Poet
stringclasses
30 values
Poem_name
stringlengths
19
107
Poetry
stringlengths
68
2.22k
Allama Iqbal
نہ تخت و تاج میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے علامہ اقبال غزلیں
نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
Allama Iqbal
تُو ابھی رہگزار میں ہے، قیدِ مقام سے گزر، علامہ اقبال غزلیں
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار طائرک بلند بام دانہ و دام سے گزر کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشاد شرق و غرب تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
Fahmida Riaz
یہ پیرہن جو میری روح کا اتار نہ سکا، فہمیدہ ریاض غزلیں
یہ پیرہن جو مری روح کا اتر نہ سکا تو نخ بہ نخ کہیں پیوست ریشۂ دل تھا مجھے مآل سفر کا ملال کیوں کر ہو کہ جب سفر ہی مرا فاصلوں کا دھوکا تھا میں جب فراق کی راتوں میں اس کے ساتھ رہی وہ پھر وصال کے لمحوں میں کیوں اکیلا تھا وہ واسطے کی ترا درمیاں بھی کیوں آئے خدا کے ساتھ مرا جسم کیوں نہ ہو تنہا سراب ہوں میں تری پیاس کیا بجھاؤں گی اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا سراب ہوں کہ بدن کی یہی شہادت ہے ہر ایک عضو میں بہتا ہے ریت کا دریا جو میرے لب پہ ہے شاید وہی صداقت ہے جو میرے دل میں ہے اس حرف رایگاں پہ نہ جا جسے میں توڑ چکی ہوں وہ روشنی کا طلسم شعاع نور ازل کے سوا کچھ اور نہ تھا
Fahmida Riaz
پتھر سے وصال مانگتی ہوں فہمیدہ ریاض غزلیں
پتھر سے وصال مانگتی ہوں میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں شاید پاؤں سراغ الفت مٹھی میں خاک بھر رہی ہوں ہر لمس ہے جب تپش سے عاری کس آنچ سے یوں پگھل رہی ہوں وہ خواہش بوسہ بھی نہیں اب حیرت سے ہونٹ کاٹتی ہوں اک طفلک جستجو ہوں شاید میں اپنے بدن سے کھیلتی ہوں اب طبع کسی پہ کیوں ہو راغب انسانوں کو برت چکی ہوں
Bahadur Shah Zafar
میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں بہادر شاہ ظفر غزلیں
میں ہوں عاصی کہ پر خطا کچھ ہوں تیرا بندہ ہوں اے خدا کچھ ہوں جزو و کل کو نہیں سمجھتا میں دل میں تھوڑا سا جانتا کچھ ہوں تجھ سے الفت نباہتا ہوں میں با وفا ہوں کہ بے وفا کچھ ہوں جب سے ناآشنا ہوں میں سب سے تب کہیں اس سے آشنا کچھ ہوں نشۂ عشق لے اڑا ہے مجھے اب مزے میں اڑا رہا کچھ ہوں خواب میرا ہے عین بیداری میں تو اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں گرچہ کچھ بھی نہیں ہوں میں لیکن اس پہ بھی کچھ نہ پوچھو کیا کچھ ہوں سمجھے وہ اپنا خاکسار مجھے خاک رہ ہوں کہ خاک پا کچھ ہوں چشم الطاف فخر دیں سے ہوں اے ظفرؔ کچھ سے ہو گیا کچھ ہوں
Firaq GorakhPuri
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے فراق گورکھپوری غزلیں
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے اک شرح حیات ہو گئی ہے جب دل کی وفات ہو گئی ہے ہر چیز کی رات ہو گئی ہے غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے مدت سے خبر ملی نہ دل کی شاید کوئی بات ہو گئی ہے جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری تصویر حیات ہو گئی ہے اب ہو مجھے دیکھیے کہاں صبح ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے دل میں تجھ سے تھی جو شکایت اب غم کے نکات ہو گئی ہے اقرار گناہ عشق سن لو مجھ سے اک بات ہو گئی ہے جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی تیری سوغات ہو گئی ہے کیا جانیے موت پہلے کیا تھی اب میری حیات ہو گئی ہے گھٹتے گھٹتے تری عنایت میری اوقات ہو گئی ہے اس چشم سیہ کی یاد یکسر شام ظلمات ہو گئی ہے اس دور میں زندگی بشر کی بیمار کی رات ہو گئی ہے جیتی ہوئی بازیٔ محبت کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے مٹنے لگیں زندگی کی قدریں جب غم سے نجات ہو گئی ہے وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ عاشق کی برات ہو گئی ہے پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی اب برق صفات ہو گئی ہے جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے اک برگ نبات ہو گئی ہے اکا دکا صدائے زنجیر زنداں میں رات ہو گئی ہے ایک ایک صفت فراقؔ اس کی دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے
Gulzar
آنکھوں میں جل رہا ہے پا بجھتا نہیں دھواں، گلزار غزلیں۔
آنکھوں میں جل رہا ہے پہ بجھتا نہیں دھواں اٹھتا تو ہے گھٹا سا برستا نہیں دھواں پلکوں کے ڈھانپنے سے بھی رکتا نہیں دھواں کتنی انڈیلیں آنکھیں پہ بجھتا نہیں دھواں آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں مہماں یہ گھر میں آئیں تو چبھتا نہیں دھواں چولھے نہیں جلائے کہ بستی ہی جل گئی کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھتا نہیں دھواں کالی لکیریں کھینچ رہا ہے فضاؤں میں بورا گیا ہے منہ سے کیوں کھلتا نہیں دھواں آنکھوں کے پوچھنے سے لگا آگ کا پتہ یوں چہرہ پھیر لینے سے چھپتا نہیں دھواں چنگاری اک اٹک سی گئی میرے سینے میں تھوڑا سا آ کے پھونک دو اڑتا نہیں دھواں
Mirza Ghalib
مژدہ اے ذوقِ اسیری کہ نظر آتا ہے مرزا غالب غزلیں
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے دام خالی قفس مرغ گرفتار کے پاس جگر تشنۂ آزار تسلی نہ ہوا جوئے خوں ہم نے بہائی بن ہر خار کے پاس مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس میں بھی رک رک کے نہ مرتا جو زباں کے بدلے دشنہ اک تیز سا ہوتا مرے غم خوار کے پاس دہن شیر میں جا بیٹھے لیکن اے دل نہ کھڑے ہو جیے خوبان دل آزار کے پاس دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے خود بہ خود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس مر گیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی ہے ہے بیٹھنا اس کا وہ آ کر تری دیوار کے پاس
Parveen Shakir
آنسو آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے، پروین شاکر کی غزلیں
اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے میں اس کے خیال سے گریزاں وہ میری صدا جھٹک رہا ہے تحریر اسی کی ہے مگر دل خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے صدیوں سے سفر میں ہے سمندر ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے اک چاند صلیب شاخ گل پر بالی کی طرح لٹک رہا ہے
Javed Akhtar
جسم دمکتا، زلف گھنیری، رنگین لب، آنکھیں جادو، جاوید اختر غزلیں
جسم دمکتا، زلف گھنیری، رنگیں لب، آنکھیں جادو سنگ مرمر، اودا بادل، سرخ شفق، حیراں آہو بھکشو دانی، پیاسا پانی، دریا ساگر، جل گاگر گلشن خوشبو، کوئل کوکو، مستی دارو، میں اور تو بانبی ناگن، چھایا آنگن، گھنگھرو چھن چھن، آشا من آنکھیں کاجل، پربت بادل، وہ زلفیں اور یہ بازو راتیں مہکی، سانسیں دہکی، نظریں بہکی، رت لہکی سپن سلونا، پریم کھلونا، پھول بچھونا، وہ پہلو تم سے دوری، یہ مجبوری، زخم کاری، بیداری، تنہا راتیں، سپنے کاتیں، خود سے باتیں، میری خو
Sahir Ludhianvi
سزا کا حال سنائیں، جزا کی بات کریں، ساحر لدھیانوی غزلیں۔
سزا کا حال سنائیں جزا کی بات کریں خدا ملا ہو جنہیں وہ خدا کی بات کریں انہیں پتہ بھی چلے اور وہ خفا بھی نہ ہوں اس احتیاط سے کیا مدعا کی بات کریں ہمارے عہد کی تہذیب میں قبا ہی نہیں اگر قبا ہو تو بند قبا کی بات کریں ہر ایک دور کا مذہب نیا خدا لایا کریں تو ہم بھی مگر کس خدا کی بات کریں وفا شعار کئی ہیں کوئی حسیں بھی تو ہو چلو پھر آج اسی بے وفا کی بات کریں
Javed Akhtar
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا، جاوید اختر غزلیں
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا جو فصل خواب کی تیار ہے تو یہ جانو کہ وقت آ گیا پھر درد کوئی بونے کا یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے وہ چہرہ جیسے ہو ٹوٹے ہوئے کھلونے کا
Javed Akhtar
سوکھی ٹہنی تنہا چڑیا پھیکا چاند جاوید اختر غزلیں
