Poet
stringclasses
30 values
Poem_name
stringlengths
19
107
Poetry
stringlengths
68
2.22k
Wali Mohammad Wali
کیا مجھ اشق نے ظالم کوں اب آہستہ آہستہ ولی محمد ولی غزلیں
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ وفاداری نے دل بر کی بجھایا آتش غم کوں کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ مرے دل کوں کیا بے خود تری انکھیاں نے آخر کوں کہ جیوں بے ہوش کرتی ہے شراب آہستہ آہستہ ہوا تجھ عشق سوں اے آتشیں رو دل مرا پانی کہ جیوں گلتا ہے آتش سوں گلاب آہستہ آہستہ ادا و ناز سوں آتا ہے وو روشن جبیں گھر سوں کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ ولیؔ مجھ دل میں آتا ہے خیال یار بے پروا کہ جیوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ
Faiz Ahmad Faiz
چاند نکلے کسی جانب تیری زیبائی کا، فیض احمد فیض غزلیں
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا رنگ بدلے کسی صورت شب تنہائی کا دولت لب سے پھر اے خسرو شیریں دہناں آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا گرمئی رشک سے ہر انجمن گل بدناں تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا صحن گلشن میں کبھی اے شہ شمشاد قداں پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا ایک بار اور مسیحائے دل دل زدگاں کوئی وعدہ کوئی اقرار مسیحائی کا دیدہ و دل کو سنبھالو کہ سر شام فراق ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
Meer Taqi Meer
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت میر تقی میر غزلیں
زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور سے آئے بہت دیر سے سوئے حرم آیا نہ ٹک ہم مزاج اپنا ادھر لائے بہت پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت گر بکا اس شور سے شب کو ہے تو روویں گے سونے کو ہم سایے بہت وہ جو نکلا صبح جیسے آفتاب رشک سے گل پھول مرجھائے بہت میرؔ سے پوچھا جو میں عاشق ہو تم ہو کے کچھ چپکے سے شرمائے بہت
Ahmad Faraz
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے احمد فراز غزلیں
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے جشن مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی پا بجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
Mirza Ghalib
کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے مرزا غالب غزلیں
کوہ کے ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے بے تکلف اے شرار جستہ کیا ہو جائیے بیضہ آسا ننگ بال و پر ہے یہ کنج قفس از سر نو زندگی ہو گر رہا ہو جائیے وسعت مشرب نیاز کلفت وحشت اسدؔ یک بیاباں سایۂ بال ہما ہو جائیے یاد رکھیے ناز ہائے التفات اولیں آشیان طائر رنگ حنا ہوجائیے لطف عشق ہریک انداز دگر دکھلائیے گا بے تکلف یک نگاہ آشنا ہوجائیے داداز دست جفائے صدمہ ضرب المثل گر ہمہ افتادگی جوں نقش پا ہوجائیے
Akbar Allahabadi
جہاں میں حال میرا اس قدر زبوں ہوا اکبر الہ آبادی غزلیں
جہاں میں حال مرا اس قدر زبون ہوا کہ مجھ کو دیکھ کے بسمل کو بھی سکون ہوا غریب دل نے بہت آرزوئیں پیدا کیں مگر نصیب کا لکھا کہ سب کا خون ہوا وہ اپنے حسن سے واقف میں اپنی عقل سے سیر انہوں نے ہوش سنبھالا مجھے جنون ہوا امید چشم مروت کہاں رہی باقی ذریعہ باتوں کا جب صرف ٹیلیفون ہوا نگاہ گرم کرسمس میں بھی رہی ہم پر ہمارے حق میں دسمبر بھی ماہ جون ہوا
Faiz Ahmad Faiz
تم آئے ہو نا شبِ انتظار گزری ہے، فیض احمد فیض غزلیں
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
Jaun Eliya
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے جون ایلیا غزلیں
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے یہ اداسی کہاں سے آتی ہے ہے وہ یک سر سپردگی تو بھلا بد حواسی کہاں سے آتی ہے وہ ہم آغوش ہے تو پھر دل میں نا شناسی کہاں سے آتی ہے ایک زندان بے دلی اور شام یہ صبا سی کہاں سے آتی ہے تو ہے پہلو میں پھر تری خوشبو ہو کے باسی کہاں سے آتی ہے دل ہے شب سوختہ سوائے امید تو ندا سی کہاں سے آتی ہے میں ہوں تجھ میں اور آس ہوں تیری تو نراسی کہاں سے آتی ہے
Wali Mohammad Wali
صحبت غیر منہ جایا نہ کرو ولی محمد ولی غزلیں
صحبت غیر موں جایا نہ کرو درد منداں کوں کڑھایا نہ کرو حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو اپنی خوبی کے اگر طالب ہو اپنے طالب کوں جلایا نہ کرو ہے اگر خاطر عشاق عزیز غیر کوں درس دکھایا نہ کرو مجھ کو ترشی کا ہے پرہیز صنم چین ابرو کوں دکھایا نہ کرو دل کوں ہوتی ہے سجن، بیتابی زلف کوں ہاتھ لگایا نہ کرو نگہ تلخ سوں اپنی ظالم زہر کا جام پلایا نہ کرو ہم کوں برداشت نہیں غصے کی بے سبب غصے میں آیا نہ کرو پاک بازاں میں ہے مشہور ولیؔ اس سوں چہرے کوں چھپایا نہ کرو
Jigar Moradabadi
نظر ملا کے میرے پاس آ کے لوٹ لیا جگر مرادآبادی غزلیں
نظر ملا کے مرے پاس آ کے لوٹ لیا نظر ہٹی تھی کہ پھر مسکرا کے لوٹ لیا شکست حسن کا جلوہ دکھا کے لوٹ لیا نگاہ نیچی کئے سر جھکا کے لوٹ لیا دہائی ہے مرے اللہ کی دہائی ہے کسی نے مجھ سے بھی مجھ کو چھپا کے لوٹ لیا سلام اس پہ کہ جس نے اٹھا کے پردۂ دل مجھی میں رہ کے مجھی میں سما کے لوٹ لیا انہیں کے دل سے کوئی اس کی عظمتیں پوچھے وہ ایک دل جسے سب کچھ لٹا کے لوٹ لیا یہاں تو خود تری ہستی ہے عشق کو درکار وہ اور ہوں گے جنہیں مسکرا کے لوٹ لیا خوشا وہ جان جسے دی گئی امانت عشق رہے وہ دل جسے اپنا بنا کے لوٹ لیا نگاہ ڈال دی جس پر حسین آنکھوں نے اسے بھی حسن مجسم بنا کے لوٹ لیا بڑے وہ آئے دل و جاں کے لوٹنے والے نظر سے چھیڑ دیا گدگدا کے لوٹ لیا رہا خراب محبت ہی وہ جسے تو نے خود اپنا درد محبت دکھا کے لوٹ لیا کوئی یہ لوٹ تو دیکھے کہ اس نے جب چاہا تمام ہستئ دل کو جگا کے لوٹ لیا کرشما سازی حسن ازل ارے توبہ مرا ہی آئینہ مجھ کو دکھا کے لوٹ لیا نہ لٹتے ہم مگر ان مست انکھڑیوں نے جگرؔ نظر بچاتے ہوئے ڈبڈبا کے لوٹ لیا
Mirza Ghalib
ہے کس قدر ہلاک فریب وفا گل مرزا غالب غزلیں
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل آزادی نسیم مبارک کہ ہر طرف ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دام ہوائے گل جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مر گیا اے واے نالۂ لب خونیں نوائے گل خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پائے گل ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل شرمندہ رکھتے ہیں مجھے باد بہار سے مینائے بے شراب و دل بے ہوائے گل سطوت سے تیرے جلوۂ حسن غیور کی خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل تیرے ہی جلوہ کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل غالبؔ مجھے ہے اس سے ہم آغوشی آرزو جس کا خیال ہے گل جیب قبائے گل دیوانگاں کا چارہ فروغ بہار ہے ہے شاخ گل میں پنجۂ خوباں بجائے گل مژگاں تلک رسائی لخت جگر کہاں اے وائے گر نگاہ نہ ہو آشنائے گل
Allama Iqbal
عشق سے پیدا نواۓ زندگی میں زیر و بم علامہ اقبال غزلیں
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دمبدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخ گل میں جس طرح باد سحرگاہی کا نم اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
Meer Taqi Meer
میر تقی میر کی غزل نمبر 76
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا اس باؤ نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا سمجھی نہ باد صبح کہ آ کر اٹھا دیا اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا سو آج بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نے آہ پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا سب شور ما و من کو لیے سر میں مر گئے یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہہ گئے آخر گداز عشق نے ہم کو بہا دیا کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ تالا جو تھے درست ہم کو دل شکستہ قضا نے دلا دیا گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا بوئی کباب سوختہ آئی دماغ میں شاید جگر بھی آتش غم نے جلا دیا تکلیف درد دل کی عبث ہم نشیں نے کی درد سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
Naseer Turabi
مرہم وقت نہ اعجاز مسیحائی ہے نصیر ترابی غزلیں
