ تمام قوت ہے صرف خواندن نظر کے بھولے ہیں دل کی سادے نظر بھی آئے جو زلف پیچاں تو سمجھیں یہ کوئی پالسی ہے الکٹرک لائٹ اس کو سمجھیں جو برق وش کوئی کوئی دے نکلتے ہیں کر کے غول بندی بنام تہذیب و درد مندی یہ کہہ کے لیتے ہیں سب سے چندے ہمیں جو تم دو تمہیں خدا دے انہیں اسی بات پر یقین ہے کہ بس یہی اصل کار دیں ہے اسی سی ہوگا فروغ قومی اسی سے چمکیں گے باپ دادے مکان کالج کے سب مکیں ہیں ابھی انہیں تجربے نہیں ہیں خبر نہیں ہے کہ آگے چل کر ہے کیسی منزل ہیں کیسی جادے دلوں میں ان کے ہے نور ایماں قوی نہیں ہے مگر نگہباں ہوائے منطق ادائے طفلی یہ شمع ایسا نہ ہو بجھا دے فریب دے کر نکالے مطلب سکھائے تحقیر دین و مذہب مٹا دے آخر کو وضع ملت نمود ذاتی کو گر بڑھا دے یہی بس اکبرؔ کی التجا ہے جناب باری میں یہ دعا ہے علوم و حکمت کا درس ان کو پروفیسر دیں سمجھ خدا دے
Waseem Barelvi
میں یہ نہیں کہتا کہ میرا سر نہ ملے گا، وسیم بریلوی غزلیں
میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا لیکن مری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا سر پر تو بٹھانے کو ہے تیار زمانہ لیکن ترے رہنے کو یہاں گھر نہ ملے گا جاتی ہے چلی جائے یہ مے خانے کی رونق کم ظرفوں کے ہاتھوں میں تو ساغر نہ ملے گا دنیا کی طلب ہے تو قناعت ہی نہ کرنا قطرے ہی سے خوش ہو تو سمندر نہ ملے گا
Mirza Ghalib
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی ہیا کئے مرزا غالب غزلیں
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن مے مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گرچہ عمر خضر حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کیے غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
Mirza Ghalib
چشم خوباں خاموشی میں بھی نوا پرداز ہے، مرزا غالب غزلیں۔
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے سرمہ تو کہوے کہ دود شعلۂ آواز ہے پیکر عشاق ساز طالع نا ساز ہے نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے دست گاہ دیدۂ خوں بار مجنوں دیکھنا یک بیاباں جلوۂ گل فرش پا انداز ہے چشم خوباں مے فروش نشہ زار ناز ہے سرمہ گویا موج دود شعلۂ آواز ہے ہے صریر خامہ ریزش‌ ہاۓ استقبال ناز نامہ خود پیغام کو بال و پر پرواز ہے سرنوشت اضطراب انجامی الفت نہ پوچھ نال خامہ خار خار خاطر آغاز ہے شوخی اظہار غیر از وحشت مجنوں نہیں لیلیٰ معنی اسدؔ محمل نشین راز ہے نغمہ ہے کانوں میں اس کے نالۂ مرغ اسیر رشتۂ پا یاں نوا سامان بند ساز ہے شرم ہے طرز تلاش انتخاب یک نگاہ اضطراب چشم برپا دوختہ غماز ہے
Dagh Dehlvi
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں داغ دہلوی غزلیں
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں ناز والے نیاز کیا جانیں شمع رو آپ گو ہوئے لیکن لطف سوز و گداز کیا جانیں کب کسی در کی جبہہ سائی کی شیخ صاحب نماز کیا جانیں جو رہ عشق میں قدم رکھیں وہ نشیب و فراز کیا جانیں پوچھئے مے کشوں سے لطف شراب یہ مزا پاکباز کیا جانیں بلے چتون تری غضب ری نگاہ کیا کریں گے یہ ناز کیا جانیں جن کو اپنی خبر نہیں اب تک وہ مرے دل کا راز کیا جانیں حضرت خضر جب شہید نہ ہوں لطف عمر دراز کیا جانیں جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے آپ بندہ نواز کیا جانیں
Meer Taqi Meer
جب نام تیرا لیجیے تب چشم بھر آوے میر تقی میر غزلیں
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے واعظ نہیں کیفیت مے خانہ سے آگاہ یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار کہیو جو کبھو میرؔ بلاکش ادھر آوے مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے
Parveen Shakir
گلاب ہاتھ میں ہو، آنکھ میں ستارہ ہو، پروین شاکر غزلیں
گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو کوئی وجود محبت کا استعارہ ہو میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو کبھی کبھار اسے دیکھ لیں کہیں مل لیں یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے محبتوں میں جو احسان ہو تمہارا ہو یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا کہیں ہوا کا ہی اس نے نہ روپ دھارا ہو افق تو کیا ہے در کہکشاں بھی چھو آئیں مسافروں کو اگر چاند کا اشارا ہو میں اپنے حصے کے سکھ جس کے نام کر ڈالوں کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے وہ چاہے نظم کا ٹکڑا کہ نثر پارہ ہو
Dagh Dehlvi
دلِ ناکام کے ہیں کام خراب، داغ دہلوی غزلیں
دل ناکام کے ہیں کام خراب کر لیا عاشقی میں نام خراب اس خرابات کا یہی ہے مزہ کہ رہے آدمی مدام خراب دیکھ کر جنس دل وہ کہتے ہیں کیوں کرے کوئی اپنے دام خراب ابر تر سے صبا ہی اچھی تھی میری مٹی ہوئی تمام خراب وہ بھی ساقی مجھے نہیں دیتا وہ جو ٹوٹا پڑا ہے جام خراب کیا ملا ہم کو زندگی کے سوا وہ بھی دشوار ناتمام خراب واہ کیا منہ سے پھول جھڑتے ہیں خوب رو ہو کے یہ کلام خراب چال کی رہنمائے عشق نے بھی وہ دکھایا جو تھا مقام خراب داغؔ ہے بد چلن تو ہونے دو سو میں ہوتا ہے اک غلام خراب