سوکھی ٹہنی تنہا چڑیا پھیکا چاند آنکھوں کے صحرا میں ایک نمی کا چاند اس ماتھے کو چومے کتنے دن بیتے جس ماتھے کی خاطر تھا اک ٹیکا چاند پہلے تو لگتی تھی کتنی بیگانہ کتنا مبہم ہوتا ہے پہلی کا چاند کم ہو کیسے ان خوشیوں سے تیرا غم لہروں میں کب بہتا ہے ندی کا چاند آؤ اب ہم اس کے بھی ٹکڑے کر لیں ڈھاکہ راولپنڈی اور دلی کا چاند
Allama Iqbal
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں، علامہ اقبال غزلیں
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
Mohsin Naqvi
لبوں پہ حرفِ رجز ہے، زرہ اتار کے بھی، محسن نقوی غزلیں
لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گرد رہ گزار کے بھی مجھے نہ سن مرے بے شکل اب دکھائی تو دے میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی مری دعا کو پلٹنا تھا پھر ادھر محسنؔ بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی
Habib Jalib
یہ سوچ کر نہ مائلِ فریاد ہم ہوئے، حبیب جالب کی غزلیں
یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے ہوتا ہے شاد کام یہاں کون با ضمیر ناشاد ہم ہوئے تو بہت شاد ہم ہوئے پرویز کے جلال سے ٹکرائے ہم بھی ہیں یہ اور بات ہے کہ نہ فرہاد ہم ہوئے کچھ ایسے بھا گئے ہمیں دنیا کے درد و غم کوئے بتاں میں بھولی ہوئی یاد ہم ہوئے جالبؔ تمام عمر ہمیں یہ گماں رہا اس زلف کے خیال سے آزاد ہم ہوئے
Mirza Ghalib
کعبے میں جا رہا ہوں تو نہ دو طعنہ کیا کہیں مرزا غالب غزلیں۔
کعبہ میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں بھولا ہوں حق صحبت اہل کنشت کو طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو غالبؔ کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے خرمن جلے اگر نہ ملخ کھائے کشت کو
Jaan Nisar Akhtar
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی، جاں نثار اختر غزلیں
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی ان سے یہی کہہ آئیں کہ اب ہم نہ ملیں گے آخر کوئی تقریب ملاقات بنے گی اے ناوک غم دل میں ہے اک بوند لہو کی کچھ اور تو کیا ہم سے مدارات بنے گی یہ ہم سے نہ ہوگا کہ کسی ایک کو چاہیں اے عشق ہماری نہ ترے سات بنے گی یہ کیا ہے کہ بڑھتے چلو بڑھتے چلو آگے جب بیٹھ کے سوچیں گے تو کچھ بات بنے گی
Faiz Ahmad Faiz
نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں، فیض احمد فیض غزلیں
نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں قریب ان کے آنے کے دن آ رہے ہیں جو دل سے کہا ہے جو دل سے سنا ہے سب ان کو سنانے کے دن آ رہے ہیں ابھی سے دل و جاں سر راہ رکھ دو کہ لٹنے لٹانے کے دن آ رہے ہیں ٹپکنے لگی ان نگاہوں سے مستی نگاہیں چرانے کے دن آ رہے ہیں صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے چمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں چلو فیضؔ پھر سے کہیں دل لگائیں سنا ہے ٹھکانے کے دن آ رہے ہیں
Ahmad Faraz
پھر اُسی رہگزار پر شاید احمد فراز کی غزلیں
پھر اسی رہ گزار پر شاید ہم کبھی مل سکیں مگر شاید جن کے ہم منتظر رہے ان کو مل گئے اور ہم سفر شاید جان پہچان سے بھی کیا ہوگا پھر بھی اے دوست غور کر شاید اجنبیت کی دھند چھٹ جائے چمک اٹھے تری نظر شاید زندگی بھر لہو رلائے گی یاد یاران بے خبر شاید جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔ پھر بھی تو انتظار کر شاید
Habib Jalib
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے حبیب جلیب غزلیں
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب اور ہم نے تو بات بھی کی ہے مطمئن ہے ضمیر تو اپنا بات ساری ضمیر ہی کی ہے اپنی تو داستاں ہے بس اتنی غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول فکر ہم کو کلی کلی کی ہے پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو جستجو آج بھی اسی کی ہے جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے
Jigar Moradabadi
سب پہ تو مہربان ہے پیارے جگر مرادآبادی غزلیں
سب پہ تو مہربان ہے پیارے کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے آ کہ تجھ بن بہت دنوں سے یہ دل ایک سونا مکان ہے پیارے تو جہاں ناز سے قدم رکھ دے وہ زمین آسمان ہے پیارے مختصر ہے یہ شوق کی روداد ہر نفس داستان ہے پیارے اپنے جی میں ذرا تو کر انصاف کب سے نامہربان ہے پیارے صبر ٹوٹے ہوئے دلوں کا نہ لے تو یوں ہی دھان پان ہے پیارے ہم سے جو ہو سکا سو کر گزرے اب ترا امتحان ہے پیارے مجھ میں تجھ میں تو کوئی فرق نہیں عشق کیوں درمیان ہے پیارے کیا کہے حال دل غریب جگرؔ ٹوٹی پھوٹی زبان ہے پیارے
Parveen Shakir
عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی۔ پروین شاکر غزلیں
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی چاپ نہیں دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی
Meer Taqi Meer
میر تقی میر غزلیں ۵
آگے جمال یار کے معذور ہو گیا گل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا اک چشم منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہو گیا قسمت تو دیکھ شیخ کو جب لہر آئی تب دروازہ شیرہ خانے کا معمور ہو گیا پہنچا قریب مرگ کے وہ صید ناقبول جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہو گیا دیکھا یہ ناؤ نوش کہ نیش فراق سے سینہ تمام خانۂ زنبور ہو گیا اس ماہ چاردہ کا چھپے عشق کیونکے آہ اب تو تمام شہر میں مشہور ہو گیا شاید کسو کے دل کو لگی اس گلی میں چوٹ میری بغل میں شیشۂ دل چور ہو گیا لاشہ مرا تسلی نہ زیر زمیں ہوا جب تک نہ آن کر وہ سر گور ہو گیا دیکھا جو میں نے یار تو وہ میرؔ ہی نہیں تیرے غم فراق میں رنجور ہو گیا
Mirza Ghalib
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو مرزا غالب غزلیں
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں ہو تو کیونکر ہو ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو ہمیں پھر ان سے امید اور انہیں ہماری قدر ہماری بات ہی پوچھیں نہ وہ تو کیونکر ہو غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا نہ مانے دیدۂ دیدار جو تو کیونکر ہو بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار وہ نیش ہو رگ جاں میں فرو تو کیونکر ہو مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقول حضور فراق یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو
Habib Jalib
وہی حالات ہیں فقیروں کے، حبیب جالب کی غزلیں
وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر اور حلقے ہیں سب امیروں کے ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے وہی اہل وفا کی صورت حال وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے سازشیں ہیں وہی خلاف عوام مشورے ہیں وہی مشیروں کے بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی وہی دن رات ہیں اسیروں کے
Faiz Ahmad Faiz
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی، فیض احمد فیض غزلیں
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی یہ برہمن کا کرم وہ عطائے شیخ حرم کبھی حیات کبھی مے حرام ہوتی رہی جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیضؔ لٹ کے یاروں سے تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی
Firaq GorakhPuri
شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو، فراق گورکھپوری غزلیں
شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو یہ سکوت ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا خامشی میں کچھ شکست ساز کی باتیں کرو نکہت زلف پریشاں داستان شام غم صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو ہر رگ دل وجد میں آتی رہے دکھتی رہے یوں ہی اس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی اس سکوت راز اس آواز کی باتیں کرو عشق رسوا ہو چلا بے کیف سا بیزار سا آج اس کی نرگس غماز کی باتیں کرو نام بھی لینا ہے جس کا اک جہان رنگ و بو دوستو اس نو بہار ناز کی باتیں کرو کس لیے عذر تغافل کس لیے الزام عشق آج چرخ‌ تفرقہ پرواز کی باتیں کرو کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو جو حیات جاوداں ہے جو ہے مرگ ناگہاں آج کچھ اس ناز اس انداز کی باتیں کرو عشق بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا شوخئ حسن کرشہ ساز کی باتیں کرو جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراقؔ آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو
Akbar Allahabadi
آہ جو دل سے نکالی جائے گی اکبر الہ آبادی غزلیں
آہ جو دل سے نکالی جائے گی کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی اس نزاکت پر یہ شمشیر جفا آپ سے کیوں کر سنبھالی جائے گی کیا غم دنیا کا ڈر مجھ رند کو اور اک بوتل چڑھا لی جائے گی شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی یاد ابرو میں ہے اکبرؔ محو یوں کب تری یہ کج خیالی جائے گی
Jigar Moradabadi
ای حسن یار، شرم یہ کیا انقلاب ہے، جگر مرادآبادی غزلیں
اے حسن یار شرم یہ کیا انقلاب ہے تجھ سے زیادہ درد ترا کامیاب ہے عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب اس کا بس ایک جوش محبت جواب ہے تیری عنایتیں کہ نہیں نذر جاں قبول تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ مانا کہ چشم شوق بہت بے حجاب ہے میں عشق بے نیاز ہوں تم حسن بے پناہ میرا جواب ہے نہ تمہارا جواب ہے مے خانہ ہے اسی کا یہ دنیا اسی کی ہے جس تشنہ لب کے ہاتھ میں جام شراب ہے اس سے دل تباہ کی روداد کیا کہوں جو یہ نہ سن سکے کہ زمانہ خراب ہے اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج دل مانتا نہیں کہ نظر کامیاب ہے میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے مانوس اعتبار کرم کیوں کیا مجھے اب ہر خطائے شوق اسی کا جواب ہے میں اس کا آئینہ ہوں وہ ہے میرا آئینہ میری نظر سے اس کی نظر کامیاب ہے تنہائی فراق کے قربان جائیے میں ہوں خیال یار ہے چشم پر آب ہے سرمایۂ فراق جگرؔ آہ کچھ نہ پوچھ اب جان ہے سو اپنے لیے خود عذاب ہے
Parveen Shakir
دھنک دھنک میری پوروں کے خواب کر دے گا پروین شاکر غزلیں
دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا
Waseem Barelvi
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں وسیم بریلوی غزلیں 3
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں پھر وہی تلخئ حالات مقدر ٹھہری نشے کیسے بھی ہوں کچھ دن میں اتر جاتے ہیں اک جدائی کا وہ لمحہ کہ جو مرتا ہی نہیں لوگ کہتے تھے کہ سب وقت گزر جاتے ہیں گھر کی گرتی ہوئی دیواریں ہی مجھ سے اچھی راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں ہم تو بے نام ارادوں کے مسافر ہیں وسیمؔ کچھ پتہ ہو تو بتائیں کہ کدھر جاتے ہیں
Dagh Dehlvi
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے داغ دہلوی غزلیں۔
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے جو زمانے کے ستم ہیں وہ زمانہ جانے تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے انداز وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے انہیں قدموں نے تمہارے انہیں قدموں کی قسم خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے دوستی میں تری در پردہ ہمارے دشمن اس قدر اپنے پرائے ہیں کہ جی جانتا ہے
Mirza Ghalib
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں، مرزا غالب کی غزلیں
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں دل آشفتگاں خال کنج دہن کے سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں ترے سرو قامت سے اک قد آدم قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں تماشا کہ اے محو آئینہ داری تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں سراغ تف نالہ لے داغ دل سے کہ شب رو کا نقش قدم دیکھتے ہیں بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں کسو کو زخود رستہ کم دیکھتے ہیں کہ آہو کو پابند رم دیکھتے ہیں خط لخت دل یک قلم دیکھتے ہیں مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں
Nida Fazli
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں ندا فضلی غزلیں
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں یاد آتی ہے! چوکا باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں بانس کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے آدھی سوئی آدھی جاگی تھکی دوپہری جیسی ماں چڑیوں کی چہکار میں گونجے رادھا موہن علی علی مرغے کی آواز سے بجتی گھر کی کنڈی جیسی ماں بیوی بیٹی بہن پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں دن بھر اک رسی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا آنکھیں جانے کہاں گئی پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
Meer Taqi Meer
عام حکم شراب کرتا ہوں میر تقی میر غزلیں
عام حکم شراب کرتا ہوں محتسب کو کباب کرتا ہوں ٹک تو رہ اے بنائے ہستی تو تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں بحث کرتا ہوں ہو کے ابجد خواں کس قدر بے حساب کرتا ہوں کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث تشنگی پر عتاب کرتا ہوں سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق اب تئیں آب آب کرتا ہوں جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں
Sahir Ludhianvi
سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں
سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے یہ راہ کہاں سے ہے یہ راہ کہاں تک ہے یہ راز کوئی راہی سمجھا ہے نہ جانا ہے اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پر کیا بیتے اس راہ میں اے راہی ہر موڑ بہانا ہے ہم لوگ کھلونا ہیں اک ایسے کھلاڑی کا جس کو ابھی صدیوں تک یہ کھیل رچانا ہے
Akbar Allahabadi
ایک بوسہ دیجیے میرا ایمان لیجیے اکبر الہ آبادی غزلیں
اک بوسہ دیجئے مرا ایمان لیجئے گو بت ہیں آپ بہر خدا مان لیجئے دل لے کے کہتے ہیں تری خاطر سے لے لیا الٹا مجھی پہ رکھتے ہیں احسان لیجئے غیروں کو اپنے ہاتھ سے ہنس کر کھلا دیا مجھ سے کبیدہ ہو کے کہا پان لیجئے مرنا قبول ہے مگر الفت نہیں قبول دل تو نہ دوں گا آپ کو میں جان لیجئے حاضر ہوا کروں گا میں اکثر حضور میں آج اچھی طرح سے مجھے پہچان لیجئے
Mirza Ghalib
نہ ہوگا یک بیابان ماندگی سے ذوق کم میرا مرزا غالب غزلیں
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا رہ خوابیدہ تھی گردن کش یک درس آگاہی زمیں کو سیلئ استاد ہے نقش قدم میرا سراغ آوارۂ عرض دو عالم شور محشر ہوں پرافشاں ہے غبار آں سوئے صحرائے عدم میرا ہوائے صبح یک عالم گریباں چاکی گل ہے دہان زخم پیدا کر اگر کھاتا ہے غم میرا نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہی میں گرد راہ ہوں بے مدعا ہے پیچ و خم میرا اسدؔ وحشت پرست گوشۂ تنہائی دل ہے برنگ موج مے خمیازۂ ساغر ہے رم میرا
Waseem Barelvi
زندگی تجھ پہ اب الزام کوئی کیا رکھے، وسیم بریلوی غزلیں
زندگی تجھ پہ اب الزام کوئی کیا رکھے اپنا احساس ہی ایسا ہے جو تنہا رکھے کن شکستوں کے شب و روز سے گزرا ہوگا وہ مصور جو ہر اک نقش ادھورا رکھے خشک مٹی ہی نے جب پاؤں جمانے نہ دیئے بہتے دریا سے پھر امید کوئی کیا رکھے آ غم دوست اسی موڑ پہ ہو جاؤں جدا جو مجھے میرا ہی رہنے دے نہ تیرا رکھے آرزوؤں کے بہت خواب تو دیکھو ہو وسیمؔ جانے کس حال میں بے درد زمانہ رکھے
Gulzar
وہ خط کے پرزے اڑا رہا تھا گلزار غزلیں
وہ خط کے پرزے اڑا رہا تھا ہواؤں کا رخ دکھا رہا تھا بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں میں اپنا لکھا مٹا رہا تھا دھواں دھواں ہو گئی تھیں آنکھیں چراغ کو جب بجھا رہا تھا منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی پڑوسیوں کو جگا رہا تھا اسی کا ایماں بدل گیا ہے کبھی جو میرا خدا رہا تھا وہ ایک دن ایک اجنبی کو مری کہانی سنا رہا تھا وہ عمر کم کر رہا تھا میری میں سال اپنے بڑھا رہا تھا خدا کی شاید رضا ہو اس میں تمہارا جو فیصلہ رہا تھا
Bahadur Shah Zafar
جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں بہادر شاہ ظفر غزلیں