مرہم وقت نہ اعجاز مسیحائی ہے زندگی روز نئے زخم کی گہرائی ہے پھر مرے گھر کی فضاؤں میں ہوا سناٹا پھر در و بام سے اندیشۂ گویائی ہے تجھ سے بچھڑوں تو کوئی پھول نہ مہکے مجھ میں دیکھ کیا کرب ہے کیا ذات کی سچائی ہے تیرا منشا ترے لہجے کی دھنک میں دیکھا تری آواز بھی شاید تری انگڑائی ہے کچھ عجب گردش پرکار سفر رکھتا ہوں دو قدم مجھ سے بھی آگے مری رسوائی ہے کچھ تو یہ ہے کہ مری راہ جدا ہے تجھ سے اور کچھ قرض بھی مجھ پر تری تنہائی ہے کس لیے مجھ سے گریزاں ہے مرے سامنے تو کیا تری راہ میں حائل مری بینائی ہے وہ ستارے جو چمکتے ہیں ترے آنگن میں ان ستاروں سے تو اپنی بھی شناسائی ہے جس کو اک عمر غزل سے کیا منسوب نصیرؔ اس کو پرکھا تو کھلا قافیہ پیمائی ہے
Faiz Ahmad Faiz
راز عشق چھپا کے دیکھ لیا فیض احمد فیض غزلیں
راز الفت چھپا کے دیکھ لیا دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا اور کیا دیکھنے کو باقی ہے آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا وہ مرے ہو کے بھی مرے نہ ہوئے ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا فیضؔ تکمیل غم بھی ہو نہ سکی عشق کو آزما کے دیکھ لیا
Nida Fazli
گرج برس پیاسی دھرتی پھر پانی دے مولا، ندا فضلی غزلیں
گرج برس پیاسی دھرتی پر پھر پانی دے مولا چڑیوں کو دانے بچوں کو گڑ دھانی دے مولا دو اور دو کا جوڑ ہمیشہ چار کہاں ہوتا ہے سوچ سمجھ والوں کو تھوڑی نادانی دے مولا پھر روشن کر زہر کا پیالہ چمکا نئی صلیبیں جھوٹوں کی دنیا میں سچ کو تابانی دے مولا پھر مورت سے باہر آ کر چاروں اور بکھر جا پھر مندر کو کوئی میراؔ دیوانی دے مولا تیرے ہوتے کوئی کس کی جان کا دشمن کیوں ہو جینے والوں کو مرنے کی آسانی دے مولا
Akbar Allahabadi
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں اکبر الہ آبادی غزلیں
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں چاہتا تھا بہت سی باتوں کو مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں جرأت عرض حال کیا ہوتی نظر لطف اس نے کی ہی نہیں اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں آپ کیا جانیں قدر یا اللہ جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
Allama Iqbal
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی، علامہ اقبال غزلیں
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
Dagh Dehlvi
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں داغ دہلوی غزلیں
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں ہے مجمع اغیار کہ ہنگامۂ محشر کیا سیر مرے دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت ہم کوئی دن اس کو بھی مگر دیکھ رہے ہیں آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی حیرت زدہ سب اہل نظر دیکھ رہے ہیں نیرنگ ہے ایک ایک ترا دید کے قابل ہم اے فلک شعبدہ گر دیکھ رہے ہیں کب تک ہے تمہارا سخن تلخ گوارا اس زہر میں کتنا ہے اثر دیکھ رہے ہیں کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں اب تک تو جو قسمت نے دکھایا وہی دیکھا آئندہ ہو کیا نفع و ضرر دیکھ رہے ہیں پہلے تو سنا کرتے تھے عاشق کی مصیبت اب آنکھ سے وہ آٹھ پہر دیکھ رہے ہیں کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ اللہ دکھاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں میں داغؔ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں
Mirza Ghalib
غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں مرزا غالب غزلیں
غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں بے شانۂ صبا نہیں طرہ گیاہ کا بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ صید ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے پر گل خیال زخم سے دامن نگاہ کا جاں در ہواۓ یک نگۂ گرم ہے اسدؔ پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا عزلت گزین بزم ہیں واماندگان دید مینائے مے ہے آبلہ پائے نگاہ کا ہر گام آبلے سے ہے دل در تہ قدم کیا بیم اہل درد کو سختیٔ راہ کا طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا یارب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا جیب نیاز عشق نشاں دار ناز ہے آئینہ ہوں شکستن طرف کلاہ کا
Mirza Ghalib
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا مرزا غالب غزلیں
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا بارے اپنی بیکسی کی ہم نے پائی داد یاں ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام مہر گردوں ہے چراغ رہ گزار باد یاں ہے ترحم آفریں آرائش بیداد یاں اشک چشم دام ہے ہر دانۂ صیاد یاں ہے گداز موم انداز چکیدن ہائے خوں نیش زنبور اصل ہے نشتر فصاد یاں نا گوارا ہے ہمیں احسان صاحب دولتاں ہے زر گل بھی نظر میں جوہر فولاد یاں جنبش دل سے ہوئے ہیں عقدہ ہائے کار وا کمتریں مزدور سنگیں دست ہے فرہاد یاں قطرہ ہائے خون بسمل زیب داماں ہیں اسدؔ ہے تماشہ کردنی گل چینیٔ جلاد یاں
Jaan Nisar Akhtar
تمہارے جشن کو جشنِ فروزاں ہم نہیں کہتے، جاں نثار اختر غزلیں
تمہارے جشن کو جشن فروزاں ہم نہیں کہتے لہو کی گرم بوندوں کو چراغاں ہم نہیں کہتے اگر حد سے گزر جائے دوا تو بن نہیں جاتا کسی بھی درد کو دنیا کا درماں ہم نہیں کہتے نظر کی انتہا کوئی نہ دل کی انتہا کوئی کسی بھی حسن کو حسن فراواں ہم نہیں کہتے کسی عاشق کے شانے پر بکھر جائے تو کیا کہنا مگر اس زلف کو زلف پریشاں ہم نہیں کہتے نہ بوئے گل مہکتی ہے نہ شاخ گل لچکتی ہے ابھی اپنے گلستاں کو گلستاں ہم نہیں کہتے بہاروں سے جنوں کو ہر طرح نسبت سہی لیکن شگفت گل کو عاشق کا گریباں ہم نہیں کہتے ہزاروں سال بیتے ہیں ہزاروں سال بیتیں گے بدل جائے گی کل تقدیر انساں ہم نہیں کہتے
Allama Iqbal
دل سوز سے خالی ہے، نگاہ پاک نہیں ہے، علامہ اقبال غزلیں۔
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے کب تک رہے محکومئ انجم میں مری خاک یا میں نہیں یا گردش افلاک نہیں ہے بجلی ہوں نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے
Firaq GorakhPuri
یہ نکھٹوں کی نرم روی، یہ ہوا، یہ رات، فراق گورکھپوری غزلیں
یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات یاد آ رہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات مایوسیوں کی گود میں دم توڑتا ہے عشق اب بھی کوئی بنا لے تو بگڑی نہیں ہے بات کچھ اور بھی تو ہو ان اشارات کے سوا یہ سب تو اے نگاہ کرم بات بات بات اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات ہم اہل انتظار کے آہٹ پہ کان تھے ٹھنڈی ہوا تھی غم تھا ترا ڈھل چلی تھی رات یوں تو بچی بچی سی اٹھی وہ نگاہ ناز دنیائے دل میں ہو ہی گئی کوئی واردات جن کا سراغ پا نہ سکی غم کی روح بھی ناداں ہوئے ہیں عشق میں ایسے بھی سانحات ہر سعی و ہر عمل میں محبت کا ہاتھ ہے تعمیر زندگی کے سمجھ کچھ محرکات اس جا تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں لیتی ہو جیسے سانس یہ بے جان کائنات کیا نیند آئے اس کو جسے جاگنا نہ آئے جو دن کو دن کرے وہ کرے رات کو بھی رات دریا کے مد و جزر بھی پانی کے کھیل ہیں ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات اہل رضا میں شان بغاوت بھی ہو ذرا اتنی بھی زندگی نہ ہو پابند رسمیات ہم اہل غم نے رنگ زمانہ بدل دیا کوشش تو کی سبھی نے مگر بن پڑے کی بات پیدا کرے زمین نئی آسماں نیا اتنا تو لے کوئی اثر دور کائنات شاعر ہوں گہری نیند میں ہیں جو حقیقتیں چونکا رہے ہیں ان کو بھی میرے توہمات مجھ کو تو غم نے فرصت غم بھی نہ دی فراقؔ دے فرصت حیات نہ جیسے غم حیات
Naji Shakir
ذکر ہر صبح و شام ہے تیرا ناجی شاکر غزلیں
ذکر ہر صبح و شام ہے تیرا ورد عاشق کوں نام ہے تیرا مت کر آزاد دام زلف سیں دل بال باندھا غلام ہے تیرا لشکر غم نے دل سیں کوچ کیا جب سے اس میں مقام ہے تیرا جام مے کا پلانا ہے بے رنگ شوق جن کوں مدام ہے تیرا آج ناجیؔ سے رم نہ کر اے شوخ دیکھ مدت سیں رام ہے تیرا
Mirza Ghalib
بے نالہ حاصلِ دل بستگی فراہم کر مرزا غالب غزلیں
بہ نالہ حاصل دل بستگی فراہم کر متاع خانۂ زنجیر جز صدا معلوم بہ قدر حوصلۂ عشق جلوہ ریزی ہے وگرنہ خانۂ آئینہ کی فضا معلوم اسدؔ فریفتۂ انتخاب طرز جفا وگرنہ دلبری وعدۂ وفا معلوم
Jigar Moradabadi
فکر منزل ہے نہ ہوش جادہ منزل مجھے، جگر مرادآبادی غزلیں