جب کبھی دریا میں ہوتے سایہ افگن آپ ہیں فلس ماہی کو بتاتے ماہ روشن آپ ہیں سیتے ہیں سوزن سے چاک سینہ کیا اے چارہ ساز خار غم سینے میں اپنے مثل سوزن آپ ہیں پیار سے کر کے حمائل غیر کی گردن میں ہاتھ مارتے تیغ ستم سے مجھ کو گردن آپ ہیں کھینچ کر آنکھوں میں اپنی سرمۂ دنبالہ دار کرتے پیدا سحر سے نرگس میں سوسن آپ ہیں دیکھ کر صحرا میں مجھ کو پہلے گھبرایا تھا قیس پھر جو پہچانا تو بولا حضرت من آپ ہیں جی دھڑکتا ہے کہیں تار رگ گل چبھ نہ جائے سیج پر پھولوں کی کرتے قصد خفتن آپ ہیں کیا مزا ہے تیغ قاتل میں کہ اکثر صید عشق آن کر اس پر رگڑتے اپنی گردن آپ ہیں مجھ سے تم کیا پوچھتے ہو کیسے ہیں ہم کیا کہیں جی ہی جانے ہے کہ جیسے مشفق من آپ ہیں پر غرور و پر تکبر پر جفا و پر ستم پر فریب و پر دغا پر مکر و پر فن آپ ہیں ظلم پیشہ ظلم شیوہ ظلم ران و ظلم دوست دشمن دل دشمن جاں دشمن تن آپ ہیں یکہ تاز و نیزہ باز و عربدہ جو تند خو تیغ زن دشنہ گزار و ناوک افگن آپ ہیں تسمہ کش طراز و غارت گر تاراج ساز کافر یغمائی و قزاق رہزن آپ ہیں فتنہ جو بیداد گر سفاک و اظلم کینہ ور گرم جنگ و گرم قتل و گرم کشتن آپ ہیں بد مزاج و بد دماغ و بد شعار و بد سلوک بد طریق و بد زباں بد عہد و بد ظن آپ ہیں بے مروت بے وفا نا مہرباں نا آشنا میرے قاتل میرے حاسد میرے دشمن آپ ہیں اے ظفرؔ کیا پائے قاتل کے ہے بوسے کی ہوس یوں جو بسمل ہو کے سرگرم طپیدن آپ ہیں
Waseem Barelvi
میں اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا، وسیم بریلوی غزلیں
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا
Jaan Nisar Akhtar
زمین ہوگی کسی قاتل کا دامن ہم نہ کہتے تھے جان نثار اختر غزلیں
زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے اکارت جائے گا خون شہیداں ہم نہ کہتے تھے علاج چاک پیراہن ہوا تو اس طرح ہوگا سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے ترانے کچھ دئیے لفظوں میں خود کو قید کر لیں گے عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے انہیں سڑکوں پہ مر جائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے نظر لپٹی ہے شعلوں میں لہو تپتا ہے آنکھوں میں اٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اتر آئیں ستائے گی کسی دن یاد یاراں ہم نہ کہتے تھے نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی اجڑ جائے گا یہ شہر غزالاں ہم نہ کہتے تھے
Allama Iqbal
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی علامہ اقبال غزلیں
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی تمہارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی کھنچے خود بخود جانب طور موسیٰ کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
Mirza Ghalib
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے، مرزا غالب غزلیں
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی یہ جو اک لذت ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے رنج رہ کیوں کھینچیے واماندگی کو عشق ہے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی فتنۂ شور قیامت کس کے آب و گل میں ہے ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے
Mirza Ghalib
میری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنا ہے، مرزا غالب غزلیں۔
مری ہستی فضاۓ حیرت آباد تمنا ہے جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے خزاں کیا فصل گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے وفائے دلبراں ہے اتفاقی ورنہ اے ہمدم اثر فریاد دل ‌ہاۓ حزیں کا کس نے دیکھا ہے نہ لائی شوخی اندیشہ تاب رنج نومیدی کف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے نہ سووے آبلوں میں گر سرشک دیدۂ نم سے بہ جولاں گاۂ نومیدی نگاۂ عاجزاں پا ہے بہ سختی ہاۓ قید زندگی معلوم آزادی شرر بھی صید دام رشتۂ رگ‌ ہاۓ خارا ہے تغافل مشربی سے ناتمامی بسکہ پیدا ہے نگاہ ناز چشم یار میں زنار مینا ہے تصرف وحشیوں میں ہے تصور ہاۓ مجنوں کا سواد چشم آہو عکس خال روئے لیلا ہے محبت طرز پیوند نہال دوستی جانے دویدن ریشہ ساں مفت رگ خواب زلیخا ہے کیا یک سر گداز دل نیاز جوشش حسرت سویدا نسخۂ تہ بندی داغ تمنا ہے ہجوم ریزش خوں کے سبب رنگ اڑ نہیں سکتا حناۓ پنجۂ صیاد مرغ رشتہ بر پا ہے اثر سوز محبت کا قیامت بے محابا ہے کہ رگ سے سنگ میں تخم شرر کا ریشہ پیدا ہے نہاں ہے گوہر مقصود جیب خود شناسی میں کہ یاں غواص ہے تمثال اور آئینہ دریا ہے عزیزو ذکر وصل غیر سے مجھ کو نہ بہلاؤ کہ یاں افسون خواب افسانۂ خواب زلیخا ہے تصور بہر تسکین تپیدن ہاۓ طفل دل بہ باغ رنگ ‌ہاۓ رفتہ گل چین تماشا ہے بہ سعی غیر ہے قطع لباس خانہ ویرانی کہ ناز جادۂ رہ رشتۂ دامان صحرا ہے
Nazm Tabatabai
عبث ہے نازِ استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو نظم طبع طباعی غزلیں
عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو خدا معلوم یہ سامان کیا ہو جائے سر کیا ہو یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو نہ ہو جب درد ہی یارب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو جہاں انسان کھو جاتا ہو خود پھر اس کی محفل میں رسائی کس طرح ہو دخل کیوں کر ہو گزر کیا ہو نہ پوچھوں گا میں یہ بھی جام میں ہے زہر یا امرت تمہارے ہاتھ سے اندیشۂ نفع و ضرر کیا ہو مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں یہ سچ ہے نازنیں ہو خوب صورت ہو مگر کیا ہو شگوفے دیکھ کر مٹھی میں زر کو مسکراتے ہیں کہ جب عمر اس قدر کوتاہ رکھتے ہیں تو زر کیا ہو رہا کرتی ہے یہ حیرت مجھے زہد ریائی پر خدا سے جو نہیں ڈرتا اسے بندہ کا ڈر کیا ہو کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو کہا میں نے کہ ہے سوز جگر اور اف نہیں کرتا کہا اس کی اجازت ہی نہیں پھر نوحہ گر کیا ہو کہا میں نے کہ دے اس کو اجازت آہ کرنے کی کہا اس نے بھڑک اٹھے اگر سوز جگر کیا ہو کہا میں نے کہ آنسو آنکھ کا لیکن نہیں تھمتا کہا آنکھیں کوئی تلووں سے مل ڈالے اگر کیا ہو کہا میں نے قدم بھر پر ہے وہ صورت دکھا آؤ کہا منہ پھیر کر اتنا کسی کو درد سر کیا ہو کہا میں نے اثر مطلق نہیں کیا سنگ دل ہے تو کہا جب دل ہو پتھر کا تو پتھر پر اثر کیا ہو کہا میں نے جو مر جائے تو کیا ہو سوچ تو دل میں کہا ناعاقبت اندیش نے کچھ سوچ کر کیا ہو کہا میں نے خبر بھی ہے کہ دی جاں اس نے گھٹ گھٹ کر کہا مر جائے چپکے سے تو پھر مجھ کو خبر کیا ہو
Faiz Ahmad Faiz
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا، فیض احمد فیض غزلیں
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا جو نفس تھا خار گلو بنا جو اٹھے تھے ہاتھ لہو ہوئے وہ نشاط آہ سحر گئی وہ وقار دست دعا گیا نہ وہ رنگ فصل بہار کا نہ روش وہ ابر بہار کی جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و صفا گیا ابھی بادبان کو تہ رکھو ابھی مضطرب ہے رخ ہوا کسی راستے میں ہے منتظر وہ سکوں جو آ کے چلا گیا
Nida Fazli
گرجا میں، مندروں میں، اذانوں میں بٹ گیا ندا فاضلی غزلیں
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا اک عشق نام کا جو پرندہ خلا میں تھا اترا جو شہر میں تو دکانوں میں بٹ گیا پہلے تلاشا کھیت پھر دریا کی کھوج کی باقی کا وقت گیہوں کے دانوں میں بٹ گیا جب تک تھا آسمان میں سورج سبھی کا تھا پھر یوں ہوا وہ چند مکانوں میں بٹ گیا ہیں تاک میں شکاری نشانہ ہیں بستیاں عالم تمام چند مچانوں میں بٹ گیا خبروں نے کی مصوری خبریں غزل بنیں زندہ لہو تو تیر کمانوں میں بٹ گیا
Akbar Allahabadi
آپ نے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے اکبر الہ آبادی غزلیں
اپنے پہلو سے وہ غیروں کو اٹھا ہی نہ سکے ان کو ہم قصۂ غم اپنا سنا ہی نہ سکے ذہن میرا وہ قیامت کہ دو عالم پہ محیط آپ ایسے کہ مرے ذہن میں آ ہی نہ سکے دیکھ لیتے جو انہیں تو مجھے رکھتے معذور شیخ صاحب مگر اس بزم میں جا ہی نہ سکے عقل مہنگی ہے بہت عشق خلاف تہذیب دل کو اس عہد میں ہم کام میں لا ہی نہ سکے ہم تو خود چاہتے تھے چین سے بیٹھیں کوئی دم آپ کی یاد مگر دل سے بھلا ہی نہ سکے عشق کامل ہے اسی کا کہ پتنگوں کی طرح تاب نظارۂ معشوق کی لا ہی نہ سکے دام ہستی کی بھی ترکیب عجب رکھی ہے جو پھنسے اس میں وہ پھر جان بچا ہی نہ سکے مظہر جلوۂ جاناں ہے ہر اک شے اکبرؔ بے ادب آنکھ کسی سمت اٹھا ہی نہ سکے ایسی منطق سے تو دیوانگی بہتر اکبرؔ کہ جو خالق کی طرف دل کو جھکا ہی نہ سکے
Wali Mohammad Wali
جب تجھ عرق کے وصف میں جاری قلم ہوا ولی محمد ولی غزلیں
جب تجھ عرق کے وصف میں جاری قلم ہوا عالم میں اس کا ناؤں جواہر رقم ہوا نقطے پہ تیرے خال کے باندھا ہے جن نے دل وو دائرہ میں عشق کے ثابت قدم ہوا تجھ فطرت بلند کی خوبی کوں لکھ قلم مشہور جگ کے بیچ عطارد رقم ہوا طاقت نہیں کہ حشر میں ہووے وو دادخواہ جس بے گنہ پہ تیری نگہ سوں ستم ہوا بے منت شراب ہوں سر شار انبساط تجھ نین کا خیال مجھے جام جم ہوا جن نے بیاں لکھا ہے مرے رنگ زرد کا اس کوں خطاب غیب سوں زریں رقم ہوا شہرت ہوئی ہے جب سے ترے شعر کی ولیؔ مشتاق تجھ سخن کا عرب تا عجم ہوا
Mohsin Naqvi
ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا محسن نقوی غزلیں
ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا صبح کے تارے مری پہلی دعا تیرے لیے تو دل بے صبر کو تسکیں ذرا سی دے گیا لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں اک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا
Mirza Ghalib
ذکر میرا بہ بدی بھی اُسے منظور نہیں، مرزا غالب غزلیں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں وعدۂ سیر گلستاں ہے خوشا طالع شوق مژدۂ قتل مقدر ہے جو مذکور نہیں شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں حسرت اے ذوق خرابی کہ وہ طاقت نہ رہی عشق پر عربدہ کی گوں تن رنجور نہیں میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں ظلم کر ظلم اگر لطف دریغ آتا ہو تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں صاف دردی کش پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ وائے وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں ہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں
Javed Akhtar
نگل گئے سب کی سب سمندر، زمین بچی اب کہیں نہیں ہے، جاوید اختر غزلیں۔
نگل گئے سب کی سب سمندر زمیں بچی اب کہیں نہیں ہے بچاتے ہم اپنی جان جس میں وہ کشتی بھی اب کہیں نہیں ہے بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کے دیکھا مگر میں پہچانتا تھا جس کو وہ آدمی اب کہیں نہیں ہے گزر گیا وقت دل پہ لکھ کر نہ جانے کیسی عجیب باتیں ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے تو سادگی اب کہیں نہیں ہے وہ آگ برسی ہے دوپہر میں کہ سارے منظر جھلس گئے ہیں یہاں سویرے جو تازگی تھی وہ تازگی اب کہیں نہیں ہے تم اپنے قصبوں میں جا کے دیکھو وہاں بھی اب شہر ہی بسے ہیں کہ ڈھونڈھتے ہو جو زندگی تم وہ زندگی اب کہیں نہیں ہے
Jaan Nisar Akhtar
افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے جاں نثار اختر غزلیں
افق اگرچہ پگھلتا دکھائی پڑتا ہے مجھے تو دور سویرا دکھائی پڑتا ہے ہمارے شہر میں بے چہرہ لوگ بستے ہیں کبھی کبھی کوئی چہرہ دکھائی پڑتا ہے چلو کہ اپنی محبت سبھی کو بانٹ آئیں ہر ایک پیار کا بھوکا دکھائی پڑتا ہے جو اپنی ذات سے اک انجمن کہا جائے وہ شخص تک مجھے تنہا دکھائی پڑتا ہے نہ کوئی خواب نہ کوئی خلش نہ کوئی خمار یہ آدمی تو ادھورا دکھائی پڑتا ہے لچک رہی ہیں شعاعوں کی سیڑھیاں پیہم فلک سے کوئی اترتا دکھائی پڑتا ہے چمکتی ریت پہ یہ غسل آفتاب ترا بدن تمام سنہرا دکھائی پڑتا ہے
Jaun Eliya
میں عزا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں، میں جون ایلیا کی غزلیں۔
ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں اک حسن بے مثال کی تمثیل کے لیے پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں کیا مل گیا ضمیر ہنر بیچ کر مجھے اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں روحوں کے پردہ پوش گناہوں سے بے خبر جسموں کی نیکیاں ہی گناتا رہا ہوں میں تجھ کو خبر نہیں کہ ترا کرب دیکھ کر اکثر ترا مذاق اڑاتا رہا ہوں میں شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں اک سطر بھی کبھی نہ لکھی میں نے تیرے نام پاگل تجھی کو یاد بھی آتا رہا ہوں میں جس دن سے اعتماد میں آیا ترا شباب اس دن سے تجھ پہ ظلم ہی ڈھاتا رہا ہوں میں اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں بیدار کر کے تیرے بدن کی خود آگہی تیرے بدن کی عمر گھٹاتا رہا ہوں میں کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں
Mirza Ghalib
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے مرزا غالب غزلیں
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے جاں کالبد صورت دیوار میں آوے سایہ کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر تو اس قد دل کش سے جو گلزار میں آوے تب ناز گراں مایگی اشک بجا ہے جب لخت جگر دیدۂ خوں بار میں آوے دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے اس چشم فسوں گر کا اگر پائے اشارہ طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تن نازک آغوش خم حلقۂ زنار میں آوے غارت گر ناموس نہ ہو گر ہوس زر کیوں شاہد گل باغ سے بازار میں آوے تب چاک گریباں کا مزا ہے دل نالاں جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے آتشکدہ ہے سینہ مرا راز نہاں سے اے واے اگر معرض اظہار میں آوے گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
Javed Akhtar
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے۔ جاوید اختر غزلیں
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے بہت سے زرد چہروں پر غبار غم ہے کم بے شک پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے کبھی ہم کو یقیں تھا زعم تھا دنیا ہماری جو مخالف ہے تو ہو جائے مگر تم مہرباں ہو ہمیں یہ بات ویسے یاد تو اب کیا ہے لیکن ہاں اسے یکسر بھلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے جہاں اتنے مصائب ہوں جہاں اتنی پریشانی کسی کا بے وفا ہونا ہے کوئی سانحہ کیا بہت معقول ہے یہ بات لیکن اس حقیقت تک دل ناداں کو لانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے کوئی ٹوٹے ہوئے شیشے لئے افسردہ و مغموم کب تک یوں گزارے بے طلب بے آرزو دن تو ان خوابوں کی کرچیں ہم نے پلکوں سے جھٹک دیں پر نئے ارماں سجانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے توہم کی سیہ شب کو کرن سے چاک کر کے آگہی ہر ایک آنگن میں نیا سورج اتارے مگر افسوس یہ سچ ہے وہ شب تھی اور یہ سورج ہے یہ سب کو مان جانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے پرانی منزلوں کا شوق تو کس کو ہے باقی اب نئی ہیں منزلیں ہیں سب کے دل میں جن کے ارماں بنا لینا نئی منزل نہ تھا مشکل مگر اے دل نئے رستے بنانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے اندھیرے ڈھل گئے روشن ہوئے منظر زمیں جاگی فلک جاگا تو جیسے جاگ اٹھی زندگانی مگر کچھ یاد ماضی اوڑھ کے سوئے ہوئے لوگوں کو لگتا ہے جگانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
Mirza Ghalib
نہ ہوئی گر میرے مرنے سے تسلی نہ سہی مرزا غالب غزلیں
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی خار خار الم حسرت دیدار تو ہے شوق گلچین گلستان تسلی نہ سہی مے پرستاں خم مے منہ سے لگائے ہی بنے ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی نفس قیس کہ ہے چشم و چراغ صحرا گر نہیں شمع سیہ خانۂ لیلی نہ سہی ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی عشرت صحبت خوباں ہی غنیمت سمجھو نہ ہوئی غالبؔ اگر عمر طبیعی نہ سہی
Mirza Ghalib
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرمِ تماشا ہو مرزا غالب کی غزلیں