فکر منزل ہے نہ ہوش جادۂ منزل مجھے جا رہا ہوں جس طرف لے جا رہا ہے دل مجھے اب زباں بھی دے ادائے شکر کے قابل مجھے درد بخشا ہے اگر تو نے بجائے دل مجھے یوں تڑپ کر دل نے تڑپایا سر محفل مجھے اس کو قاتل کہنے والے کہہ اٹھے قاتل مجھے اب کدھر جاؤں بتا اے جذبۂ کامل مجھے ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے روک سکتی ہو تو بڑھ کر روک لے منزل مجھے ہر طرف سے آج آتی ہے صدائے دل مجھے جان دی کہ حشر تک میں ہوں مری تنہائیاں ہاں مبارک فرصت نظارۂ قاتل مجھے ہر اشارے پر ہے پھر بھی گردن تسلیم خم جانتا ہوں صاف دھوکے دے رہا ہے دل مجھے جا بھی اے ناصح کہاں کا سود اور کیسا زیاں عشق نے سمجھا دیا ہے عشق کا حاصل مجھے میں ازل سے صبح محشر تک فروزاں ہی رہا حسن سمجھا تھا چراغ کشتۂ محفل مجھے خون دل رگ رگ میں جم کر رہ گیا اس وہم سے بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے کیسا قطرہ کیسا دریا کس کا طوفاں کس کی موج تو جو چاہے تو ڈبو دے خشکئ ساحل مجھے پھونک دے اے غیرت سوز محبت پھونک دے اب سمجھتی ہیں وہ نظریں رحم کے قابل مجھے توڑ کر بیٹھا ہوں راہ شوق میں پائے طلب دیکھنا ہے جذبۂ بے تابئ منزل مجھے اے ہجوم ناامیدی شاد باش و زندہ باش تو نے سب سے کر دیا بیگانہ و غافل مجھے درد محرومی سہی احساس ناکامی سہی اس نے سمجھا تو بہر صورت کسی قابل مجھے یہ بھی کیا منظر ہے بڑھتے ہیں نہ رکتے ہیں قدم تک رہا ہوں دور سے منزل کو میں منزل مجھے
Wali Mohammad Wali
روح بخشی ہے کام تجھ لب کا ولی محمد ولی غزلیں
روح بخشی ہے کام تجھ لب کا دم عیسیٰ ہے نام تجھ لب کا حسن کے خضر نے کیا لبریز آب حیواں سوں جام تجھ لب کا منطق و حکمت و معانی پر مشتمل ہے کلام تجھ لب کا جنت حسن میں کیا حق نے حوض کوثر مقام تجھ لب کا رگ یاقوت کے قلم سوں لکھیں خط پرستاں پیام تجھ لب کا سبزہ و برگ و لالہ رکھتے ہیں شوق دل میں دوام تجھ لب کا غرق شکر ہوئے ہیں کام و زباں جب لیا ہوں میں نام تجھ لب کا مثل یاقوت خط میں ہے شاگرد ساغر مے مدام تجھ لب کا ہے ولیؔ کی زباں کو لذت بخش ذکر ہر صبح و شام تجھ لب کا
Gulzar
کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی گلزار غزلیں
کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی تینوں تھے ہم وہ بھی تھے اور میں بھی تھا تنہائی بھی یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی دو دو شکلیں دکھتی ہیں اس بہکے سے آئینے میں میرے ساتھ چلا آیا ہے آپ کا اک سودائی بھی کتنی جلدی میلی کرتا ہے پوشاکیں روز فلک صبح ہی رات اتاری تھی اور شام کو شب پہنائی بھی خاموشی کا حاصل بھی اک لمبی سی خاموشی تھی ان کی بات سنی بھی ہم نے اپنی بات سنائی بھی کل ساحل پر لیٹے لیٹے کتنی ساری باتیں کیں آپ کا ہنکارا نہ آیا چاند نے بات کرائی بھی
Akbar Allahabadi
جو تمہارے لبِ جان بخش کا شیدا ہوگا، اکبر الہ آبادی غزلیں
جو تمہارے لب جاں بخش کا شیدا ہوگا اٹھ بھی جائے گا جہاں سے تو مسیحا ہوگا وہ تو موسیٰ ہوا جو طالب دیدار ہوا پھر وہ کیا ہوگا کہ جس نے تمہیں دیکھا ہوگا قیس کا ذکر مرے شان جنوں کے آگے اگلے وقتوں کا کوئی بادیہ پیما ہوگا آرزو ہے مجھے اک شخص سے ملنے کی بہت نام کیا لوں کوئی اللہ کا بندا ہوگا لعل لب کا ترے بوسہ تو میں لیتا ہوں مگر ڈر یہ ہے خون جگر بعد میں پینا ہوگا
Faiz Ahmad Faiz
اب کے برس دستورِ ستم میں کیا کیا باب ایجاد ہوئے، فیض احمد فیض غزلیں
اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے جو قاتل تھے مقتول ہوئے جو صید تھے اب صیاد ہوئے پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے پہلے بھی طواف شمع وفا تھی رسم محبت والوں کی ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصورؔ ہوئے فرہادؔ ہوئے اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے فیضؔ نہ ہم یوسفؔ نہ کوئی یعقوبؔ جو ہم کو یاد کرے اپنی کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے
Meer Anees
واجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے میر انیس غزلیں
وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے اوس سے گل رنگ کا دعویٰ کرے پھر کس رو سے شمع کے رونے پہ بس صاف ہنسی آتی ہے آتش دل کہیں کم ہوتی ہے چار آنسو سے ایک دن وہ تھا کہ تکیہ تھا کسی کا بازو اب سر اٹھتا ہی نہیں اپنے سر زانو سے نزع میں ہوں مری مشکل کرو آساں یاروں کھولو تعویذ شفا جلد مرے بازو سے شوخیٔ چشم کا تو کس کی ہے دیوانہ انیسؔ آنکھیں ملتا ہے جو یوں نقش کف آہو سے
Mirza Ghalib
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے مرزا غالب غزلیں
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے گل فشانی ہائے ناز جلوہ کو کیا ہو گیا خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے خاک میں ناموس پیمان محبت مل گئی اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسم یاری ہائے ہائے ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا دل پہ اک لگنے نہ پایا زخم کاری ہائے ہائے کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تار برشگال ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے گوش مہجور پیام و چشم محروم جمال ایک دل تس پر یہ نا امید واری ہائے ہائے عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے
Habib Jalib
لوگ گیتوں کا نگر یاد آیا حبیب جلیب غزلیں
لوگ گیتوں کا نگر یاد آیا آج پردیس میں گھر یاد آیا جب چلے آئے چمن زار سے ہم التفات گل تر یاد آیا تیری بیگانہ نگاہی سر شام یہ ستم تا بہ سحر یاد آیا ہم زمانے کا ستم بھول گئے جب ترا لطف نظر یاد آیا تو بھی مسرور تھا اس شب سر بزم اپنے شعروں کا اثر یاد آیا پھر ہوا درد تمنا بیدار پھر دل‌ خاک‌ بسر یاد آیا ہم جسے بھول چکے تھے جالبؔ پھر وہی راہ گزر یاد آیا
Nazm Tabatabai
آ کے مجھ تک کشتیِ مئے ساقیا الٹی پھری، نظم طباعی، غزلیں
آ کے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری آج کیا ندی بہی الٹی ہوا الٹی پھری آتے آتے لب پر آہ نارسا الٹی پھری وہ بھی میرا ہی دبانے کو گلا الٹی پھری مڑ کے دیکھا اس نے اور وار ابرووں کا چل گیا اک چھری سیدھی پھری اور اک ذرا الٹی پھری لا سکا نظارۂ رخسار روشن کی نہ تاب جا کے آئینہ پہ چہرہ کی ضیا الٹی پھری راست بازوں ہی کو پیسا آسماں نے رات دن وائے قسمت جب پھری یہ آسیا الٹی پھری جو بڑا بول ایک دن بولے تھے پیش آیا وہی گنبد گردوں سے ٹکرا کر صدا الٹی پھری رزق کھا کر غیر کی قسمت کا زنبور عسل تو نے دیکھا حلق تک جا کر غذا الٹی پھری تو ستائش گر ہے اس کا جو ہے تیرا مدح خواں یہ تو اے مشفق ضمیر مرحبا الٹی پھری جس پر آئی تھی طبیعت کی اسی نے کچھ نہ قدر جنس دل مانند جنس ناروا الٹی پھری یا تو کشی ڈوبتی تھی یا چلی ساحل سے دور وائے ناکامی پھری بھی تو ہوا الٹی پھری گرنے والا ہے کسی دشمن پہ کیا تیر شہاب آسماں تک جا کے کیوں آہ رسا الٹی پھری جی گیا میں اس کے آ جانے سے دشمن مر گیا دیکھ کر عیسیٰ کو بالیں پر قضا الٹی پھری مر گیا بے موت میں آخر اجل بھی دور ہے کوچۂ قاتل کا بتلا کر پتا الٹی پھری ہجر کی شب مجھ کو الٹی سانس لیتے دیکھ کر ایک ہی دم میں وہاں جا کر صبا الٹی پھری ہے مرا ویرانۂ غم نظمؔ ایسا ہولناک موج سیل آئی تو لے کر بوریا الٹی پھری
Gulzar
ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا گلزار غزل کا۔
ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا میری تصویر بھی گرتی تو چھناکا ہوتا یوں بھی اک بار تو ہوتا کہ سمندر بہتا کوئی احساس تو دریا کی انا کا ہوتا سانس موسم کی بھی کچھ دیر کو چلنے لگتی کوئی جھونکا تری پلکوں کی ہوا کا ہوتا کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا کیوں مری شکل پہن لیتا ہے چھپنے کے لیے ایک چہرہ کوئی اپنا بھی خدا کا ہوتا
Ahmad Faraz
جب بھی دل کھول کے روئے ہوں گے احمد فراز کی غزلیں
جب بھی دل کھول کے روئے ہوں گے لوگ آرام سے سوئے ہوں گے بعض اوقات بہ مجبوریٔ دل ہم تو کیا آپ بھی روئے ہوں گے صبح تک دست صبا نے کیا کیا پھول کانٹوں میں پروئے ہوں گے وہ سفینے جنہیں طوفاں نہ ملے ناخداؤں نے ڈبوئے ہوں گے رات بھر ہنستے ہوئے تاروں نے ان کے عارض بھی بھگوئے ہوں گے کیا عجب ہے وہ ملے بھی ہوں فرازؔ ہم کسی دھیان میں کھوئے ہوں گے
Habib Jalib
چور تھا زخموں سے دل، زخمی جگر بھی ہو گیا، حبیب جالب غزلیں
چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا اس کو روتے تھے کہ سونا یہ نگر بھی ہو گیا لوگ اسی صورت پریشاں ہیں جدھر بھی دیکھیے اور وہ کہتے ہیں کوہ غم تو سر بھی ہو گیا بام و در پر ہے مسلط آج بھی شام الم یوں تو ان گلیوں سے خورشید سحر بھی ہو گیا اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا
Ahmad Faraz
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں احمد فراز کی غزلیں
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں ہم اگر منزلیں نہ بن پائے منزلوں تک کا راستا ہو جائیں دیر سے سوچ میں ہیں پروانے راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
Mirza Ghalib
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جا کا مرزا غالب غزلیں
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب مگر ستم زدہ ہوں ذوق خامہ فرسا کا حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی دوام کلفت خاطر ہے عیش دنیا کا غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا ہنوز محرمی حسن کو ترستا ہوں کرے ہے ہر بن مو کام چشم بینا کا دل اس کو پہلے ہی ناز و ادا سے دے بیٹھے ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدار حسرت دل ہے مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اس کو یاد اسدؔ جفا میں اس کی ہے انداز کار فرما کا مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے میں مدعا ہوں تپش نامۂ تمنا کا ملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کو عدم کو لے گئے دل میں غبار صحرا کا
Habib Jalib
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے حبیب جالب کی غزلیں
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے ہم ترا شہر چھوڑ جائیں گے دور افتادہ بستیوں میں کہیں تیری یادوں سے لو لگائیں گے شمع ماہ و نجوم گل کر کے آنسوؤں کے دیئے جلائیں گے آخری بار اک غزل سن لو آخری بار ہم سنائیں گے صورت موجۂ ہوا جالبؔ ساری دنیا کی خاک اڑائیں گے
Waseem Barelvi
ہمارا عزم سفر کب کدھر کا ہو جائے، وسیم بریلوی غزلیں
ہمارا عزم سفر کب کدھر کا ہو جائے یہ وہ نہیں جو کسی رہ گزر کا ہو جائے اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے کھلی ہواؤں میں اڑنا تو اس کی فطرت ہے پرندہ کیوں کسی شاخ شجر کا ہو جائے میں لاکھ چاہوں مگر ہو تو یہ نہیں سکتا کہ تیرا چہرا مری ہی نظر کا ہو جائے مرا نہ ہونے سے کیا فرق اس کو پڑنا ہے پتہ چلے جو کسی کم نظر کا ہو جائے وسیمؔ صبح کی تنہائی سفر سوچو مشاعرہ تو چلو رات بھر کا ہو جائے
Firaq GorakhPuri
کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم، فراق گورکھپوری غزلیں۔
کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
Mirza Ghalib
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا، مرزا غالب غزلیں
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
Mirza Ghalib
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جان کے لیے مرزا غالب غزلیں
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے رہی نہ طرز ستم کوئی آسماں کے لیے بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لیے وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے رہا بلا میں بھی میں مبتلائے آفت رشک بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لیے فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں دراز دستی قاتل کے امتحاں کے لیے مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے نصیر دولت و دیں اور معین ملت و ملک بنا ہے چرخ بریں جس کے آستاں کے لیے زمانہ عہد میں اس کے ہے محو آرایش بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
Ahmad Faraz
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا، احمد فراز کی غزلیں
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
Jaun Eliya
عیشِ امید ہی سے خطرہ ہے جون ایلیا غزلیں
عیش امید ہی سے خطرہ ہے دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے ہے عجب کچھ معاملہ درپیش عقل کو آگہی سے خطرہ ہے شہر غدار جان لے کہ تجھے ایک امروہوی سے خطرہ ہے ہے عجب طور حالت گریہ کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے حال خوش لکھنؤ کا دلی کا بس انہیں مصحفیؔ سے خطرہ ہے آسمانوں میں ہے خدا تنہا اور ہر آدمی سے خطرہ ہے میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے آج بھی اے کنار بان مجھے تیری اک سانولی سے خطرہ ہے ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپئے میرؔ کو میرؔ ہی سے خطرہ ہے اب نہیں کوئی بات خطرے کی اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
Ahmad Faraz
یہ ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے، احمد فراز کی غزلیں۔
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے شائستگیٔ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزم جاں میں کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
Nida Fazli
دھوپ میں نکلو، گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو، ندا فاضلی غزلیں
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
Firaq GorakhPuri
یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ فراق گورکھپوری غزلیں
یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ جھلکتی ہے کھنچی شمشیر میں نئی دنیا حیات و موت کے ملتے نہیں ہیں آج دماغ حریف سینۂ مجروح و آتش غم عشق نہ گل کی چاک گریبانیاں نہ لالے کے داغ وہ جن کے حال میں لو دے اٹھے غم فردا وہی ہیں انجمن زندگی کے چشم و چراغ تمام شعلۂ گل ہے تمام موج بہار کہ تا حد نگہ شوق لہلہاتے ہیں باغ نئی زمین نیا آسماں نئی دنیا سنا تو ہے کہ محبت کو ان دنوں ہے فراغ جو تہمتیں نہ اٹھیں اک جہاں سے ان کے سمیت گناہ گار محبت نکل گئے بے داغ جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے اسی کے نقش کف پا سے جل اٹھے ہیں چراغ جہان راز ہوئی جا رہی ہے آنکھ تری کچھ اس طرح وہ دلوں کا لگا رہی ہے سراغ زمانہ کود پڑا آگ میں یہی کہہ کر کہ خون چاٹ کے ہو جائے گی یہ آگ بھی باغ نگاہیں مطلع نو پر ہیں ایک عالم کی کہ مل رہا ہے کسی پھوٹتی کرن کا سراغ دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ فراقؔ بزم چراغاں ہے محفل رنداں سجے ہیں پگھلی ہوئی آگ سے چھلکتے ایاغ
Javed Akhtar
یقین کا اگر کوئی بھی سلسلہ نہیں رہا، جاوید اختر غزلیں
یقین کا اگر کوئی بھی سلسلہ نہیں رہا تو شکر کیجیے کہ اب کوئی گلا نہیں رہا نہ ہجر ہے نہ وصل ہے اب اس کو کوئی کیا کہے کہ پھول شاخ پر تو ہے مگر کھلا نہیں رہا خزانہ تم نہ پائے تو غریب جیسے ہو گئے پلک پہ اب کوئی بھی موتی جھلملا نہیں رہا بدل گئی ہے زندگی بدل گئے ہیں لوگ بھی خلوص کا جو تھا کبھی وہ اب صلا نہیں رہا جو دشمنی بخیل سے ہوئی تو اتنی خیر ہے کہ زہر اس کے پاس ہے مگر پلا نہیں رہا لہو میں جذب ہو سکا نہ علم تو یہ حال ہے کوئی سوال ذہن کو جو دے جلا نہیں رہا
Sahir Ludhianvi
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا، ساحر لدھیانوی غزلیں
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
Javed Akhtar
درد اپناتا ہے پرائے کون، جاوید اختر غزلیں
درد اپناتا ہے پرائے کون کون سنتا ہے اور سنائے کون کون دہرائے پھر وہی باتیں غم ابھی سویا ہے جگائے کون اب سکوں ہے تو بھولنے میں ہے لیکن اس شخص کو بھلائے کون وہ جو اپنے ہیں کیا وہ اپنے ہیں کون دکھ جھیلے آزمائے کون آج پھر دل ہے کچھ اداس اداس دیکھیے آج یاد آئے کون
Jaan Nisar Akhtar
اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے جان نثار اختر غزلیں
اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے اپنی نظر میں آپ کو رسوا کیا نہ جائے ہم ہیں ترا خیال ہے تیرا جمال ہے اک پل بھی اپنے آپ کو تنہا کیا نہ جائے اٹھنے کو اٹھ تو جائیں تری انجمن سے ہم پر تیری انجمن کو بھی سونا کیا نہ جائے ان کی روش جدا ہے ہماری روش جدا ہم سے تو بات بات پہ جھگڑا کیا نہ جائے ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے لہجہ بنا کے بات کریں ان کے سامنے ہم سے تو اس طرح کا تماشا کیا نہ جائے انعام ہو خطاب ہو ویسے ملے کہاں جب تک سفارشوں کو اکٹھا کیا نہ جائے اس وقت ہم سے پوچھ نہ غم روزگار کے ہم سے ہر ایک گھونٹ کو کڑوا کیا نہ جائے
Nida Fazli
یہ خاموشی اچھی نہیں، شکوہ کرو، گلہ کرو، ندا فاضلی غزلیں
اچھی نہیں یہ خامشی شکوہ کرو گلہ کرو یوں بھی نہ کر سکو تو پھر گھر میں خدا خدا کرو شہرت بھی اس کے ساتھ ہے دولت بھی اس کے ہاتھ ہے خود سے بھی وہ ملے کبھی اس کے لیے دعا کرو دیکھو یہ شہر ہے عجب دل بھی نہیں ہے کم غضب شام کو گھر جو آؤں میں تھوڑا سا سج لیا کرو دل میں جسے بساؤ تم چاند اسے بناؤ تم وہ جو کہے پڑھا کرو جو نہ کہے سنا کرو میری نشست پہ بھی کل آئے گا کوئی دوسرا تم بھی بنا کے راستہ میرے لیے جگہ کرو