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہو بہ قدر حسرت دل چاہیے ذوق معاصی بھی بھروں یک گوشۂ دامن گر آب ہفت دریا ہو اگر وہ سرو قد گرم خرام ناز آ جاوے کف ہر خاک گلشن شکل قمری نالہ فرسا ہو بہم بالیدن سنگ و گل صحرا یہ چاہے ہے کہ تار جادہ بھی کہسار کو زنار مینا ہو حریف وحشت ناز نسیم عشق جب آؤں کہ مثل غنچہ ساز یک گلستاں دل مہیا ہو بجائے دانہ خرمن یک بیاباں بیضۂ قمری مرا حاصل وہ نسخہ ہے کہ جس سے خاک پیدا ہو کرے کیا ساز بینش وہ شہید درد آگاہی جسے موئے دماغ بے خودی خواب زلیخا ہو دل جوں شمع بہر دعوت نظارہ لایعنی نگہ لبریز اشک و سینہ معمور تمنا ہو نہ دیکھیں روئے یک دل سرد غیر از شمع کافوری خدایا اس قدر بزم اسدؔ گرم تماشا ہو
Mirza Ghalib
سیاہی جیسے گر جائے دمِ تحریر کاغذ پر، مرزا غالب غزلیں
سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہاۓ ہجراں کی کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی کہ شمع خانۂ دل آتش مے سے فروزاں کی ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشق تیرہ روزی تھی سیاہی ہے مرے ایام میں لوح دبستاں کی دریغ آہ سحر گہ کار باد صبح کرتی ہے کہ ہوتی ہے زیادہ سرد مہری شمع رویاں کی مجھے اپنے جنوں کی بے تکلف پردہ داری تھی ولیکن کیا کروں آوے جو رسوائی گریباں کی ہنر پیدا کیا ہے میں نے حیرت آزمائی میں کہ جوہر آئنے کا ہر پلک ہے چشم حیراں کی خدایا کس قدر اہل نظر نے خاک چھانی ہے کہ ہیں صد رخنہ جوں غربال دیواریں گلستاں کی ہوا شرم تہی دستی سے سے وہ بھی سرنگوں آخر بس اے زخم جگر اب دیکھ لے شورش نمکداں کی بیاد گرمیٔ صحبت بہ رنگ شعلہ دہکے ہے چھپاؤں کیونکہ غالبؔ سوزشیں داغ نمایاں کی جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی نمک پاش خراش دل ہے لذت زندگانی کی کشاکش‌ ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعی آزادی ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی نہ کھینچ اے سعیٔ دست نارسا زلف تمنا کو پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانی کی کہاں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں انصاف بہتر ہے نہ کھینچے طاقت خمیازہ تہمت ناتوانی کی تکلف برطرف فرہاد اور اتنی سبکدستی خیال آساں تھا لیکن خواب خسرو نے گرانی کی پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے شرار سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی اسدؔ کو بوریے میں دھر کے پھونکا موج ہستی نے فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی
Allama Iqbal
ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق، علامہ اقبال غزلیں
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم بغل میں اس کی ہیں اب تک بتان عہد عتیق مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحب تصدیق اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
Jaun Eliya
اب وہ گھر ایک ویرانہ تھا، بس ویرانہ زندہ تھا، جون ایلیا غزلیں۔
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اڑے ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی وعدے اور پھر دن گننا آنا تھا جانے والے کو جانے والا زندہ تھا دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی تھا آباد محلہ سارا ہر دروازہ زندہ تھا پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسا دیتی تھی آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس اک کوا زندہ تھا
Nazm Tabatabai
کیا کہیں کس سے پیار کر بیٹھے سید علی حیدر تبا تبائی غزلیں
کیا کہیں کس سے پیار کر بیٹھے اپنے دل کو فگار کر بیٹھے صبر کی اک قبا جو باقی تھی اس کو بھی تار تار کر بیٹھے آج پھر ان کی آمد آمد ہے ہم خزاں کو بہار کر بیٹھے وائے اس بت کا وعدۂ فردا عمر بھر انتظار کر بیٹھے خود جو غم ہیں تو آئنہ حیراں کس غضب کا سنگھار کر بیٹھے ہم تہی دست تجھ کو کیا دیتے جان تجھ پر نثار کر بیٹھے
Mirza Ghalib
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز مرزا غالب غزلیں
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز دل سے نکلا پہ نہ نکلا دل سے ہے ترے تیر کا پیکان عزیز تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
Mirza Ghalib
نکتہ چین ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے، مرزا غالب غزلیں
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
Waseem Barelvi
کیا بتاؤں کیسا خود کو در بدر میں نے کیا، وسیم بریلوی غزلیں۔
کیا بتاؤں کیسا خود کو در بدر میں نے کیا عمر بھر کس کس کے حصے کا سفر میں نے کیا تو تو نفرت بھی نہ کر پائے گا اس شدت کے ساتھ جس بلا کا پیار تجھ سے بے خبر میں نے کیا کیسے بچوں کو بتاؤں راستوں کے پیچ و خم زندگی بھر تو کتابوں کا سفر میں نے کیا کس کو فرصت تھی کہ بتلاتا تجھے اتنی سی بات خود سے کیا برتاؤ تجھ سے چھوٹ کر میں نے کیا چند جذباتی سے رشتوں کے بچانے کو وسیمؔ کیسا کیسا جبر اپنے آپ پر میں نے کیا
Javed Akhtar
میرے دل میں اتر گیا سورج، جاوید اختر غزلیں
میرے دل میں اتر گیا سورج تیرگی میں نکھر گیا سورج درس دے کر ہمیں اجالے کا خود اندھیرے کے گھر گیا سورج ہم سے وعدہ تھا اک سویرے کا ہائے کیسا مکر گیا سورج چاندنی عکس چاند آئینہ آئینے میں سنور گیا سورج ڈوبتے وقت زرد تھا اتنا لوگ سمجھے کہ مر گیا سورج
Gulzar
تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے گلزار غزلیں
تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے کچھ بھنور ڈوب گئے پانی میں چکراتے ہوئے ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ کر رکھا چھینا جھپٹی میں افق کھلتا گیا جاتے ہوئے میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری شوخ پتے نے کہا شاخ سے مرجھاتے ہوئے حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا جاتے ہوئے سی لیے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سن کر میلی ہو جاتی ہے آواز بھی دہراتے ہوئے
Altaf Hussain Hali
غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں، الطاف حسین حالی کی غزلیں
غم فرقت ہی میں مرنا ہو تو دشوار نہیں شادی وصل بھی عاشق کو سزاوار نہیں خوبروئی کے لیے زشتیٔ خو بھی ہے ضرور سچ تو یہ ہے کہ کوئی تجھ سا طرح دار نہیں قول دینے میں تامل نہ قسم سے انکار ہم کو سچا نظر آتا کوئی اقرار نہیں کل خرابات میں اک گوشہ سے آتی تھی صدا دل میں سب کچھ ہے مگر رخصت گفتار نہیں حق ہوا کس سے ادا اس کی وفاداری کا جس کے نزدیک جفا باعث آزار نہیں دیکھتے ہیں کہ پہنچتی ہے وہاں کون سی راہ کعبہ و دیر سے کچھ ہم کو سروکار نہیں ہوں گے قائل وہ ابھی مطلع ثانی سن کر جو تجلی میں یہ کہتے ہیں کہ تکرار نہیں
Mirza Ghalib
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے مرزا غالب غزلیں
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے نالہ پابند نے نہیں ہے کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے گر باغ گدائے مے نہیں ہے ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے ہاں کھائیو مت فریب ہستی ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے اردی جو نہ ہو تو دے نہیں ہے کیوں رد قدح کرے ہے زاہد مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے
Nida Fazli
نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر ندا فضلی غزلیں
نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی گمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر
Naji Shakir
دیکھی بہار ہم نے کل زور میں کھڑے میں ناجی شاکر غزلیں
دیکھی بہار ہم نے کل زور مے کدے میں ہنسنے سیں اوس سجن کے تھا شور مے کدے میں تھے جوش مل سیں ایسی شورش میں داغ دل کے گویا کہ کودتے ہیں یہ مور مے کدے میں پھندا رکھا تھا میں نے شاید کہ وہ پری رو دیکھے تو پاس میرے ہو دور مے کدے میں ہے آرزو کہ ہم دم وہ ماہ رو ہو میرا دے شام سیں جو پیالہ ہو بھور مے کدے میں ساقی وہی ہے میرا ناجیؔ کہ گر مروں میں مجھ واسطے بنا دے جا گور مے کدے میں