Meer Taqi Meer
دیکھ تو دل کی جان سے اٹھتا ہے میر تقی میر غزلیں
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانۂ دل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور اک آسماں سے اٹھتا ہے لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
Jigar Moradabadi
میں فطرت کا شاعر ہوں، جب بھی فکر فرماتا ہوں میں جگر مرادآبادی کی غزلیں۔
شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں جس قدر افسانۂ ہستی کو دہراتا ہوں میں اور بھی بیگانۂ ہستی ہوا جاتا ہوں میں جب مکان و لا مکاں سب سے گزر جاتا ہوں میں اللہ اللہ تجھ کو خود اپنی جگہ پاتا ہوں میں تیری صورت کا جو آئینہ اسے پاتا ہوں میں اپنے دل پر آپ کیا کیا ناز فرماتا ہوں میں یک بہ یک گھبرا کے جتنی دور ہٹ آتا ہوں میں اور بھی اس شوخ کو نزدیک تر پاتا ہوں میں میری ہستی شوق پیہم میری فطرت اضطراب کوئی منزل ہو مگر گزرا چلا جاتا ہوں میں ہائے ری مجبوریاں ترک محبت کے لیے مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور ان کو سمجھاتا ہوں میں میری ہمت دیکھنا میری طبیعت دیکھنا جو سلجھ جاتی ہے گتھی پھر سے الجھاتا ہوں میں حسن کو کیا دشمنی ہے عشق کو کیا بیر ہے اپنے ہی قدموں کی خود ہی ٹھوکریں کھاتا ہوں میں تیری محفل تیرے جلوے پھر تقاضا کیا ضرور لے اٹھا جاتا ہوں ظالم لے چلا جاتا ہوں میں تا کجا یہ پردہ داری ہائے عشق و لاف حسن ہاں سنبھل جائیں دو عالم ہوش میں آتا ہوں میں میری خاطر اب وہ تکلیف تجلی کیوں کریں اپنی گرد شوق میں خود ہی چھپا جاتا ہوں میں دل مجسم شعر و نغمہ وہ سراپا رنگ و بو کیا فضائیں ہیں کہ جن میں حل ہوا جاتا ہوں میں تا کجا ضبط محبت تا کجا درد فراق رحم کر مجھ پر کہ تیرا راز کہلاتا ہوں میں واہ رے شوق شہادت کوئے قاتل کی طرف گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں یا وہ صورت خود جہان رنگ و بو محکوم تھا یا یہ عالم اپنے سائے سے دبا جاتا ہوں میں دیکھنا اس عشق کی یہ طرفہ کاری دیکھنا وہ جفا کرتے ہیں مجھ پر اور شرماتا ہوں میں ایک دل ہے اور طوفان حوادث اے جگرؔ ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں
Waseem Barelvi
میں آسمان پہ بہت دیر رہ نہیں سکتا، وسیم بریلوی غزلیں
میں آسماں پہ بہت دیر رہ نہیں سکتا مگر یہ بات زمیں سے تو کہہ نہیں سکتا کسی کے چہرے کو کب تک نگاہ میں رکھوں سفر میں ایک ہی منظر تو رہ نہیں سکتا یہ آزمانے کی فرصت تجھے کبھی مل جائے میں آنکھوں آنکھوں میں کیا بات کہہ نہیں سکتا سہارا لینا ہی پڑتا ہے مجھ کو دریا کا میں ایک قطرہ ہوں تنہا تو بہہ نہیں سکتا لگا کے دیکھ لے جو بھی حساب آتا ہو مجھے گھٹا کے وہ گنتی میں رہ نہیں سکتا یہ چند لمحوں کی بے اختیاریاں ہیں وسیمؔ گنہ سے رشتہ بہت دیر رہ نہیں سکتا
Akbar Allahabadi
آپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجیے اکبر الہ آبادی غزلیں
اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے اخبار میں تو نام مرا چھاپ دیجئے دیکھو جسے وہ پانیر آفس میں ہے ڈٹا بہر خدا مجھے بھی کہیں چھاپ دیجئے چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے سنتے نہیں ہیں شیخ نئی روشنی کی بات انجن کی ان کے کان میں اب بھاپ دیجئے اس بت کے در پہ غیر سے اکبرؔ نے کہہ دیا زر ہی میں دینے لایا ہوں جان آپ دیجئے
Jaan Nisar Akhtar
مجھے معلوم ہے میں ساری دنیا کی امانت ہوں، جاں نثار اختر غزلیں
مجھے معلوم ہے میں ساری دنیا کی امانت ہوں مگر وہ لمحہ جب میں صرف اپنا ہو سا جاتا ہوں میں تم سے دور رہتا ہوں تو میرے ساتھ رہتی ہو تمہارے پاس آتا ہوں تو تنہا ہو سا جاتا ہوں میں چاہے سچ ہی بولوں ہر طرح سے اپنے بارے میں مگر تم مسکراتی ہو تو جھوٹا ہو سا جاتا ہوں ترے گل رنگ ہونٹوں سے دہکتی زندگی پی کر میں پیاسا اور پیاسا اور پیاسا ہو سا جاتا ہوں تجھے بانہوں میں بھر لینے کی خواہش یوں ابھرتی ہے کہ میں اپنی نظر میں آپ رسوا ہو سا جاتا ہوں
Wali Mohammad Wali
جس دلربا سن دل کون میرے اتحاد ہے ولی محمد ولی غزلیں
جس دل ربا سوں دل کوں مرے اتحاد ہے دیدار اس کا میری انکھاں کی مراد ہے رکھتا ہے بر میں دلبر رنگیں خیال کوں مانند آرسی کے جو صاف اعتقاد ہے شاید کہ دام عشق میں تازہ ہوا ہے بند وعدے پہ گل رخاں کے جسے اعتماد ہے باقی رہے گا جور و ستم روز حشر لگ تجھ زلف کی جفا میں نپٹ امتداد ہے مقصود دل ہے اس کا خیال اے ولیؔ مجھے جیوں مجھ زباں پہ نام محمد مراد ہے
Wali Mohammad Wali
میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں ولی محمد ولی غزلیں
میں عاشقی میں تب سوں افسانہ ہو رہا ہوں تیری نگہ کا جب سوں دیوانہ ہو رہا ہوں اے آشنا کرم سوں یک بار آ درس دے تجھ باج سب جہاں سوں بیگانہ ہو رہا ہوں باتاں لگن کی مت پوچھ اے شمع بزم خوبی مدت سے تجھ جھلک کا پروانہ ہو رہا ہوں شاید وو گنج خوبی آوے کسی طرف سوں اس واسطے سراپا ویرانہ ہو رہا ہوں سودائے زلف خوباں رکھتا ہوں دل میں دائم زنجیر عاشقی کا دیوانہ ہو رہا ہوں برجا ہے گر سنوں نئیں ناصح تری نصیحت میں جام عشق پی کر مستانہ ہو رہا ہوں کس سوں ولیؔ اپس کا احوال جا کہوں میں سر تا قدم میں غم سوں غم خانہ ہو رہا ہوں
Firaq GorakhPuri
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا، فراق گورکھپوری غزلیں
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا نگہ ناز میں یہ پچھلے پہر رنگ خمار نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا باغ جنت پہ گھٹا جیسے برس کے کھل جائے یہ سہانی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن کیا کہنا روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی یہ لچک سر بسر آتش سیال بدن کیا کہنا جس طرح جلوۂ فردوس ہواؤں سے چھنے پیرہن میں ترے رنگینیٔ تن کیا کہنا جلوہ و پردے کا یہ رنگ دم نظارہ جس طرح ادھ کھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا دم تقریر کھل اٹھتے ہیں گلستاں کیا کیا یوں تو اک غنچۂ نورس ہے دہن کیا کہنا دل کے آئینے میں اس طرح اترتی ہے نگاہ جیسے پانی میں لچک جائے کرن کیا کہنا لہلہاتا ہوا یہ قد یہ لہکتا جوبن زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا تو محبت کا ستارہ تو جوانی کا سہاگ حسن لو دیتا ہے لعل یمن کیا کہنا تیری آواز سویرا تری باتیں تڑکا آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا زلف شب گوں کی چمک پیکر سیمیں کی دمک دیپ مالا ہے سر گنگ و جمن کیا کہنا نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا
Nida Fazli
انسان ہیں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی ندا فاضلی غزلیں
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی خوں خوار درندوں کے فقط نام الگ ہیں ہر شہر بیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی ہندو بھی سکوں سے ہے مسلماں بھی سکوں سے انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی رحمان کی رحمت ہو کہ بھگوان کی مورت ہر کھیل کا میدان یہاں بھی ہے وہاں بھی اٹھتا ہے دل و جاں سے دھواں دونوں طرف ہی یہ میرؔ کا دیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
Mirza Ghalib
شب خمار شوق ساقی رستاخیز انداز تھا مرزا غالب غزلیں
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا تامحیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے خانۂ مجنون صحراگرد بے دروازہ تھا پوچھ مت رسوائی انداز استغنائے حسن دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا نالۂ دل نے دیے اوراق لخت دل بہ باد یادگار نالہ اک دیوان بے شیرازہ تھا ہوں چراغان ہوس جوں کاغذ آتش زدہ داغ گرم کوشش ایجاد داغ تازہ تھا بے نوائی تر صداۓ نغمۂ شہرت اسدؔ بوریا یک نیستاں عالم بلند آوازہ تھا
Habib Jalib
شیر ہوتا ہے اب مہینوں میں حبیب جالب غزلیں
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں زندگی ڈھل گئی مشینوں میں پیار کی روشنی نہیں ملتی ان مکانوں میں ان مکینوں میں دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں قہر کی آنکھ سے نہ دیکھ ان کو دل دھڑکتے ہیں آبگینوں میں آسمانوں کی خیر ہو یا رب اک نیا عزم ہے زمینوں میں وہ محبت نہیں رہی جالبؔ ہم صفیروں میں ہم نشینوں میں
Mirza Ghalib
مستی با ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے مرزا غالب غزلیں
مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے موج شراب یک مژۂ خواب ناک ہے جز زخم تیغ ناز نہیں دل میں آرزو جیب خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے جوش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں اسدؔ صحرا ہماری آنکھ میں یک مشت خاک ہے
Fahmida Riaz
یہ کس کے آنسووں نے اس نقش کو مٹایا، فہمیدہ ریاض غزلیں
یہ کس کے آنسوؤں نے اس نقش کو مٹایا جو میرے لوح دل پر تو نے کبھی بنایا تھا دل جب اس پہ مائل تھا شوق سخت مشکل ترغیب نے اسے بھی آسان کر دکھایا اک گرد باد میں تو اوجھل ہوا نظر سے اس دشت بے ثمر سے جز خاک کچھ نہ پایا اے چوب خشک صحرا وہ باد شوق کیا تھی میری طرح برہنہ جس نے تجھے بنایا پھر ہم ہیں نیم شب ہے اندیشۂ عبث ہے وہ واہمہ کہ جس سے تیرا یقین آیا
Nazm Tabatabai
یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زنہار ہاتھ نظم طباعی غزلیں
یوں تو نہ تیرے جسم میں ہیں زینہار ہاتھ دینے کے اے کریم مگر ہیں ہزار ہاتھ انگڑائیوں میں پھیلتے ہیں بار بار ہاتھ شیشہ کی سمت بڑھتے ہیں بے اختیار ہاتھ ڈوبے ہیں ترک سعی سے افسوس تو یہ ہے ساحل تھا ہاتھ بھر پہ لگاتے جو چار ہاتھ آتی ہے جب نسیم تو کہتی ہے موج بحر یوں آبرو سمیٹ اگر ہوں ہزار ہاتھ درپئے ہیں میرے قتل کے احباب اور میں خوش ہوں کہ میرے خون میں رنگتے ہیں یار ہاتھ دامن کشاں چلی ہے بدن سے نکل کے روح کھنچتے ہیں پھیلتے ہیں جو یوں بار بار ہاتھ مٹتا نہیں نوشتۂ قسمت کسی طرح پتھر سے سر کو پھوڑ کہ زانو پہ مار ہاتھ ساقی سنبھالنا کہ ہے لبریز جام مے لغزش ہے میرے پاؤں میں اور رعشہ دار ہاتھ مطرب سے پوچھ مسئلہ جبر و اختیار کیا تال سم پہ اٹھتے ہیں بے اختیار ہاتھ میں اور ہوں علائق دنیا کے دام میں میرا نہ ایک ہاتھ نہ اس کے ہزار ہاتھ اے نظمؔ وصل میں بھی رہا تو نہ چین سے دل کو ہوا قرار تو ہے بے قرار ہاتھ
Mirza Ghalib
جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا، مرزا غالب غزلیں
جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا تپش شوق نے ہر ذرہ پہ اک دل باندھا اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخی ناز جوہر آئنہ کو طوطی بسمل باندھا یاس و امید نے یک عربدہ میداں مانگا عجز ہمت نے طلسم دل سائل باندھا نہ بندھے تشنگی ذوق کے مضموں غالبؔ گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا اصطلاحات اسیران تغافل مت پوچھ جو گرہ آپ نہ کھولی اسے مشکل باندھا یار نے تشنگیٔ شوق کے مضموں چاہے ہم نے دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا تپش آئینہ پرواز تمنا لائی نامۂ شوق بہ حال دل بسمل باندھا دیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں کس نے خلوت ناز پہ پیرایۂ محفل باندھا ناامیدی نے بہ تقریب مضامین خمار کوچۂ موج کو خمیازۂ ساحل باندھا مطرب دل نے مرے تار نفس سے غالبؔ ساز پر رشتہ پئے نغمۂ بیدلؔ باندھا ناتوانی ہے تماشائی عمر رفتہ رنگ نے آئینہ آنکھوں کے مقابل باندھا نوک ہر خار سے تھا بسکہ سر دزدی زخم چوں نمد ہم نے کف پا پہ اسد دل باندھا
Gulzar
کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید، گلزار غزلیں
کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید لب پہ آئی مری غزل شاید وہ اکیلے ہیں آج کل شاید دل اگر ہے تو درد بھی ہوگا اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید جانتے ہیں ثواب رحم و کرم ان سے ہوتا نہیں عمل شاید آ رہی ہے جو چاپ قدموں کی کھل رہے ہیں کہیں کنول شاید راکھ کو بھی کرید کر دیکھو ابھی جلتا ہو کوئی پل شاید چاند ڈوبے تو چاند ہی نکلے آپ کے پاس ہوگا حل شاید
Jaun Eliya
اب کسی سے میرا حساب نہیں، جون ایلیا غزلیں
اب کسی سے مرا حساب نہیں میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں یہ مرا خون ہے شراب نہیں میں شرابی ہوں میری آس نہ چھین تو مری آس ہے سراب نہیں نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال طاقت شوخئ جواب نہیں اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب اور خود جیسا اب دو آب نہیں غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے اور اس کا کوئی حساب نہیں بودش اک رو ہے ایک رو یعنی اس کی فطرت میں انقلاب نہیں
Parveen Shakir
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے پروین شاکر غزلیں
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے اتنی روشن ہے تری صبح کہ ہوتا ہے گماں یہ اجالا تو کسی دیدۂ نمناک سے ہے ہاتھ تو کاٹ دیے کوزہ گروں کے ہم نے معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے
Meer Taqi Meer
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا، میر تقی میر غزلیں
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
Habib Jalib
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے راستے میں، حبیب جالب غزلیں
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے ہزار غنچہ و گل ہیں صبا کے رستے میں خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں کہیں سلاسل تسبیح اور کہیں زنار بچھے ہیں دام بہت مدعا کے رستے میں ابھی وہ منزل فکر و نظر نہیں آئی ہے آدمی ابھی جرم و سزا کے رستے میں ہیں آج بھی وہی دار و رسن وہی زنداں ہر اک نگاہ رموز آشنا کے رستے میں یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رستے میں زمانہ ایک سا جالبؔ سدا نہیں رہتا چلیں گے ہم بھی کبھی سر اٹھا کے رستے میں
Jigar Moradabadi
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے، جگر مراد آبادی غزلیں
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے کچھ اس میں ان کی توجہ بھی پائی جاتی ہے یہ عمر عشق یوں ہی کیا گنوائی جاتی ہے حیات زندہ حقیقت بنائی جاتی ہے بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہے ضرور کوئی کمی ہے کہ پائی جاتی ہے ہمیں پہ عشق کی تہمت لگائی جاتی ہے مگر یہ شرم جو چہرے پہ چھائی جاتی ہے خدا کرے کہ حقیقت میں زندگی بن جائے وہ زندگی جو زباں تک ہی پائی جاتی ہے گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے نہ سوز عشق نہ برق جمال پر الزام دلوں میں آگ خوشی سے لگائی جاتی ہے کچھ ایسے بھی تو ہیں رندان پاک باز جگرؔ کہ جن کو بے مئے و ساغر پلائی جاتی ہے
Dagh Dehlvi
اب وہ یہ کہہ رہے ہیں میری مان جائیے، داغ دہلوی غزلیں۔
اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے اللہ تیری شان کے قربان جائیے بگڑے ہوئے مزاج کو پہچان جائیے سیدھی طرح نہ مانئے گا مان جائیے کس کا ہے خوف روکنے والا ہی کون ہے ہر روز کیوں نہ جائیے مہمان جائیے محفل میں کس نے آپ کو دل میں چھپا لیا اتنوں میں کون چور ہے پہچان جائیے ہیں تیوری میں بل تو نگاہیں پھری ہوئی جاتے ہیں ایسے آنے سے اوسان جائیے دو مشکلیں ہیں ایک جتانے میں شوق کے پہلے تو جان جائیے پھر مان جائیے انسان کو ہے خانۂ ہستی میں لطف کیا مہمان آئیے تو پشیمان جائیے گو وعدۂ وصال ہو جھوٹا مزہ تو ہے کیوں کر نہ ایسے جھوٹ کے قربان جائیے رہ جائے بعد وصل بھی چیٹک لگی ہوئی کچھ رکھئے کچھ نکال کے ارمان جائیے اچھی کہی کہ غیر کے گھر تک ذرا چلو میں آپ کا نہیں ہوں نگہبان جائیے آئے ہیں آپ غیر کے گھر سے کھڑے کھڑے یہ اور کو جتایئے احسان، جائیے دونوں سے امتحان وفا پر یہ کہہ دیا منوائیے رقیب کو یا مان جائیے کیا بدگمانیاں ہیں انہیں مجھ کو حکم ہے گھر میں خدا کے بھی تو نہ مہمان جائیے کیا فرض ہے کہ سب مری باتیں قبول ہیں سن سن کے کچھ نہ مانئے کچھ مان جائیے سودائیان زلف میں کچھ تو لٹک بھی ہو جنت میں جائیے تو پریشان جائیے دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو قربان جائیے ترے قربان جائیے دل کو جو دیکھ لو تو یہی پیار سے کہو قربان جائیے ترے قربان جائیے جانے نہ دوں گا آپ کو بے فیصلہ ہوئے دل کے مقدمے کو ابھی چھان جائیے یہ تو بجا کہ آپ کو دنیا سے کیا غرض جاتی ہے جس کی جان اسے جان جائیے غصے میں ہاتھ سے یہ نشانی نہ گر پڑے دامن میں لے کے میرا گریبان جائیے یہ مختصر جواب ملا عرض وصل پر دل مانتا نہیں کہ تری مان جائیے وہ آزمودہ کار تو ہے گر ولی نہیں جو کچھ بتائے داغؔ اسے مان جائیے
Meer Taqi Meer
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا، میر تقی میر غزلیں
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جا کر تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا
Mirza Ghalib
تپش سے میری وقفِ کشمکش ہر تارِ بستر ہے، مرزا غالب غزلیں
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے مرا سر رنج بالیں ہے مرا تن بار بستر ہے سرشک سر بہ صحرا دادہ نور العین دامن ہے دل بے دست و پا افتادہ بر خوردار بستر ہے خوشا اقبال رنجوری عیادت کو تم آئے ہو فروغ شمع بالیں طالع بیدار بستر ہے بہ طوفاں گاہ جوش اضطراب شام تنہائی شعاع آفتاب صبح محشر تار بستر ہے ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی زلف مشکیں کی ہماری دید کو خواب زلیخا عار بستر ہے کہوں کیا دل کی کیا حالت ہے ہجر یار میں غالب کہ بیتابی سے ہر یک تار بستر خار بستر ہے
Ahmad Faraz
جز تیرے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے احمد فراز غزلیں
جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے تو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار برگ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے شمع کی لو تھی کہ وہ تو تھا مگر ہجر کی رات دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے لٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن دیکھ غارت گر دل یہ بھی خزانے میرے آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے کاش تو بھی میری آواز کہیں سنتا ہو پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو لوگ آتے ہیں بہت دل کو دکھانے میرے کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا بات سن لی ہے مری آج خدا نے میرے تو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے مجھ کو تو چھین لیا عہد وفا نے میرے چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جان فرازؔ جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے
Nida Fazli
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی ندا فاضلی غزلیں
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی صبح سے شام تک بوجھ ڈھوتا ہوا اپنی ہی لاش کا خود مزار آدمی ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے ہر طرف آدمی کا شکار آدمی روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا ہر نئے دن نیا انتظار آدمی گھر کی دہلیز سے گیہوں کے کھیت تک چلتا پھرتا کوئی کاروبار آدمی زندگی کا مقدر سفر در سفر آخری سانس تک بے قرار آدمی
Fahmida Riaz
کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں فہمیدہ ریاض غزلیں
کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں میں تیز گام چلی جا رہی تھی اس کی سمت کشش عجیب تھی اس دشت کی صداؤں میں وہ اک صدا جو فریب صدا سے بھی کم ہے نہ ڈوب جائے کہیں تند رو ہواؤں میں سکوت شام ہے اور میں ہوں گوش بر آواز کہ ایک وعدے کا افسوں سا ہے فضاؤں میں مری طرح یوں ہی گم کردہ راہ چھوڑے گی تم اپنی بانہہ نہ دینا ہوا کی بانہوں میں نقوش پاؤں کے لکھتے ہیں منزل نا یافت مرا سفر تو ہے تحریر میری راہوں میں
Allama Iqbal
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دامن علامہ اقبال غزلیں 3
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن پانی پانی کر گئی مجکو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
Akbar Allahabadi
جذبہ دل نے میری تاثیر دکھلائی تو ہے، اکبر الہ آبادی غزلیں
جذبۂ دل نے مرے تاثیر دکھلائی تو ہے گھنگھروؤں کی جانب در کچھ صدا آئی تو ہے عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے جب کہا میں نے تڑپتا ہے بہت اب دل مرا ہنس کے فرمایا تڑپتا ہوگا سودائی تو ہے دیکھیے ہوتی ہے کب راہی سوئے ملک عدم خانۂ تن سے ہماری روح گھبرائی تو ہے دل دھڑکتا ہے مرا لوں بوسۂ رخ یا نہ لوں نیند میں اس نے دلائی منہ سے سرکائی تو ہے دیکھیے لب تک نہیں آتی گل عارض کی یاد سیر گلشن سے طبیعت ہم نے بہلائی تو ہے میں بلا میں کیوں پھنسوں دیوانہ بن کر اس کے ساتھ دل کو وحشت ہو تو ہو کمبخت سودائی تو ہے خاک میں دل کو ملایا جلوۂ رفتار سے کیوں نہ ہو اے نوجواں اک شان رعنائی تو ہے یوں مروت سے تمہارے سامنے چپ ہو رہیں کل کے جلسوں کی مگر ہم نے خبر پائی تو ہے بادۂ گل رنگ کا ساغر عنایت کر مجھے ساقیا تاخیر کیا ہے اب گھٹا چھائی تو ہے جس کی الفت پر بڑا دعویٰ تھا کل اکبرؔ تمہیں آج ہم جا کر اسے دیکھ آئے ہرجائی تو ہے
Gulzar
ہر ایک غم نچوڑ کے ہر ایک برس جیے گلزار غزلیں
ہر ایک غم نچوڑ کے ہر اک برس جیے دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے صدیوں پہ اختیار نہیں تھا ہمارا دوست دو چار لمحے بس میں تھے دو چار بس جیے صحرا کے اس طرف سے گئے سارے کارواں سن سن کے ہم تو صرف صدائے جرس جیے ہونٹوں میں لے کے رات کے آنچل کا اک سرا آنکھوں پہ رکھ کے چاند کے ہونٹوں کا مس جیے محدود ہیں دعائیں مرے اختیار میں ہر سانس پر سکون ہو تو سو برس جیے
Naji Shakir
کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی نجی شاکر غزلیں
کمر کی بات سنتے ہیں یہ کچھ پائی نہیں جاتی کہے ہیں بات ایسی خیال میں میرے نہیں آتی جو چاہو سیر دریا وقف ہے مجھ چشم کی کشتی ہر ایک موئے پلک میرا ہے گویا گھاٹ خیراتی برنگ اس کے نہیں محبوب دل رونے کو عاشق کے سعادت خاں ہے لڑکا وضع کر لیتا ہے برساتی جو کوئی اصلی ہے ٹھنڈا گرم یاقوتی میں کیونکر ہو نہ لاوے تاب تیرے لب کی جو نامرد ہے ذاتی نہ دیکھا باغ میں نرگس نیں تجھ کوں شرم جانے سیں اسی غم میں ہوئی ہے سرنگوں وہ وقت نہیں پاتی کہاں ممکن ہے ناجیؔ سا کہ تقویٰ اور صلاح آوے نگاہ مست خوباں وہ نہیں لیتا خراباتی
Altaf Hussain Hali
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں الطاف حسین حالی غزلیں
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح لگا دو آگ کوئی آشیاں میں کوئی دن بوالہوس بھی شاد ہو لیں دھرا کیا ہے اشارات نہاں میں کہیں انجام آ پہنچا وفا کا گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں نیا ہے لیجئے جب نام اس کا بہت وسعت ہے میری داستاں میں دل پر درد سے کچھ کام لوں گا اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
Jigar Moradabadi
عشق میں لاجواب ہیں ہم لوگ، جگر مرادآبادی غزلیں
عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ شام سے آ گئے جو پینے پر صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ ہم کو دعوائے عشق بازی ہے مستحق عذاب ہیں ہم لوگ ناز کرتی ہے خانہ ویرانی ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے کشتگان شباب ہیں ہم لوگ تو ہمارا جواب ہے تنہا اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ تو ہے دریائے حسن و محبوبی شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو رہرو ملک خواب ہیں ہم لوگ جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق صاحبان کتاب ہیں ہم لوگ ہر حقیقت سے جو گزر جائیں وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی محرم آں جناب ہیں ہم لوگ
Meer Anees
ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے، میر انیس غزلیں۔
ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے اڑ گیا جب رنگ رخ سے استخواں پیدا ہوئے خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پر رفعتیں اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے علم خالق کا خزانہ ہے میان کاف و نون ایک کن کہنے سے یہ کون و مکاں پیدا ہوئے ضبط دیکھو سب کی سن لی اور کچھ اپنی کہی اس زباں دانی پر ایسے بے زباں پیدا ہوئے شور بختی آئی حصے میں انہیں کے وا نصیب تلخ کامی کے لیے شیریں زباں پیدا ہوئے احتیاط جسم کیا انجام کو سوچو انیسؔ خاک ہونے کو یہ مشت استخواں پیدا ہوئے
Gulzar
درد ہلکا ہے، سانس بھاری ہے، گلزار غزلیں
درد ہلکا ہے سانس بھاری ہے جئے جانے کی رسم جاری ہے آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے رات کو چاندنی تو اوڑھا دو دن کی چادر ابھی اتاری ہے شاخ پر کوئی قہقہہ تو کھلے کیسی چپ سی چمن پہ طاری ہے کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا آج کی داستاں ہماری ہے
Akbar Allahabadi
ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو، رات تو ہو، اکبر الہ آبادی کی غزلیں
ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو دل بھی حاضر سر تسلیم بھی خم کو موجود کوئی مرکز ہو کوئی قبلۂ حاجات تو ہو دل تو بے چین ہے اظہار ارادت کے لیے کسی جانب سے کچھ اظہار کرامات تو ہو دل کشا بادۂ صافی کا کسے ذوق نہیں باطن افروز کوئی پیر خرابات تو ہو گفتنی ہے دل پر درد کا قصہ لیکن کس سے کہیے کوئی مستفسر حالات تو ہو داستان غم دل کون کہے کون سنے بزم میں موقع اظہار خیالات تو ہو وعدے بھی یاد دلاتے ہیں گلے بھی ہیں بہت وہ دکھائی بھی تو دیں ان سے ملاقات تو ہو کوئی واعظ نہیں فطرت سے بلاغت میں سوا مگر انسان میں کچھ فہم اشارات تو ہو