Bahadur Shah Zafar
کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کین سے دور، بہادر شاہ ظفر غزلیں
کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کیں سے دور دیکھو زمیں فلک سے فلک ہے زمیں سے دور پروانہ وصل شمع پہ دیتا ہے اپنی جاں کیونکر رہے دل اس کے رخ آتشیں سے دور مضمون وصل و ہجر جو نامہ میں ہے رقم ہے حرف بھی کہیں سے ملے اور کہیں سے دور گو تیر بے گماں ہے مرے پاس پر ابھی جائے نکل کے سینۂ چرخ بریں سے دور وہ کون ہے کہ جاتے نہیں آپ جس کے پاس لیکن ہمیشہ بھاگتے ہو تم ہمیں سے دور حیران ہوں کہ اس کے مقابل ہو آئینہ جو پر غرور کھنچتا ہے ماہ مبیں سے دور یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور منظور ہو جو دید تجھے دل کی آنکھ سے پہنچے تری نظر نگہ دور بیں سے دور دنیائے دوں کی دے نہ محبت خدا ظفرؔ انساں کو پھینک دے ہے یہ ایمان و دیں سے دور
Naseer Turabi
ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا، نصیر ترابی غزلیں
ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا
Altaf Hussain Hali
میں تو میں غیر کو مارنے سے اب انکار نہیں، الطاف حسین حالی غزلیں
میں تو میں غیر کو مرنے سے اب انکار نہیں اک قیامت ہے ترے ہاتھ میں تلوار نہیں کچھ پتا منزل مقصود کا پایا ہم نے جب یہ جانا کہ ہمیں طاقت رفتار نہیں چشم بد دور بہت پھرتے ہیں اغیار کے ساتھ غیرت عشق سے اب تک وہ خبردار نہیں ہو چکا ناز اٹھانے میں ہے گو کام تمام للہ الحمد کہ باہم کوئی تکرار نہیں مدتوں رشک نے اغیار سے ملنے نہ دیا دل نے آخر یہ دیا حکم کہ کچھ عار نہیں اصل مقصود کا ہر چیز میں ملتا ہے پتا ورنہ ہم اور کسی شے کے طلب گار نہیں بات جو دل میں چھپاتے نہیں بنتی حالیؔ سخت مشکل ہے کہ وہ قابل اظہار نہیں
Akbar Allahabadi
نہ حاصل ہوا صبر و آرام دل کا اکبر الہ آبادی غزلیں
نہ حاصل ہوا صبر و آرام دل کا نہ نکلا کبھی تم سے کچھ کام دل کا محبت کا نشہ رہے کیوں نہ ہر دم بھرا ہے مئے عشق سے جام دل کا پھنسایا تو آنکھوں نے دام بلا میں مگر عشق میں ہو گیا نام دل کا ہوا خواب رسوا یہ عشق بتاں میں خدا ہی ہے اب میرے بدنام دل کا یہ بانکی ادائیں یہ ترچھی نگاہیں یہی لے گئیں صبر و آرام دل کا دھواں پہلے اٹھتا تھا آغاز تھا وہ ہوا خاک اب یہ ہے انجام دل کا جب آغاز الفت ہی میں جل رہا ہے تو کیا خاک بتلاؤں انجام دل کا خدا کے لئے پھیر دو مجھ کو صاحب جو سرکار میں کچھ نہ ہو کام دل کا پس مرگ ان پر کھلا حال الفت گئی لے کے روح اپنی پیغام دل کا تڑپتا ہوا یوں نہ پایا ہمیشہ کہوں کیا میں آغاز و انجام دل کا دل اس بے وفا کو جو دیتے ہو اکبرؔ تو کچھ سوچ لو پہلے انجام دل کا
Naseer Turabi
وہ ہم سفر تھا مگر اُس سے ہم نوائی نہ تھی، نصیر ترابی غزلیں
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
Ahmad Faraz
قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا احمد فراز غزلیں
قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا وہ راحت جاں ہے مگر اس در بدری میں ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا
Sahir Ludhianvi
اب آئیں یا نہ آئیں ادھر پوچھتے چلو، ساحر لدھیانوی غزلیں
اب آئیں یا نہ آئیں ادھر پوچھتے چلو کیا چاہتی ہے ان کی نظر پوچھتے چلو ہم سے اگر ہے ترک تعلق تو کیا ہوا یارو کوئی تو ان کی خبر پوچھتے چلو جو خود کو کہہ رہے ہیں کہ منزل شناس ہیں ان کو بھی کیا خبر ہے مگر پوچھتے چلو کس منزل مراد کی جانب رواں ہیں ہم اے رہروان خاک بسر پوچھتے چلو
Wali Mohammad Wali
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سن کہوں گا ولی محمد ولی غزلیں
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا دی بادشہی حق نے تجھے حسن نگر کی یو کشور ایراں میں سلیماں سوں کہوں گا تعریف ترے قد کی الف وار سریجن جا سرو گلستاں کوں خوش الحاں سوں کہوں گا مجھ پر نہ کرو ظلم تم اے لیلی خوباں مجنوں ہوں ترے غم کوں بیاباں سوں کہوں گا دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایۂ خوبی اس خواب کو جا یوسف کنعاں سوں کہوں گا جلتا ہوں شب و روز ترے غم میں اے ساجن یہ سوز ترا مشعل سوزاں سوں کہوں گا یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نئیں بے جا اس مکھ کو ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا قربان پری مکھ پہ ہوئی چوب سی جل کر یہ بات عجائب مہ تاباں سوں کہوں گا بے صبر نہ ہو اے ولیؔ اس درد سوں ہرگز جلتا ہوں ترے درد میں درماں سوں کہوں گا
Akbar Allahabadi
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی، اکبر الہ آبادی غزلیں
پھر گئی آپ کی دو دن میں طبیعت کیسی یہ وفا کیسی تھی صاحب یہ مروت کیسی دوست احباب سے ہنس بول کے کٹ جائے گی رات رند آزاد ہیں ہم کو شب فرقت کیسی جس حسیں سے ہوئی الفت وہی معشوق اپنا عشق کس چیز کو کہتے ہیں طبیعت کیسی ہے جو قسمت میں وہی ہوگا نہ کچھ کم نہ سوا آرزو کہتے ہیں کس چیز کو حسرت کیسی حال کھلتا نہیں کچھ دل کے دھڑکنے کا مجھے آج رہ رہ کے بھر آتی ہے طبیعت کیسی کوچۂ یار میں جاتا تو نظارہ کرتا قیس آوارہ ہے جنگل میں یہ وحشت کیسی
Mirza Ghalib
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا، مرزا غالب غزلیں
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا تجاہل پیشگی سے مدعا کیا کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں شکایت ہائے رنگیں کا گلہ کیا نگاہ بے محابا چاہتا ہوں تغافل ہائے تمکیں آزما کیا فروغ شعلۂ خس یک نفس ہے ہوس کو پاس ناموس وفا کیا نفس موج محیط بے خودی ہے تغافل ہائے ساقی کا گلہ کیا دماغ عطر پیراہن نہیں ہے غم آوارگی ہائے صبا کیا دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا محابا کیا ہے میں ضامن ادھر دیکھ شہیدان نگہ کا خوں بہا کیا سن اے غارت گر جنس وفا سن شکست شیشۂ دل کی صدا کیا کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ شکیب خاطر عاشق بھلا کیا یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا
Parveen Shakir
گواہی کیسے ٹوٹی، معاملہ خدا کا تھا، پروین شاکر غزلیں
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا
Dagh Dehlvi
بات میری کبھی سنی ہی نہیں داغ دہلوی غزلیں
بات میری کبھی سنی ہی نہیں جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں اڑ گئی یوں وفا زمانے سے کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں جان کیا دوں کہ جانتا ہوں میں تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں دل لگی دل لگی نہیں ناصح تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں داغؔ کیوں تم کو بے وفا کہتا وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں
Nida Fazli
آج ذرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا ندا فضلی غزلیں 3
آج ذرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے رنگ اڑائے پھول کھلائے چڑیوں کو آزاد کیا بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا بات بہت معمولی سی تھی الجھ گئی تکراروں میں ایک ذرا سی ضد نے آخر دونوں کو برباد کیا داناؤں کی بات نہ مانی کام آئی نادانی ہی سنا ہوا کو پڑھا ندی کو موسم کو استاد کیا
Ahmad Faraz
اب شوق سے کی جان سے گزر جانا چاہیے احمد فراز کی غزلیں
اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیئے بول اے ہوائے شہر کدھر جانا چاہیئے کب تک اسی کو آخری منزل کہیں گے ہم کوئے مراد سے بھی ادھر جانا چاہیئے وہ وقت آ گیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر گہرے سمندروں میں اتر جانا چاہیئے اب رفتگاں کی بات نہیں کارواں کی ہے جس سمت بھی ہو گرد سفر جانا چاہیئے کچھ تو ثبوت خون تمنا کہیں ملے ہے دل تہی تو آنکھ کو بھر جانا چاہیئے یا اپنی خواہشوں کو مقدس نہ جانتے یا خواہشوں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیئے
Parveen Shakir
پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون؟ پروین شاکر غزلیں
پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون میرا سر حاضر ہے لیکن میرا منصف دیکھ لے کر رہا ہے میری فرد جرم کو تحریر کون آج دروازوں پہ دستک جانی پہچانی سی ہے آج میرے نام لاتا ہے مری تعزیر کون کوئی مقتل کو گیا تھا مدتوں پہلے مگر ہے در خیمہ پہ اب تک صورت تصویر کون میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون سچ جہاں پابستہ ملزم کے کٹہرے میں ملے اس عدالت میں سنے گا عدل کی تفسیر کون نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں خواب دیکھے کون اور خوابوں کو دے تعبیر کون ریت ابھی پچھلے مکانوں کی نہ واپس آئی تھی پھر لب ساحل گھروندا کر گیا تعمیر کون سارے رشتے ہجرتوں میں ساتھ دیتے ہیں تو پھر شہر سے جاتے ہوئے ہوتا ہے دامن گیر کون دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
Firaq GorakhPuri
بے ٹھکانے ہے دلِ غم گین، ٹھکانے کی کہو فراق گورکھپوری غزلیں
بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کی کہو شام ہجراں دوستو کچھ اس کے آنے کی کہو ہاں نہ پوچھ اک گرفتار قفس کی زندگی ہم صفیران چمن کچھ آشیانے کی کہو اڑ گیا ہے منزل دشوار میں غم کا سمند گیسوئے پر پیچ و خم کے تازیانے کی کہو بات بنتی اور باتوں سے نظر آتی نہیں اس نگاہ ناز کی باتیں بنانے کی کہو داستاں وہ تھی جسے دل بجھتے بجھتے کہہ گیا شمع بزم زندگی کے جھلملانے کی کہو کچھ دل مرحوم کی باتیں کرو اے اہل علم جس سے ویرانے تھے آباد اس دوانے کی کہو داستان زندگی بھی کس قدر دلچسپ ہے جو ازل سے چھڑ گیا ہے اس فسانے کی کہو یہ فسون نیم شب یہ خواب‌‌ ساماں خامشی سامری فن آنکھ کے جادو جگانے کی کہو کوئی کیا کھائے گا یوں سچی قسم جھوٹی قسم اس نگاہ ناز کی سوگندھ کھانے کی کہو شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزم سخن کچھ فراقؔ اپنی سناؤ کچھ زمانے کی کہو
Dagh Dehlvi
وہ زمانہ نظر نہیں آتا، داغ دہلوی غزلیں
وہ زمانہ نظر نہیں آتا کچھ ٹھکانا نظر نہیں آتا جان جاتی دکھائی دیتی ہے ان کا آنا نظر نہیں آتا عشق در پردہ پھونکتا ہے آگ یہ جلانا نظر نہیں آتا اک زمانہ مری نظر میں رہا اک زمانہ نظر نہیں آتا دل نے اس بزم میں بٹھا تو دیا اٹھ کے جانا نظر نہیں آتا رہیے مشتاق جلوۂ دیدار ہم نے مانا نظر نہیں آتا لے چلو مجھ کو راہروان عدم یاں ٹھکانا نظر نہیں آتا دل پہ بیٹھا کہاں سے تیر نگاہ یہ نشانہ نظر نہیں آتا تم ملاؤ گے خاک میں ہم کو دل ملانا نظر نہیں آتا آپ ہی دیکھتے ہیں ہم کو تو دل کا آنا نظر نہیں آتا دل پر آرزو لٹا اے داغؔ وہ خزانہ نظر نہیں آتا
Mirza Ghalib
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں، مرزا غالب غزلیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیمروز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں دشنۂ غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
Waseem Barelvi
وہ مجھ کو کیا بتانا چاہتا ہے وسیم بریلوی غزلیں
وہ مجھ کو کیا بتانا چاہتا ہے جو دنیا سے چھپانا چاہتا ہے مجھے دیکھو کہ میں اس کو ہی چاہوں جسے سارا زمانہ چاہتا ہے قلم کرنا کہاں ہے اس کا منشا وہ میرا سر جھکانا چاہتا ہے شکایت کا دھواں آنکھوں سے دل تک تعلق ٹوٹ جانا چاہتا ہے تقاضہ وقت کا کچھ بھی ہو یہ دل وہی قصہ پرانا چاہتا ہے
Dagh Dehlvi
دل پریشان ہوا جاتا ہے داغ دہلوی غزلیں
دل پریشان ہوا جاتا ہے اور سامان ہوا جاتا ہے خدمت پیر مغاں کر زاہد تو اب انسان ہوا جاتا ہے موت سے پہلے مجھے قتل کرو اس کا احسان ہوا جاتا ہے لذت عشق الٰہی مٹ جائے درد ارمان ہوا جاتا ہے دم ذرا لو کہ مرا دم تم پر ابھی قربان ہوا جاتا ہے گریہ کیا ضبط کروں اے ناصح اشک پیمان ہوا جاتا ہے بے وفائی سے بھی رفتہ رفتہ وہ مری جان ہوا جاتا ہے عرصۂ حشر میں وہ آ پہنچے صاف میدان ہوا جاتا ہے مدد اے ہمت دشوارپسند کام آسان ہوا جاتا ہے چھائی جاتی ہے یہ وحشت کیسی گھر بیابان ہوا جاتا ہے شکوہ سن آنکھ ملا کر ظالم کیوں پشیمان ہوا جاتا ہے آتش شوق بجھی جاتی ہے خاک ارمان ہوا جاتا ہے عذر جانے میں نہ کر اے قاصد تو بھی نادان ہوا جاتا ہے مضطرب کیوں نہ ہوں ارماں دل میں قید مہمان ہوا جاتا ہے داغؔ خاموش نہ لگ جائے نظر شعر دیوان ہوا جاتا ہے
Nida Fazli
مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں لاکھوں کی تقدیریں ہیں، ندا فاضلی غزلیں
مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں لاکھوں کی تقدیریں ہیں جدا جدا ہیں دھرم علاقے ایک سی لیکن زنجیریں ہیں آج اور کل کی بات نہیں ہے صدیوں کی تاریخ یہی ہے ہر آنگن میں خواب ہیں لیکن چند گھروں میں تعبیریں ہیں جب بھی کوئی تخت سجا ہے میرا تیرا خون بہا ہے درباروں کی شان و شوکت میدانوں کی شمشیریں ہیں ہر جنگل کی ایک کہانی وہ ہی بھینٹ وہی قربانی گونگی بہری ساری بھیڑیں چرواہوں کی جاگیریں ہیں
Mirza Ghalib
پھر اس انداز سے بہار آئی مرزا غالب غزلیں
پھر اس انداز سے بہار آئی کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی دیکھو اے ساکنان خطۂ خاک اس کو کہتے ہیں عالم آرائی کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر روکش سطح چرخ مینائی سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی بن گیا روئے آب پر کائی سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے چشم نرگس کو دی ہے بینائی ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ شاہ دیں دار نے شفا پائی
Mirza Ghalib
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیتوں جگر کو میں، مرزا غالب غزلیں
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ ترے رہگزر کو میں ہے کیا جو کس کے باندھئے میری بلا ڈرے کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں غالبؔ خدا کرے کہ سوار سمند ناز دیکھوں علی بہادر عالی گہر کو میں
Waseem Barelvi
آپ نے سائے کو اتنا سمجھانے دے، وسیم بریلوی غزلیں
اپنے سائے کو اتنا سمجھانے دے مجھ تک میرے حصے کی دھوپ آنے دے ایک نظر میں کئی زمانے دیکھے تو بوڑھی آنکھوں کی تصویر بنانے دے بابا دنیا جیت کے میں دکھلا دوں گا اپنی نظر سے دور تو مجھ کو جانے دے میں بھی تو اس باغ کا ایک پرندہ ہوں میری ہی آواز میں مجھ کو گانے دے پھر تو یہ اونچا ہی ہوتا جائے گا بچپن کے ہاتھوں میں چاند آ جانے دے فصلیں پک جائیں تو کھیت سے بچھڑیں گی روتی آنکھ کو پیار کہاں سمجھانے دے
Jaan Nisar Akhtar
ہم سے بھاگا نہ کرو دور ہرنوں کی طرح، جاں نثار اختر غزلیں
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح خودبخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی ہے مہکی مہکی ہے شب غم ترے بالوں کی طرح تیرے بن رات کے ہاتھوں پہ یہ تاروں کے ایاغ خوبصورت ہیں مگر زہر کے پیالوں کی طرح اور کیا اس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں دل کے زخموں کو چھوا ہے ترے گالوں کی طرح گنگناتے ہوئے اور آ کبھی ان سینوں میں تیری خاطر جو مہکتے ہیں شوالوں کی طرح تیری زلفیں تری آنکھیں ترے ابرو ترے لب اب بھی مشہور ہیں دنیا میں مثالوں کی طرح ہم سے مایوس نہ ہو اے شب دوراں کہ ابھی دل میں کچھ درد چمکتے ہیں اجالوں کی طرح مجھ سے نظریں تو ملاؤ کہ ہزاروں چہرے میری آنکھوں میں سلگتے ہیں سوالوں کی طرح اور تو مجھ کو ملا کیا مری محنت کا صلہ چند سکے ہیں مرے ہاتھ میں چھالوں کی طرح جستجو نے کسی منزل پہ ٹھہرنے نہ دیا ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح زندگی جس کو ترا پیار ملا وہ جانے ہم تو ناکام رہے چاہنے والوں کی طرح
Allama Iqbal
تجھے یاد کیا نہیں ہے میرے دل کا وہ زمانہ، علامہ اقبال غزلیں
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہ محبت وہ نگہ کا تازیانہ یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ نہ تراش آزرانہ نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ رگ تاک منتظر ہے تری بارش کرم کی کہ عجم کے مے کدوں میں نہ رہی مے مغانہ مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