Dagh Dehlvi
گزب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا، داغ دہلوی غزلیں
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا تمام رات قیامت کا انتظار کیا کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا ہنسا ہنسا کے شب وصل اشک بار کیا تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا یہ کس نے جلوہ ہمارے سر مزار کیا کہ دل سے شور اٹھا ہائے بے قرار کیا سنا ہے تیغ کو قاتل نے آب دار کیا اگر یہ سچ ہے تو بے شبہ ہم پہ وار کیا نہ آئے راہ پہ وہ عجز بے شمار کیا شب وصال بھی میں نے تو انتظار کیا تجھے تو وعدۂ دیدار ہم سے کرنا تھا یہ کیا کیا کہ جہاں کو امیدوار کیا یہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مآل اندیش انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا کہاں کا صبر کہ دم پر ہے بن گئی ظالم بہ تنگ آئے تو حال دل آشکار کیا تڑپ پھر اے دل ناداں کہ غیر کہتے ہیں اخیر کچھ نہ بنی صبر اختیار کیا ملے جو یار کی شوخی سے اس کی بے چینی تمام رات دل مضطرب کو پیار کیا بھلا بھلا کے جتایا ہے ان کو راز نہاں چھپا چھپا کے محبت کو آشکار کیا نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا ہم ایسے محو نظارہ نہ تھے جو ہوش آتا مگر تمہارے تغافل نے ہوشیار کیا ہمارے سینے میں جو رہ گئی تھی آتش ہجر شب وصال بھی اس کو نہ ہمکنار کیا رقیب و شیوۂ الفت خدا کی قدرت ہے وہ اور عشق بھلا تم نے اعتبار کیا زبان خار سے نکلی صدائے بسم اللہ جنوں کو جب سر شوریدہ پر سوار کیا تری نگہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل لگا لگا کے گلے سے چھری کو پیار کیا غضب تھی کثرت محفل کہ میں نے دھوکہ میں ہزار بار رقیبوں کو ہمکنار کیا ہوا ہے کوئی مگر اس کا چاہنے والا کہ آسماں نے ترا شیوہ اختیار کیا نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کیا جب ان کو طرز ستم آ گئے تو ہوش آیا برا ہو دل کا برے وقت ہشیار کیا فسانۂ شب غم ان کو اک کہانی تھی کچھ اعتبار کیا کچھ نہ اعتبار کیا اسیری دل آشفتہ رنگ لا کے رہی تمام طرۂ طرار تار تار کیا کچھ آ گئی داور محشر سے ہے امید مجھے کچھ آپ نے مرے کہنے کا اعتبار کیا کسی کے عشق نہاں میں یہ بد گمانی تھی کہ ڈرتے ڈرتے خدا پر بھی آشکار کیا فلک سے طور قیامت کے بن نہ پڑتے تھے اخیر اب تجھے آشوب روزگار کیا وہ بات کر جو کبھی آسماں سے ہو نہ سکے ستم کیا تو بڑا تو نے افتخار کیا بنے گا مہر قیامت بھی ایک خال سیاہ جو چہرہ داغؔ سیہ رو نے آشکار کیا
Mohsin Naqvi
عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے محسن نقوی غزلیں
عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا ہوا دکھی ہے چراغوں کی آبرو کر کے زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ہے نشان‌ طوق وفا زینت گلو کر کے اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسنؔ ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
Faiz Ahmad Faiz
دربار میں اب شاہی سطوت کی علامت فیض احمد فیض غزلیں
دربار میں اب سطوت شاہی کی علامت درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے آوارہ ہے پھر کوہ ندا پر جو بشارت تمہید مسرت ہے کہ طول شب غم ہے جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں یہ خون شہیداں ہے کہ زر خانۂ جم ہے حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
Meer Taqi Meer
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق میر تقی میر غزلیں
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا موت کا نام پیار کا ہے عشق اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل عشق کے درد کی دوا ہے عشق کیا ڈبایا محیط میں غم کے ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق عشق سے جا نہیں کوئی خالی دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا پردے میں زور آزما ہے عشق عشق ہے عشق کرنے والوں کو کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق کون مقصد کو عشق بن پہنچا آرزو عشق مدعا ہے عشق میرؔ مرنا پڑے ہے خوباں پر عشق مت کر کہ بد بلا ہے عشق
Faiz Ahmad Faiz
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے، فیض احمد فیض غزلیں
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
Nazm Tabatabai
ندامت ہے بنا کر اس چمن میں آشیان مجھ کو، نظم تباہ تبائی غزلیں۔
ندامت ہے بنا کر اس چمن میں آشیاں مجھ کو ملا ہمدم یہاں کوئی نہ کوئی ہم زباں مجھ کو دکھائے جا روانی توسن عمر رواں مجھ کو ہلال برق سے رکھ ہم رکاب و ہم عناں مجھ کو بنایا ناتوانی نے سلیمان زماں مجھ کو اڑا کر لے چلے موج نسیم بوستاں مجھ کو دم صبح ازل سے میں نوا سنجوں میں ہوں تیرے بتایا بلبل سدرہ نے انداز فغاں مجھ کو مری باتوں میں کیا معلوم کب سوئے وہ کب جاگے سرے سے اس لیے کہنی پڑی پھر داستاں مجھ کو بہا کر قافلہ سے دور جسم زار کو پھینکا کہ موج سیل تھی بانگ درائے کارواں مجھ کو یہ دل کی بے قراری خاک ہو کر بھی نہ جائے گی سناتی ہے لب ساحل سے یہ ریگ رواں مجھ کو اڑائی خاک جس صحرا میں تیرے واسطے میں نے تھکا ماندہ ملا ان منزلوں میں آسماں مجھ کو تصور شمع کا جس کو جلا دے ہوں وہ پروانہ لگ اٹھی آگ دل میں جب نظر آیا دھواں مجھ کو وہ جس عالم میں جا پہنچا وہاں میں کس طرح جاؤں ہوا دل آپ سے باہر پنہا کر بیڑیاں مجھ کو غبار راہ سے اے نظمؔ یہ آواز آتی ہے گئی اے عمر رفتہ تو کدھر پھینکا کہاں مجھ کو
Mirza Ghalib
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے، مرزا غالب غزلیں
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور جز وہم نہیں ہستیٔ اشیا مرے آگے ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہوں بیٹھا ہے بت آئنہ سیما مرے آگے پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزرا کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
Firaq GorakhPuri
دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا، فراق گورکھپوری غزلیں
دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا ہے یہ آئین محبت مجھے معلوم نہ تھا مطلب چشم مروت مجھے معلوم نہ تھا تجھ کو مجھ سے تھی شکایت مجھے معلوم نہ تھا چشم خاموش کی بابت مجھے معلوم نہ تھا یہ بھی ہے حرف و حکایت مجھے معلوم نہ تھا عشق بس میں ہے مشیت کے عقیدہ تھا مرا اس کے بس میں ہے مشیت مجھے معلوم نہ تھا ہفت خواں جس نے کئے طے سر راہ تسلیم ٹوٹ جاتی ہے وہ ہمت مجھے معلوم نہ تھا آج ہر قطرۂ مے بن گیا اک چنگاری تھی یہ ساقی کی شرارت مجھے معلوم نہ تھا نگہ مست نے تلوار اٹھا لی سر بزم یوں بدل جاتی ہے نیت مجھے معلوم نہ تھا غم ہستی سے جو بیزار رہا میں اک عمر تجھ سے بھی تھی اسے نسبت مجھے معلوم نہ تھا عشق بھی اہل طریقت میں ہے ایسا تھا خیال عشق ہے پیر طریقت مجھے معلوم نہ تھا پوچھ مت شرح کرم ہائے عزیزاں ہمدم ان میں اتنی تھی شرافت مجھے معلوم نہ تھا جب سے دیکھا ہے تجھے مجھ سے ہے میری ان بن حسن کا رنگ سیاست مجھے معلوم نہ تھا شکل انسان کی ہو چال بھی انسان کی ہو یوں بھی آتی ہے قیامت مجھے معلوم نہ تھا سر معمورۂ عالم یہ دل خانہ خراب مٹ گیا تیری بدولت مجھے معلوم نہ تھا پردۂ عرض وفا میں بھی رہا ہوں کرتا تجھ سے میں اپنی ہی غیبت مجھے معلوم نہ تھا نقد جاں کیا ہے زمانے میں محبت ہمدم نہیں ملتی کسی قیمت مجھے معلوم نہ تھا ہو گیا آج رفیقوں سے گلے مل کے جدا اپنا خود عشق صداقت مجھے معلوم نہ تھا درد دل کیا ہے کھلا آج ترے لڑنے پر تجھ سے اتنی تھی محبت مجھے معلوم نہ تھا دم نکل جائے مگر دل نہ لگائے کوئی عشق کی یہ تھی وصیت مجھے معلوم نہ تھا حسن والوں کو بہت سہل سمجھ رکھا تھا تجھ پہ آئے گی طبیعت مجھے معلوم نہ تھا کتنی خلاق ہے یہ نیستئ عشق فراقؔ اس سے ہستی ہے عبارت مجھے معلوم نہ تھا
Ahmad Faraz
کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاوں اسے احمد فراز غزلیں
کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے میں کیسے بات کروں اب کہاں سے لاؤں اسے مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے وہی جو دولت دل ہے وہی جو راحت جاں تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے جو ہم سفر سر منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے