Poet
stringclasses
30 values
Poem_name
stringlengths
19
107
Poetry
stringlengths
68
2.22k
Jaun Eliya
حالات حال کے سبب حالات حال ہی گئی جون ایلیا غزلیں
حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی تیرا فراق جان جاں عیش تھا کیا مرے لیے یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے حالت دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی بعد بھی تیرے جان جاں دل میں رہا عجب سماں یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی اس کے بدن کو دی نمود ہم نے سخن میں اور پھر اس کے بدن کے واسطے ایک قبا بھی سی گئی مینا بہ مینا مے بہ مے جام بہ جام جم بہ جم ناف پیالے کی ترے یاد عجب سہی گئی کہنی ہے مجھ کو ایک بات آپ سے یعنی آپ سے آپ کے شہر وصل میں لذت ہجر بھی گئی صحن خیال یار میں کی نہ بسر شب فراق جب سے وہ چاندنا گیا جب سے وہ چاندنی گئی
Ahmad Faraz
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی احمد فراز غزلیں
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے تو نے کس گھڑی ظالم میری ہم نوائی کی ترک کر چکے قاصد کوئے نامراداں کو کون اب خبر لاوے شہر آشنائی کی طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد دیکھنا اڑا دے گا پھر خبر رہائی کی دکھ ہوا جب اس در پر کل فرازؔ کو دیکھا لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی
Ahmad Faraz
سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی احمد فراز غزلیں
سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا میں بھی خاموش رہا اس نے بھی پرسش نہیں کی جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی اے مرے ابر کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے مقتل شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
Waseem Barelvi
میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے وسیم بریلوی غزلیں
میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے وقت پڑنے پہ ہاتھوں سے جاتے رہے بارشیں آئیں اور فیصلہ کر گئیں لوگ ٹوٹی چھتیں آزماتے رہے آنکھیں منظر ہوئیں کان نغمہ ہوئے گھر کے انداز ہی گھر سے جاتے رہے شام آئی تو بچھڑے ہوئے ہم سفر آنسوؤں سے ان آنکھوں میں آتے رہے ننھے بچوں نے چھو بھی لیا چاند کو بوڑھے بابا کہانی سناتے رہے دور تک ہاتھ میں کوئی پتھر نہ تھا پھر بھی ہم جانے کیوں سر بچاتے رہے شاعری زہر تھی کیا کریں اے وسیمؔ لوگ پیتے رہے ہم پلاتے رہے
Jaun Eliya
آج لبِ گُہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا، جون ایلیا غزلیں
آج لب گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ تھے میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تو مرے بازوؤں میں ہے یعنی تجھے ابھی تلک میں نے رہا نہیں کیا تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا ہاں وہ نگاہ ناز بھی اب نہیں ماجرا طلب ہم نے بھی اب کی فصل میں شور بپا نہیں کیا
Jaun Eliya
ہم بڑا احسان فرما رہے ہیں جون ایلیا کی غزلیں
بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں کہ ان کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں نہیں ترک محبت پر وہ راضی قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں یقیں کا راستہ طے کرنے والے بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں یہ مت بھولو کہ یہ لمحات ہم کو بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں تمہیں چاہیں گے جب چھن جاؤ گی تم ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں یہ جذب عشق ہے یا جذبۂ رحم ترے آنسو مجھے رلوا رہے ہیں عجب کچھ ربط ہے تم سے کہ تم کو ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں
Mirza Ghalib
روخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع مرزا غالب غزلیں
رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع ہوئی ہے آتش گل آب زندگانی شمع زبان اہل زباں میں ہے مرگ خاموشی یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانی شمع کرے ہے صرف بہ ایماۓ شعلہ قصہ تمام بہ طرز اہل فنا ہے فسانہ خوانی شمع غم اس کو حسرت پروانہ کا ہے اے شعلے ترے لرزنے سے ظاہر ہے نا توانی شمع ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے بہ جلوہ ریزی باد و بہ پر فشانی شمع نشاط داغ غم عشق کی بہار نہ پوچھ شگفتگی ہے شہید گل خزانی شمع جلے ہے دیکھ کے بالین یار پر مجھ کو نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغ بد گمانی شمع
Faiz Ahmad Faiz
ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے، فیض احمد فیض غزلیں
ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے کس قدر ہوگا یہاں مہر و وفا کا ماتم ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار سخن ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں مر جائیں گے شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے فیضؔ آتے ہیں رہ عشق میں جو سخت مقام آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
Habib Jalib
کم پرانا بہت نیا تھا فراق حبیب جلیب غزلیں
کم پرانا بہت نیا تھا فراق اک عجب رمز آشنا تھا فراق دور وہ کب ہوا نگاہوں سے دھڑکنوں میں بسا ہوا ہے فراق شام غم کے سلگتے صحرا میں اک امنڈتی ہوئی گھٹا تھا فراق امن تھا پیار تھا محبت تھا رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق فاصلے نفرتوں کے مٹ جائیں پیار ہی پیار سوچتا تھا فراق ہم سے رنج و الم کے ماروں کو کس محبت سے دیکھتا تھا فراق عشق انسانیت سے تھا اس کو ہر تعصب سے ماورا تھا فراق
Mirza Ghalib
جب میں پینے کو دھوتا ہوں اس سیم تن کے پاؤں، مرزا غالب کی غزلیں۔
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں دی سادگی سے جان پڑوں کوہ کن کے پاؤں ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیرزن کے پاؤں بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور تن سے سوا فگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں ہے جوش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغ چمن کے پاؤں شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں دکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاؤں غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزا نہ ہو پیتا ہوں دھوکے خسرو شیریں سخن کے پاؤں
Sahir Ludhianvi
بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمگار سے ہم، ساحر لدھیانوی غزلیں
بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم
Waseem Barelvi
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ وسیم بریلوی غزلیں
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ تیرا خیال تیری طلب تیری آرزو میں عمر بھر چلا ہوں کسی روشنی کے ساتھ دنیا مرے خلاف کھڑی کیسے ہو گئی میری تو دشمنی بھی نہیں تھی کسی کے ساتھ کس کام کی رہی یہ دکھاوے کی زندگی وعدے کیے کسی سے گزاری کسی کے ساتھ دنیا کو بے وفائی کا الزام کون دے اپنی ہی نبھ سکی نہ بہت دن کسی کے ساتھ قطرے وہ کچھ بھی پائیں یہ ممکن نہیں وسیمؔ بڑھنا جو چاہتے ہیں سمندر کشی کے ساتھ
Nida Fazli
یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ، ندا فضلی غزلیں
یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ خدا کے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموں کو بدلتے وقت پہ کچھ اپنا اختیار بھی رکھ یہ ہی لہو ہے شہادت یہ ہی لہو پانی خزاں نصیب سہی ذہن میں بہار بھی رکھ گھروں کے طاقوں میں گلدستے یوں نہیں سجتے جہاں ہیں پھول وہیں آس پاس خار بھی رکھ پہاڑ گونجیں ندی گائے یہ ضروری ہے سفر کہیں کا ہو دل میں کسی کا پیار بھی رکھ
Firaq GorakhPuri
سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں، فراق گورکھپوری غزلیں
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں
Bahadur Shah Zafar
وان رسائی نہیں تو پھر کیا ہے بہادر شاہ ظفر غزلیں
واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے یہ جدائی نہیں تو پھر کیا ہے ہو ملاقات تو صفائی سے اور صفائی نہیں تو پھر کیا ہے دل ربا کو ہے دل ربائی شرط دل ربائی نہیں تو پھر کیا ہے گلہ ہوتا ہے آشنائی میں آشنائی نہیں تو پھر کیا ہے اللہ اللہ رے ان بتوں کا غرور یہ خدائی نہیں تو پھر کیا ہے موت آئی تو ٹل نہیں سکتی اور آئی نہیں تو پھر کیا ہے مگس قاب اغنیا ہونا ہے بے حیائی نہیں تو پھر کیا ہے بوسۂ لب دل شکستہ کو مومیائی نہیں تو پھر کیا ہے نہیں رونے میں گر ظفرؔ تاثیر جگ ہنسائی نہیں تو پھر کیا ہے
Javed Akhtar
خلا ہے در پہ تیرا انتظار جاتا رہا، جاوید اختر غزلیں
کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا کسی کی آنکھ میں مستی تو آج بھی ہے وہی مگر کبھی جو ہمیں تھا خمار جاتا رہا کبھی جو سینے میں اک آگ تھی وہ سرد ہوئی کبھی نگاہ میں جو تھا شرار جاتا رہا عجب سا چین تھا ہم کو کہ جب تھے ہم بے چین قرار آیا تو جیسے قرار جاتا رہا کبھی تو میری بھی سنوائی ہوگی محفل میں میں یہ امید لیے بار بار جاتا رہا
Nida Fazli
کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی، چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی۔ ندا فاضلی غزلیں۔
کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی جس سے جب تک ملے دل ہی سے ملے دل جو بدلا تو فسانہ بدلا رسم دنیا کو نبھانے کے لیے ہم سے رشتوں کی تجارت نہ ہوئی دور سے تھا وہ کئی چہروں میں پاس سے کوئی بھی ویسا نہ لگا بے وفائی بھی اسی کا تھا چلن پھر کسی سے یہ شکایت نہ ہوئی چھوڑ کر گھر کو کہیں جانے سے گھر میں رہنے کی عبادت تھی بڑی جھوٹ مشہور ہوا راجا کا سچ کی سنسار میں شہرت نہ ہوئی وقت روٹھا رہا بچے کی طرح راہ میں کوئی کھلونا نہ ملا دوستی کی تو نبھائی نہ گئی دشمنی میں بھی عداوت نہ ہوئی
Sahir Ludhianvi
میری تقدیر میں جلنا ہے تو جل جاؤں گا، ساحر لدھیانوی غزلیں
میری تقدیر میں جلنا ہے تو جل جاؤں گا تیرا وعدہ تو نہیں ہوں جو بدل جاؤں گا سوز بھر دو مرے سپنے میں غم الفت کا میں کوئی موم نہیں ہوں جو پگھل جاؤں گا درد کہتا ہے یہ گھبرا کے شب فرقت میں آہ بن کر ترے پہلو سے نکل جاؤں گا مجھ کو سمجھاؤ نہ ساحرؔ میں اک دن خود ہی ٹھوکریں کھا کے محبت میں سنبھل جاؤں گا
Waseem Barelvi
میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا وسیم بریلوی غزلیں
میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا ڈھلے گا دن تو ہر اک اپنا راستہ لے گا میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاؤں گا کوئی چراغ نہیں ہوں کہ پھر جلا لے گا کلیجہ چاہئے دشمن سے دشمنی کے لئے جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لے گا میں اس کا ہو نہیں سکتا بتا نہ دینا اسے لکیریں ہاتھ کی اپنی وہ سب جلا لے گا ہزار توڑ کے آ جاؤں اس سے رشتہ وسیمؔ میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا بلا لے گا
Noon Meem Rashid
تیرے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا نون میم راشد غزلیں
ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملا حیات شوق کی یہ گرمیاں کہاں ہوتیں خدا کا شکر ہمیں نالۂ رسا نہ ملا ازل سے فطرت آزاد ہی تھی آوارہ یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا یہ کائنات کسی کا غبار راہ سہی دلیل راہ جو بنتا وہ نقش پا نہ ملا یہ دل شہید فریب نگاہ ہو نہ سکا وہ لاکھ ہم سے بہ انداز محرمانہ ملا کنار موج میں مرنا تو ہم کو آتا ہے نشان ساحل الفت ملا ملا نہ ملا تری تلاش ہی تھی مایۂ بقائے وجود بلا سے ہم کو سر منزل بقا نہ ملا
Meer Taqi Meer
جو اس شور سے میر روتا رہے گا میر تقی میر غزلیں
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں جسے ابر ہر سال روتا رہے گا مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا تو یوں گالیاں غیر کو شوق سے دے ہمیں کچھ کہے گا تو ہوتا رہے گا بس اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا
Parveen Shakir
اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا پروین شاکر غزلیں
اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا
Noon Meem Rashid
تو آشنائے جذبہء عشق نہیں رہا، نون میم راشد کی غزلیں
تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے تو ہی حریف ذوق سماعت نہیں رہا آئیں کہاں سے آنکھ میں آتش چکانیاں دل آشنائے سوز محبت نہیں رہا گل ہائے حسن یار میں دامن کش نظر میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا شاید جنوں ہے مائل فرزانگی مرا میں وہ نہیں وہ عالم وحشت نہیں رہا ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگ ناگہاں میں اب اسیر گردش قسمت نہیں رہا جلوہ گہہ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج لو میں رہین زحمت خلوت نہیں رہا کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا
Sahir Ludhianvi
عقائد وہم ہیں، مذہب خیالِ خام ہے، ساقی ساحر لدھیانوی غزلیں
عقائد وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی ازل سے ذہن انساں بستۂ اوہام ہے ساقی حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے عروس آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی مبارک ہو ضعیفی کو خرد کی فلسفہ رانی جوانی بے نیاز عبرت انجام ہے ساقی ہوس ہوگی اسیر حلقۂ نیک و بد عالم محبت ماورائے فکر ننگ و نام ہے ساقی ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے مرا ذوق طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی وہاں بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردۂ شب کو جہاں ہر صبح کے دامن پہ عکس شام ہے ساقی مرے ساغر میں مے ہے اور ترے ہاتھوں میں بربط ہے وطن کی سر زمیں میں بھوک سے کہرام ہے ساقی زمانہ برسر پیکار ہے پر ہول شعلوں سے ترے لب پر ابھی تک نغمہ خیام ہے ساقی
Firaq GorakhPuri
ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں فراق گورکھپوری غزلیں
ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں حدیں حسن و محبت کی ملا کر قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں حد‌‌ جور‌ و کرم سے بڑھ چلا حسن نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں محبت اب محبت ہو چلی ہے تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں
Bahadur Shah Zafar
ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں بہادر شاہ ظفر غزلیں
ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں خون دل پینے سے جو کچھ ہے حلاوت ہم کو یہ مزا اور کسی کو نہیں مے پینے میں دل کو کس شکل سے اپنے نہ مصفا رکھوں جلوہ گر یار کی صورت ہے اس آئینے میں اشک و لخت جگر آنکھوں میں نہیں ہیں میرے ہیں بھرے لال و گہر عشق کے گنجینے میں شکل آئینہ ظفرؔ سے تو نہ رکھ دل میں خیال کچھ مزا بھی ہے بھلا جان مری لینے میں
Javed Akhtar
دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ، جاوید اختر غزلیں
دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ جیون جیون ہم نے جگ میں کھیل یہی ہوتے دیکھا دھیرے دھیرے جیتی دنیا دھیرے دھیرے ہارے لوگ وقت سنگھاسن پر بیٹھا ہے اپنے راگ سناتا ہے سنگت دینے کو پاتے ہیں سانسوں کے اکتارے لوگ نیکی اک دن کام آتی ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو ہم نے بے بس مرتے دیکھے کیسے پیارے پیارے لوگ اس نگری میں کیوں ملتی ہے روٹی سپنوں کے بدلے جن کی نگری ہے وہ جانیں ہم ٹھہرے بنجارے لوگ
Mirza Ghalib
شب کی وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا، مرزا غالب غزلیں
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا رشتۂ ہر شمع خار کسوت فانوس تھا مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا کس قدر یارب ہلاک حسرت پا بوس تھا حاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزو دل بہ دل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا کیا کہوں بیماریٔ غم کی فراغت کا بیاں جو کہ کھایا خون دل بے منت کیموس تھا بت پرستی ہے بہار نقش بند یہائے دہر ہر صریر خامہ میں یک نالۂ ناقوس تھا طبع کی واشد نے رنگ یک گلستاں گل کیا یہ دل وابستہ گویا بیضۂ طاؤس تھا کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں دست برسر سر بزانوئے دل مایوس تھا
Kaifi Azmi
کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ کیفی اعظمی غزلیں
کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ منزل سے وہ بھی دور تھا اور ہم بھی دور تھے ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہ نما کے ساتھ رقص صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے اے کاش تم بھی آ گئے ہوتے صبا کے ساتھ اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آواز پا کے ساتھ ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ
Meer Taqi Meer
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا میر تقی میر غزلیں
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا سعی و تلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی صحبت میں علما فضلا کی جا کر پڑھیے گنیے گا دل کی تسلی جب کہ ہوگی گفت و شنود سے لوگوں کی آگ پھنکے گی غم کی بدن میں اس میں جلیے بھنیے گا گرم اشعار میرؔ درونہ داغوں سے یہ بھر دیں گے زرد رو شہر میں پھریے گا گلیوں میں نے گل چنیے گا
Jaan Nisar Akhtar
حوصلہ کھو نہ دیا تیری نہیں سے ہم نے، جاں نثار اختر غزلیں
حوصلہ کھو نہ دیا تیری نہیں سے ہم نے کتنی شکنوں کو چنا تیری جبیں سے ہم نے وہ بھی کیا دن تھے کہ دیوانہ بنے پھرتے تھے سن لیا تھا ترے بارے میں کہیں سے ہم نے جس جگہ پہلے پہل نام ترا آتا ہے داستاں اپنی سنائی ہے وہیں سے ہم نے یوں تو احسان حسینوں کے اٹھائے ہیں بہت پیار لیکن جو کیا ہے تو تمہیں سے ہم نے کچھ سمجھ کر ہی خدا تجھ کو کہا ہے ورنہ کون سی بات کہی اتنے یقیں سے ہم نے
Parveen Shakir
آپنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں پروین شاکر غزلیں
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
Meer Taqi Meer
چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے، میر تقی میر غزلیں۔
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں آگے ہو مے خانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گزاراں ہے دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے کوہ کن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے
Mirza Ghalib
اسد ہم وہ جنون جولاں گدا بے سر و پا ہیں، مرزا غالب غزلیں۔
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا
Allama Iqbal
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں، علامہ اقبال غزلیں
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
Meer Taqi Meer
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق میر تقی میر غزلیں
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق عشق معشوق عشق عاشق ہے یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق گر پرستش خدا کی ثابت کی کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق دل کش ایسا کہاں ہے دشمن جاں مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق ہے ہمارے بھی طور کا عاشق جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق کوئی خواہاں نہیں محبت کا تو کہے جنس ناروا ہے عشق میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق
Faiz Ahmad Faiz
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں، فیض احمد فیض کی غزلیں۔
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
Waseem Barelvi
تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے وسیم بریلوی غزلیں
تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے اسی لئے تو تمہیں ہم نظر نہیں آتے محبتوں کے دنوں کی یہی خرابی ہے یہ روٹھ جائیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے جنہیں سلیقہ ہے تہذیب غم سمجھنے کا انہیں کے رونے میں آنسو نظر نہیں آتے خوشی کی آنکھ میں آنسو کی بھی جگہ رکھنا برے زمانے کبھی پوچھ کر نہیں آتے بساط عشق پہ بڑھنا کسے نہیں آتا یہ اور بات کہ بچنے کے گھر نہیں آتے وسیمؔ ذہن بناتے ہیں تو وہی اخبار جو لے کے ایک بھی اچھی خبر نہیں آتے
Sahir Ludhianvi
پہاڑوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں
پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے کیوں نہ جذب ہو جائیں اس حسیں نظارے میں روشنی کا جھرمٹ ہے مستیوں کا گھیرا ہے
Mirza Ghalib
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا، مرزا غالب غزلیں
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
Jaan Nisar Akhtar
بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے جاں نثار اختر غزلیں
بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے چمن مانگا تھا پر اس نے بمشکل اک کلی دی ہے مرے خلوت کدے کے رات دن یوں ہی نہیں سنورے کسی نے دھوپ بخشی ہے کسی نے چاندنی دی ہے نظر کو سبز میدانوں نے کیا کیا وسعتیں بخشیں پگھلتے آبشاروں نے ہمیں دریا دلی دی ہے محبت ناروا تقسیم کی قائل نہیں پھر بھی مری آنکھوں کو آنسو تیرے ہونٹوں کو ہنسی دی ہے مری آوارگی بھی اک کرشمہ ہے زمانے میں ہر اک درویش نے مجھ کو دعائے خیر ہی دی ہے کہاں ممکن تھا کوئی کام ہم جیسے دوانوں سے تمہیں نے گیت لکھوائے تمہیں نے شاعری دی ہے
Wali Mohammad Wali
جب صنم کوں خیالِ باغ ہوا، ولی محمد ولی غزلیں
جب صنم کوں خیال باغ ہوا طالب نشۂ فراغ ہوا فوج عشاق دیکھ ہر جانب نازنیں صاحب دماغ ہوا رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر جگر لالہ داغ داغ ہوا دل عشاق کیوں نہ ہو روشن جب خیال صنم چراغ ہوا اے ولیؔ گل بدن کوں باغ میں دیکھ دل صد چاک باغ باغ ہوا
Nazm Tabatabai
احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر نظم طبع تابعی غزلیں
احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر رستہ بھی چل تو سبزۂ بیگانہ چھوڑ کر مرنے کے بعد پھر نہیں کوئی شریک حال جاتا ہے شمع کشتہ کو پروانہ چھوڑ کر ہونٹوں پہ آج تک ہیں شب عیش کے مزے ساقی کا لب لیا لب پیمانہ چھوڑ کر افعی نہیں کھلی ہوئی زلفوں کا عکس ہے جاتے کہاں ہو آئینہ و شانہ چھوڑ کر طول امل پہ دل نہ لگانا کہ اہل بزم جائیں گے ناتمام یہ افسانہ چھوڑ کر لبریز جام عمر ہوا آ گئی اجل لو اٹھ گئے بھرا ہوا پیمانہ چھوڑ کر اس پیر زال دہر کی ہم ٹھوکروں میں ہیں جب سے گئی ہے ہمت مردانہ چھوڑ کر پہروں ہمارا آپ میں آنا محال ہے کوسوں نکل گیا دل دیوانہ چھوڑ کر اترا جو شیشہ طاق سے زاہد کا ہے یہ حال کرتا ہے رقص سجدۂ شکرانہ چھوڑ کر یہ سمعۂ و ریا تو نشانی ہے کفر کی زنار باندھ سبحۂ صد دانہ چھوڑ کر رندان مے کدہ بھی ہیں اے خضر منتظر بستی میں آئیے کبھی ویرانہ چھوڑ کر احسان سر پہ لغزش مستانہ کا ہوا ہم دو قدم نہ جا سکے مے خانہ چھوڑ کر وادی بہت مہیب ہے بیم و امید کا دیکھیں گے شیر پر دل دیوانہ چھوڑ کر رو رو کے کر رہی ہے صراحی وداع اسے جاتا ہے دور دور جو پیمانہ چھوڑ کر توبہ تو کی ہے نظمؔ بنا ہوگی کس طرح کیوں کر جیو گے مشرب رندانہ چھوڑ کر
Nazm Tabatabai
اس واسطے آدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں نظم طباعی غزلیں
اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں مدت سے دوستوں کی محفل کو ڈھونڈتے ہیں یہ دل کے پار ہو کر پھر دل کو ڈھونڈتے ہیں تیر نگاہ اس کے بسمل کو ڈھونڈتے ہیں اک لہر میں نہ تھے ہم کیوں اے حباب دیکھا یوں آنکھ بند کر کے ساحل کو ڈھونڈتے ہیں طرز کرم کی شاہد ہیں میوہ دار شاخیں اس طرح سر جھکا کر سائل کو ڈھونڈتے ہیں ہے وصل و ہجر اپنا اے قیس طرفہ مضموں محمل میں بیٹھے ہیں اور محمل کو ڈھونڈتے ہیں طول امل کا رستہ ممکن نہیں کہ طے ہو منزل پہ بھی پہنچ کر منزل کو ڈھونڈتے ہیں حسرت شباب کی ہے ایام شیب میں بھی معدوم کی ہوس ہے زائل کو ڈھونڈتے ہیں اٹھتے ہیں ولولے کچھ ہر بار درد بن کر کیا جانیے جگر کو یا دل کو ڈھونڈتے ہیں زخم جگر کا میرے ہے رشک دوستوں کو مرتا ہوں میں کہ یہ کیوں قاتل کو ڈھونڈتے ہیں اہل ہوس کی کشتی یک بام و دو ہوا ہے دریائے عشق میں بھی ساحل کو ڈھونڈتے ہیں آیا جو رحم مجھ پر اس میں بھی چال ہے کچھ سینہ پہ ہاتھ رکھ کر اب دل کو ڈھونڈتے ہیں کرتے ہیں کار فرہاد آساں زمین میں بھی مشکل پسند ہیں ہم مشکل کو ڈھونڈتے ہیں اے خضر پئے خجستہ بہر خدا کرم کر بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں دل خواہ تیرے عشوے دل جو ترے اشارے وہ دل ٹٹولتے ہیں یہ دل کو ڈھونڈتے ہیں اے نظمؔ کیا بتائیں حج و طواف اپنا کعبے میں بھی کسی کی محمل کو ڈھونڈتے ہیں
Bahadur Shah Zafar
محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو بہادر شاہ ظفر غزلیں
محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو خوشی ہو اس میں یا ہو غم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو غنیمت تم اسے سمجھو کہ اس خم خانہ میں یارو نصیب اک دم دل خرم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو دلاؤ حضرت دل تم نہ یاد خط سبز اس کا کہیں ایسا نہ ہو یہ سم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو ہمیشہ چاہتا ہے دل کہ مل کر کیجے مے نوشی میسر جام مے جم جم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو رہے حرص و ہوا دائم عزیزو ساتھ جب اپنے نہ کیونکر فکر بیش و کم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو ظفرؔ سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں جو غم سے فرصت اب اک دم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
Javed Akhtar
میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے، جاوید اختر غزلیں۔
میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے جس کا جواب چاہئے وہ کیا سوال ہے گھر سے چلا تو دل کے سوا پاس کچھ نہ تھا کیا مجھ سے کھو گیا ہے مجھے کیا ملال ہے آسودگی سے دل کے سبھی داغ دھل گئے لیکن وہ کیسے جائے جو شیشے میں بال ہے بے دست و پا ہوں آج تو الزام کس کو دوں کل میں نے ہی بنا تھا یہ میرا ہی جال ہے پھر کوئی خواب دیکھوں کوئی آرزو کروں اب اے دل تباہ ترا کیا خیال ہے
Akbar Allahabadi
آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے، اکبر الہ آبادی غزلیں
آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے خاطر سے تری یاد کو ٹلنے نہیں دیتے سچ ہے کہ ہمیں دل کو سنبھلنے نہیں دیتے کس ناز سے کہتے ہیں وہ جھنجھلا کے شب وصل تم تو ہمیں کروٹ بھی بدلنے نہیں دیتے پروانوں نے فانوس کو دیکھا تو یہ بولے کیوں ہم کو جلاتے ہو کہ جلنے نہیں دیتے حیران ہوں کس طرح کروں عرض تمنا دشمن کو تو پہلو سے وہ ٹلنے نہیں دیتے دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے گرمئ محبت میں وہ ہیں آہ سے مانع پنکھا نفس سرد کا جھلنے نہیں دیتے
Jaun Eliya
نیا ایک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم، جون ایلیا غزلیں
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم خموشی سے ادا ہو رسم دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم وفا اخلاص قربانی محبت اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم
Waseem Barelvi
حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں وسیم بریلوی غزلیں
حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں تم نے میرے گھر نہ آنے کی قسم کھائی تو ہے آنسوؤں سے بھی کہو آنکھوں میں آنا چھوڑ دیں پیار کے دشمن کبھی تو پیار سے کہہ کے تو دیکھ ایک تیرا در ہی کیا ہم تو زمانہ چھوڑ دیں گھونسلے ویران ہیں اب وہ پرندے ہی کہاں اک بسیرے کے لئے جو آب و دانہ چھوڑ دیں
Jigar Moradabadi
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں، جگر مرادآبادی غزلیں
محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آ رہے ہیں وہ از خود ہی نادم ہوئے جا رہے ہیں خدا جانے کیا کیا خیال آ رہے ہیں ہمارے ہی دل سے مزے ان کے پوچھو وہ دھوکے جو دانستہ ہم کھا رہے ہیں جفا کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے وفا کر کے بھی ہم تو شرما رہے ہیں وہ عالم ہے اب یارو اغیار کیسے ہمیں اپنے دشمن ہوئے جا رہے ہیں مزاج گرامی کی ہو خیر یارب کئی دن سے اکثر وہ یاد آ رہے ہیں
Mirza Ghalib
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو مرزا غالب غزلیں۔
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے عارض گل دیکھ روئے یار یاد آیا اسدؔ جوشش فصل بہاری اشتیاق انگیز ہے
Allama Iqbal
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر علامہ اقبال غزلیں
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو میں ہوں خذف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
Jaan Nisar Akhtar
مانا کہ رنگ رنگ تیرا پیرہن بھی ہے، جاں نثار اختر غزلیں
مانا کہ رنگ رنگ ترا پیرہن بھی ہے پر اس میں کچھ کرشمہ عکس بدن بھی ہے عقل معاش و حکمت دنیا کے باوجود ہم کو عزیز عشق کا دیوانہ پن بھی ہے مطرب بھی تو ندیم بھی تو ساقیا بھی تو تو جان انجمن ہی نہیں انجمن بھی ہے بازو چھوا جو تو نے تو اس دن کھلا یہ راز تو صرف رنگ و بو ہی نہیں ہے بدن بھی ہے یہ دور کس طرح سے کٹے گا پہاڑ سا یارو بتاؤ ہم میں کوئی کوہ کن بھی ہے
Firaq GorakhPuri
آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں فراق گورکھپوری غزلیں
آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں راہ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں دل کے افق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں اے نرگس سیاہ بتا دے ترے نثار کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں نیرنگ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں فرق آ گیا تھا دور حیات و ممات میں آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں جیسے فنا بقا میں بھی کوئی کمی سی ہو مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی تیرے لئے اٹھائی ندامت کہاں کہاں اب امتیاز عشق و ہوس بھی نہیں رہا ہوتی ہے تیری چشم عنایت کہاں کہاں ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی اس راہ میں کھلے در رحمت کہاں کہاں ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں
Mohsin Naqvi
کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا، میں اکیلا، محسن نقوی غزلیں
کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا میں اکیلا بھرا اب بھی مرے گاؤں کا میلہ میں اکیلا بچھڑ کر تجھ سے میں شب بھر نہ سویا کون رویا بجز میرے یہ دکھ بھی کس نے جھیلا میں اکیلا یہ بے آواز بنجر بن کے باسی یہ اداسی یہ دہشت کا سفر جنگل یہ بیلہ میں اکیلا میں دیکھوں کب تلک منظر سہانے سب پرانے وہی دنیا وہی دل کا جھمیلا میں اکیلا وہ جس کے خوف سے صحرا سدھارے لوگ سارے گزرنے کو ہے طوفاں کا وہ ریلا میں اکیلا
Waseem Barelvi
وہ میرے گھر نہیں آتا، میں اس کے گھر نہیں جاتا، وسیم بریلوی غزلیں
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر نہیں جاتا گھروں کی تربیت کیا آ گئی ٹی وی کے ہاتھوں میں کوئی بچہ اب اپنے باپ کے اوپر نہیں جاتا کھلے تھے شہر میں سو در مگر اک حد کے اندر ہی کہاں جاتا اگر میں لوٹ کے پھر گھر نہیں جاتا محبت کے یہ آنسو ہیں انہیں آنکھوں میں رہنے دو شریفوں کے گھروں کا مسئلہ باہر نہیں جاتا وسیمؔ اس سے کہو دنیا بہت محدود ہے میری کسی در کا جو ہو جائے وہ پھر در در نہیں جاتا
Jaan Nisar Akhtar
جسم کی ہر بات ہے آوارگی، یہ مت کہو جان نثار اختر غزلیں
جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو ہم بھی کر سکتے ہیں ایسی شاعری یہ مت کہو اس نظر کی اس بدن کی گنگناہٹ تو سنو ایک سی ہوتی ہے ہر اک راگنی یہ مت کہو ہم سے دیوانوں کے بن دنیا سنورتی کس طرح عقل کے آگے ہے کیا دیوانگی یہ مت کہو کٹ سکی ہیں آج تک سونے کی زنجیریں کہاں ہم بھی اب آزاد ہیں یارو ابھی یہ مت کہو پاؤں اتنے تیز ہیں اٹھتے نظر آتے نہیں آج تھک کر رہ گیا ہے آدمی یہ مت کہو جتنے وعدے کل تھے اتنے آج بھی موجود ہیں ان کے وعدوں میں ہوئی ہے کچھ کمی یہ مت کہو دل میں اپنے درد کی چھٹکی ہوئی ہے چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تیرگی یہ مت کہو
Mohsin Naqvi
ہم جو پہنچے سرِ مقتل تو یہ منظر دیکھا، محسن نقوی غزلیں
ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا سب سے اونچا تھا جو سر نوک سناں پر دیکھا ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آ کر دیکھا ایسے لپٹے ہیں در و بام سے اب کے جیسے حادثوں نے بڑی مدت میں مرا گھر دیکھا اب یہ سوچا ہے کہ اوروں کا کہا مانیں گے اپنی آنکھوں پہ بھروسا تو بہت کر دیکھا ایک اک پل میں اترتا رہا صدیوں کا عذاب ہجر کی رات گزاری ہے کہ محشر دیکھا مجھ سے مت پوچھ مری تشنہ لبی کے تیور ریت چمکی تو یہ سمجھو کہ سمندر دیکھا دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا
Altaf Hussain Hali
خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم الطاف حسین حالی غزلیں
خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم پر ہر اک خوبی میں داغ اک عیب کا پاتے ہیں ہم خوف کا کوئی نشاں ظاہر نہیں افعال میں گو کہ دل میں متصل خوف خدا پاتے ہیں ہم کرتے ہیں طاعت تو کچھ خواہاں نمائش کے نہیں پر گنہ چھپ چھپ کے کرنے میں مزا پاتے ہیں ہم دیدہ و دل کو خیانت سے نہیں رکھ سکتے باز گرچہ دست و پا کو اکثر بے خطا پاتے ہیں ہم دل میں درد عشق نے مدت سے کر رکھا ہے گھر پر اسے آلودۂ حرص و ہوا پاتے ہیں ہم ہو کے نادم جرم سے پھر جرم کرتے ہیں وہی جرم سے گو آپ کو نادم سدا پاتے ہیں ہم ہیں فدا ان دوستوں پر جن میں ہو صدق و صفا پر بہت کم آپ میں صدق و صفا پاتے ہیں ہم گو کسی کو آپ سے ہونے نہیں دیتے خفا اک جہاں سے آپ کو لیکن خفا پاتے ہیں ہم جانتے اپنے سوا سب کو ہیں بے مہر و وفا اپنے میں گر شمۂ مہر و وفا پاتے ہیں ہم بخل سے منسوب کرتے ہیں زمانہ کو سدا گر کبھی توفیق ایثار و عطا پاتے ہیں ہم ہو اگر مقصد میں ناکامی تو کر سکتے ہیں صبر درد خودکامی کو لیکن بے دوا پاتے ہیں ہم ٹھہرتے جاتے ہیں جتنے چشم عالم میں بھلے حال نفس دوں کا اتنا ہی برا پاتے ہیں ہم جس قدر جھک جھک کے ملتے ہیں بزرگ و خورد سے کبر و ناز اتنا ہی اپنے میں سوا پاتے ہیں ہم گو بھلائی کرکے ہم جنسوں سے خوش ہوتا ہے جی تہہ نشیں اس میں مگر درد ریا پاتے ہیں ہم ہے ردائے نیک نامی دوش پر اپنے مگر داغ رسوائی کے کچھ زیر ردا پاتے ہیں ہم راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم نور کے ہم نے گلے دیکھے ہیں اے حالیؔ مگر رنگ کچھ تیری الاپوں میں نیا پاتے ہیں ہم
Javed Akhtar
پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی جاوید اختر غزلیں
پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی نہیں دریا تو ہو سراب کوئی زخم دل میں جہاں مہکتا ہے اسی کیاری میں تھا گلاب کوئی رات بجتی تھی دور شہنائی رویا پی کر بہت شراب کوئی دل کو گھیرے ہیں روزگار کے غم ردی میں کھو گئی کتاب کوئی کون سا زخم کس نے بخشا ہے اس کا رکھے کہاں حساب کوئی پھر میں سننے لگا ہوں اس دل کی آنے والا ہے پھر عذاب کوئی شب کی دہلیز پر شفق ہے لہو پھر ہوا قتل آفتاب کوئی
Mirza Ghalib
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے، مرزا غالب غزلیں
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے مرتے ہیں ولے ان کی تمنا نہیں کرتے در پردہ انہیں غیر سے ہے ربط نہانی ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردا نہیں کرتے یہ باعث نومیدی ارباب ہوس ہے غالبؔ کو برا کہتے ہیں اچھا نہیں کرتے
Gulzar
کہیں تو گرد اُڑے یا کہیں گبار دکھے، گلزار غزلیں
کہیں تو گرد اڑے یا کہیں غبار دکھے کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دکھے خفا تھی شاخ سے شاید کہ جب ہوا گزری زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دکھے رواں ہیں پھر بھی رکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے بڑے اداس لگے جب بھی آبشار دکھے کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے کوئی طلسمی صفت تھی جو اس ہجوم میں وہ ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دکھے
Allama Iqbal
عقل گو آستان سے دور نہیں علامہ اقبال غزلیں
عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں ایک بھی صاحب سرور نہیں اک جنوں ہے کہ با شعور بھی ہے اک جنوں ہے کہ با شعور نہیں ناصبوری ہے زندگی دل کی آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں بے حضوری ہے تیری موت کا راز زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا تو ہی آمادۂ ظہور نہیں ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر یہ حدیث کلیم و طور نہیں
Waseem Barelvi
کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو وسیم بریلوی غزلیں
کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو وہ اعتبار دلائے اور اعتبار نہ ہو ہوا خلاف ہو موجوں پہ اختیار نہ ہو یہ کیسی ضد ہے کہ دریا کسی سے پار نہ ہو میں گاؤں لوٹ رہا ہوں بہت دنوں کے بعد خدا کرے کہ اسے میرا انتظار نہ ہو ذرا سی بات پہ گھٹ گھٹ کے صبح کر دینا مری طرح بھی کوئی میرا غم گسار نہ ہو دکھی سماج میں آنسو بھرے زمانے میں اسے یہ کون بتائے کہ اشک بار نہ ہو گناہ گاروں پہ انگلی اٹھائے دیتے ہو وسیمؔ آج کہیں تم بھی سنگسار نہ ہو
Javed Akhtar
یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب جاوید اختر غزلیں
یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب میں اکیلا ہی نہیں برباد سب سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب سب کو دعوائے وفا سب کو یقیں اس اداکاری میں ہیں استاد سب شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے قید میں کہلائیں گے آزاد سب چار لفظوں میں کہو جو بھی کہو اس کو کب فرصت سنے فریاد سب تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں ہم پہ جو گزری ہمیں ہے یاد سب
Ameer Khusrau
ذہ حالِ مسکین مکن تغافل، دورائے نیناں بنائے بتیاں، امیر خسرو غزلیں
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ سپیت من کے دورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
Jigar Moradabadi
عشق کو بے نقاب ہونا تھا جگر مرادآبادی غزلیں
عشق کو بے نقاب ہونا تھا آپ اپنا جواب ہونا تھا مست جام شراب ہونا تھا بے خود اضطراب ہونا تھا تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے ہو چکا جو عتاب ہونا تھا کوچۂ عشق میں نکل آیا جس کو خانہ خراب ہونا تھا مست جام شراب خاک ہوتے غرق جام شراب ہونا تھا دل کہ جس پر ہیں نقش رنگارنگ اس کو سادہ کتاب ہونا تھا ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا آخرش کامیاب ہونا تھا ہائے وہ لمحۂ سکوں کہ جسے محشر اضطراب ہونا تھا نگۂ یار خود تڑپ اٹھتی شرط اول خراب ہونا تھا کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں کرم بے حساب ہونا تھا کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی موج صد اضطراب ہونا تھا ہو چکا روز اولیں ہی جگرؔ جس کو جتنا خراب ہونا تھا
Dagh Dehlvi
لے چلا جان میری روٹھ کے جانا تیرا داغ دہلوی غزلیں
لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا اپنے دل کو بھی بتاؤں نہ ٹھکانا تیرا سب نے جانا جو پتا ایک نے جانا تیرا تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا آرزو ہی نہ رہی صبح وطن کی مجھ کو شام غربت ہے عجب وقت سہانا تیرا یہ سمجھ کر تجھے اے موت لگا رکھا ہے کام آتا ہے برے وقت میں آنا تیرا اے دل شیفتہ میں آگ لگانے والے رنگ لایا ہے یہ لاکھے کا جمانا تیرا تو خدا تو نہیں اے ناصح ناداں میرا کیا خطا کی جو کہا میں نے نہ مانا تیرا رنج کیا وصل عدو کا جو تعلق ہی نہیں مجھ کو واللہ ہنساتا ہے رلانا تیرا کعبہ و دیر میں یا چشم و دل عاشق میں انہیں دو چار گھروں میں ہے ٹھکانا تیرا ترک عادت سے مجھے نیند نہیں آنے کی کہیں نیچا نہ ہو اے گور سرہانا تیرا میں جو کہتا ہوں اٹھائے ہیں بہت رنج فراق وہ یہ کہتے ہیں بڑا دل ہے توانا تیرا بزم دشمن سے تجھے کون اٹھا سکتا ہے اک قیامت کا اٹھانا ہے اٹھانا تیرا اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا یوں تو کیا آئے گا تو فرط نزاکت سے یہاں سخت دشوار ہے دھوکے میں بھی آنا تیرا داغؔ کو یوں وہ مٹاتے ہیں یہ فرماتے ہیں تو بدل ڈال ہوا نام پرانا تیرا
Sahir Ludhianvi
اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں
اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے روح گنگا کی ہمالہ کا بدن آزاد ہے کھیتیاں سونا اگائیں وادیاں موتی لٹائیں آج گوتم کی زمیں تلسی کا بن آزاد ہے مندروں میں سنکھ باجے مسجدوں میں ہو اذاں شیخ کا دھرم اور دین برہمن آزاد ہے لوٹ کیسی بھی ہو اب اس دیش میں رہنے نہ پائے آج سب کے واسطے دھرتی کا دھن آزاد ہے
Mohsin Naqvi
ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں، محسن نقوی غزلیں
ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں یہ دشت شب میں ستاروں کی ہم سفر آنکھیں ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لئے میں شہر بھر میں اکیلا ادھر ادھر آنکھیں شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں میں زخم زخم ہوا جب تو مجھ پہ بھید کھلا کہ پتھروں کو سمجھتی رہیں گہر آنکھیں میں اپنے اشک سنبھالوں گا کب تلک محسنؔ زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں
Akbar Allahabadi
رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی، اکبر الہ آبادی غزلیں
رنگ شراب سے مری نیت بدل گئی واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی طیار تھے نماز پہ ہم سن کے ذکر حور جلوہ بتوں کا دیکھ کے نیت بدل گئی مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی چمکا ترا جمال جو محفل میں وقت شام پروانہ بیقرار ہوا شمع جل گئی عقبیٰ کی باز پرس کا جاتا رہا خیال دنیا کی لذتوں میں طبیعت بہل گئی حسرت بہت ترقیٔ دختر کی تھی انہیں پردہ جو اٹھ گیا تو وہ آخر نکل گئی
Bahadur Shah Zafar
اتنا نہ اپنے جام سے باہر نکل کے چل، بہادر شاہ ظفر غزلیں
اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے چل اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے چل پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂ عدم آنکھوں کے روبرو سے تو لوگوں کے ٹل کے چل کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل ہے شمع سر کے بل جو محبت میں گرم ہو پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل بلبل کے ہوش نکہت گل کی طرح اڑا گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل گر قصد سوئے دل ہے ترا اے نگاہ یار دو چار تیر پیک سے آگے اجل کے چل جو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل
Ahmad Faraz
دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں احمد فراز غزلیں
دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں آج تک اپنی بیکلی کا سبب خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں بے طرح حال دل ہے اور تجھ سے دوستانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں ایک تو حرف آشنا تھا مگر اب زمانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں قاصدا ہم فقیر لوگوں کا اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں اے خدا درد دل ہے بخشش دوست آب و دانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں اب تو اپنا بھی اس گلی میں فرازؔ آنا جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
Jaan Nisar Akhtar
آج مدت میں وہ یاد آئے ہیں، جاں نثار اختر غزلیں
آج مدت میں وہ یاد آئے ہیں در و دیوار پہ کچھ سائے ہیں آبگینوں سے نہ ٹکرا پائے کوہساروں سے تو ٹکرائے ہیں زندگی تیرے حوادث ہم کو کچھ نہ کچھ راہ پہ لے آئے ہیں سنگ ریزوں سے خزف پاروں سے کتنے ہیرے کبھی چن لائے ہیں اتنے مایوس تو حالات نہیں لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں ان کی جانب نہ کسی نے دیکھا جو ہمیں دیکھ کے شرمائے ہیں
Mirza Ghalib
تو دوست کسو کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا مرزا غالب غزلیں
تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا چھوڑا مہ نخشب کی طرح دست قضا نے خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا توفیق باندازۂ ہمت ہے ازل سے آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا میں سادہ دل آرزدگئ یار سے خوش ہوں یعنی سبق شوق مکرر نہ ہوا تھا دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا جاری تھی اسدؔ داغ جگر سے مری تحصیل آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا
Bahadur Shah Zafar
کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی، بہادر شاہ ظفر غزلیں
کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی پر حیف ترے دل میں محبت نہ ذری دی دی تو نے مجھے سلطنت بحر و بر اے عشق ہونٹوں کو جو خشکی مری آنکھوں کو تری دی خال لب شیریں کا دیا بوسہ کب اس نے اک چاٹ لگانے کو مرے نیشکری دی کافر ترے سوائے سر زلف نے مجھ کو کیا کیا نہ پریشانی و آشفتہ سری دی محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی صیاد نے دی رخصت پرواز پر افسوس تو نے نہ اجازت مجھے بے بال و پری دی کہتا ترا کچھ سوختہ جاں لیک اجل نے فرصت نہ اسے مثل چراغ سحری دی قسام ازل نے نہ رکھا ہم کو بھی محروم گرچہ نہ دیا کوئی ہنر بے ہنری دی اس چشم میں ہے سرمے کا دنبالہ پر آشوب کیوں ہاتھ میں بدمست کے بندوق بھری دی دل دے کے کیا ہم نے تری زلف کا سودا اک آپ بلا اپنے لیے مول خریدی ساقی نے دیا کیا مجھے اک ساغر سرشار گویا کہ دو عالم سے ظفرؔ بے خبری دی
Meer Taqi Meer
میر تقی میر کی غزلیں 82
آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے نا سمجھ کھینچے گا کون پھر یہ ترے ناز میرے بعد شمع مزار اور یہ سوز جگر مرا ہر شب کریں گے زندگی ناساز میرے بعد حسرت ہے اس کے دیکھنے کی دل میں بے قیاس اغلب کہ میری آنکھیں رہیں باز میرے بعد کرتا ہوں میں جو نالے سرانجام باغ میں منہ دیکھو پھر کریں گے ہم آواز میرے بعد بن گل موا ہی میں تو پہ تو جا کے لوٹیو صحن چمن میں اے پر پرواز میرے بعد بیٹھا ہوں میرؔ مرنے کو اپنے میں مستعد پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد
Bahadur Shah Zafar
تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے، بہادر شاہ ظفر غزلیں۔
تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے عشق کی آتش بلا ہے اس کی سوزش اور ہے کیوں نہ وحشت میں چبھے ہر مو بشکل نیش تیز خار غم کی تیرے دیوانے کی کاوش اور ہے مطربو باساز آؤ تم ہماری بزم میں ساز و ساماں سے تمہاری اتنی سازش اور ہے تھوکتا بھی دختر رز پر نہیں مست الست جو کہ ہے اس فاحشہ پر غش وہ فاحش اور ہے تاب کیا ہمتاب ہووے اس سے خورشید فلک آفتاب داغ دل کی اپنے تابش اور ہے سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے ابر مت ہم چشم ہونا چشم دریا بار سے تیری بارش اور ہے اور اس کی بارش اور ہے ہے تو گردش چرخ کی بھی فتنہ انگیزی میں طاق تیری چشم فتنہ زا کی لیک گردش اور ہے بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ کیا کہوں تجھ سے کہ وہ طرز پرستش اور ہے
Mirza Ghalib
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا، مرزا غالب غزلیں
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی گر نفس جادۂ سر منزل تقوی نہ ہوا ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ ناتوانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار صفحۂ آئنہ جولاں گہ طوطی نہ ہوا وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوے مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا
Waseem Barelvi
لہو نہ ہو تو قلم ترجمان نہیں ہوتا، وسیم بریلوی غزلیں
لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا بس اک نگاہ مری راہ دیکھتی ہوتی یہ سارا شہر مرا میزباں نہیں ہوتا ترا خیال نہ ہوتا تو کون سمجھاتا زمیں نہ ہو تو کوئی آسماں نہیں ہوتا میں اس کو بھول گیا ہوں یہ کون مانے گا کسی چراغ کے بس میں دھواں نہیں ہوتا وسیمؔ صدیوں کی آنکھوں سے دیکھیے مجھ کو وہ لفظ ہوں جو کبھی داستاں نہیں ہوتا
Javed Akhtar
بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے جاوید اختر غزلیں
بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے مگر یہ تو مری منزل نہیں ہے یہ تودہ ریت کا ہے بیچ دریا یہ بہہ جائے گا یہ ساحل نہیں ہے بہت آسان ہے پہچان اس کی اگر دکھتا نہیں تو دل نہیں ہے مسافر وہ عجب ہے کارواں میں کہ جو ہم راہ ہے شامل نہیں ہے بس اک مقتول ہی مقتول کب ہے بس اک قاتل ہی تو قاتل نہیں ہے کبھی تو رات کو تم رات کہہ دو یہ کام اتنا بھی اب مشکل نہیں ہے
Mirza Ghalib
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو مرزا غالب غزلیں
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
Bahadur Shah Zafar
نہ دو دشنام ہم کو، اتنی بدخوئی سے کیا حاصل؟ بہادر شاہ ظفر غزلیں
نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل تمہیں دینا ہی ہوگا بوسہ خم روئی سے کیا حاصل دل آزاری نے تیری کر دیا بالکل مجھے بیدل نہ کر اب میری دل جوئی کہ دل جوئی سے کیا حاصل نہ جب تک چاک ہو دل پھانس کب دل کی نکلتی ہے جہاں ہو کام خنجر کا وہاں سوئی سے کیا حاصل برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن کسی کو کیوں کہیں ہم بد کہ بد گوئی سے کیا حاصل نہ کر فکر خضاب اے شیخ تو پیری میں جانے دے جواں ہونا نہیں ممکن سیہ روئی سے کیا حاصل چڑھائے آستیں خنجر بکف وہ یوں جو پھرتا ہے اسے کیا جانے ہے اس عربدہ جوئی سے کیا حاصل عبث پنبہ نہ رکھ داغ دل سوزاں پہ تو میرے کہ انگارے پہ ہوگا چارہ گر روئی سے کیا حاصل شمیم زلف ہو اس کی تو ہو فرحت مرے دل کو صبا ہووے گا مشک چیں کی خوشبوئی سے کیا حاصل نہ ہووے جب تلک انساں کو دل سے میل یک جانب ظفرؔ لوگوں کے دکھلانے کو یکسوئی سے کیا حاصل
Sahir Ludhianvi
اہل دل اور بھی ہیں، اہل وفا اور بھی ہیں، ساحر لدھیانوی غزلیں
اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں ہم پہ ہی ختم نہیں مسلک شوریدہ سری چاک دل اور بھی ہیں چاک قبا اور بھی ہیں کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں میرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں سر سلامت ہے تو کیا سنگ ملامت کی کمی جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں
Allama Iqbal
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل علامہ اقبال غزلیں
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
Nazm Tabatabai
صبح ہے زنار کیوں کیسی کہی نظم تباہی غزلیں
سبحہ ہے زنار کیوں کیسی کہی زاہد عیار کیوں کیسی کہی کٹ گئے اغیار کیوں کیسی کہی چھا گئی ہر بار کیوں کیسی کہی ہیں یہ سب اقرار جھوٹے یا نہیں کیجئے اقرار کیوں کیسی کہی روٹھنے سے آپ کا مطلب یہ ہے اس کو آئے پیار کیوں کیسی کہی کہہ دیا میں نے سحر ہے جھوٹ موٹ ہو گئے بیدار کیوں کیسی کہی ایک تو کہتے ہیں صدہا بھپتیاں اور پھر اصرار کیوں کیسی کہی ناصحا یہ بحث دیوانوں کے ساتھ عقل کی ہے مار کیوں کیسی کہی یا خفا تھے یا ذرا سی بات پر ہو گئی بوچھار کیوں کیسی کہی مجھ سے بیعت کر لے تو بھی واعظا ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی سرمہ دے کر دل کے لینے کا ہے قصد آنکھ تو کر چار کیوں کیسی کہی جان دے دے چل کے در پر یار کے او دل بیمار کیوں کیسی کہی کیا ہی بگڑے ہو پتے کی بات پر ہو گئے بیزار کیوں کیسی کہی اب تو حیدرؔ اور ہی کچھ رنگ ہیں مانتا ہوں یار کیوں کیسی کہی
Firaq GorakhPuri
کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے، فراق گورکھپوری غزلیں
کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے اس کا الزام تغافل پہ کچھ انکار تو ہے ہر فریب غم دنیا سے خبردار تو ہے تیرا دیوانہ کسی کام میں ہشیار تو ہے دیکھ لیتے ہیں سبھی کچھ ترے مشتاق جمال خیر دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے معرکے سر ہوں اسی برق نظر سے اے حسن یہ چمکتی ہوئی چلتی ہوئی تلوار تو ہے سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رک رک کر تیرے وحشی کو خیال در و دیوار تو ہے عشق کا شکوۂ بے جا بھی نہ بے کار گیا نہ سہی جور مگر جور کا اقرار تو ہے تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے اس میں بھی رابطۂ خاص کی ملتی ہے جھلک خیر اقرار محبت نہ ہو انکار تو ہے کیوں جھپک جاتی ہے رہ رہ کے تری برق نگاہ یہ جھجک کس لئے اک کشتۂ دیدار تو ہے کئی عنوان ہیں ممنون کرم کرنے کے عشق میں کچھ نہ سہی زندگی بیکار تو ہے سحر و شام سر انجمن ناز نہ ہو جلوۂ حسن تو ہے عشق سیہ کار تو ہے چونک اٹھتے ہیں فراقؔ آتے ہی اس شوخ کا نام کچھ سراسیمگیٔ عشق کا اقرار تو ہے
Akbar Allahabadi
انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف، اکبر الہ آبادی غزلیں
انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف نظر اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف توجہ اپنی ہو کیا فن شاعری کی طرف نظر ہر ایک کی جاتی ہے عیب ہی کی طرف لکھا ہوا ہے جو رونا مرے مقدر میں خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف تمہارا سایہ بھی جو لوگ دیکھ لیتے ہیں وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے پری کی طرف بلا میں پھنستا ہے دل مفت جان جاتی ہے خدا کسی کو نہ لے جائے اس گلی کی طرف کبھی جو ہوتی ہے تکرار غیر سے ہم سے تو دل سے ہوتے ہو در پردہ تم اسی کی طرف نگاہ پڑتی ہے ان پر تمام محفل کی وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف نگاہ اس بت خود بیں کی ہے مرے دل پر نہ آئنہ کی طرف ہے نہ آرسی کی طرف قبول کیجیئے للہ تحفۂ دل کو نظر نہ کیجیئے اس کی شکستگی کی طرف یہی نظر ہے جو اب قاتل زمانہ ہوئی یہی نظر ہے کہ اٹھتی نہ تھی کسی کی طرف غریب خانہ میں للٰلہ دو گھڑی بیٹھو بہت دنوں میں تم آئے ہو اس گلی کی طرف ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا گھڑی گھڑی نہ اٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف جو گھر میں پوچھے کوئی خوف کیا ہے کہہ دینا چلے گئے تھے ٹہلتے ہوئے کسی کی طرف ہزار جلوۂ حسن بتاں ہو اے اکبرؔ تم اپنا دھیان لگائے رہو اسی کی طرف
Mirza Ghalib
ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے مرزا غالب غزلیں
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے درس عنوان تماشا بہ تغافل خوشتر ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے وحشت آتش دل سے شب تنہائی میں صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے غم عشاق نہ ہو سادگی آموز بتاں کس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے اثر آبلہ سے جادۂ صحرائے جنوں صورت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے بے خودی بستر تمہید فراغت ہو جو پر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے شوق دیدار میں گر تو مجھے گردن مارے ہو نگہ مثل گل شمع پریشاں مجھ سے بیکسی ہائے شب ہجر کی وحشت ہے ہے سایہ خورشید قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے گردش ساغر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے آئنہ داریٔ یک دیدۂ حیراں مجھ سے نگہ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے اسدؔ ہے چراغاں خس و خاشاک گلستاں مجھ سے بستن عہد محبت ہمہ نادانی تھا چشم نکشودہ رہا عقدۂ پیماں مجھ سے آتش افروزی یک شعلۂ ایما تجھ سے چشمک آرائی صد شہر چراغاں مجھ سے
Jaun Eliya
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں، جون ایلیا غزلیں۔
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں یہ مرا طور زندگی ہی نہیں اے امید اے امید نو میداں مجھ سے میت تری اٹھی ہی نہیں میں جو تھا اس گلی کا مست خرام اس گلی میں مری چلی ہی نہیں یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد اس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں تھی جو اک فاختہ اداس اداس صبح وہ شاخ سے اڑی ہی نہیں مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا اور ستم یہ کہ میرا جی ہی نہیں وہ جو رہتی تھی دل محلے میں پھر وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں جائیے اور خاک اڑائیے آپ اب وہ گھر کیا کہ وہ گلی ہی نہیں ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں
Sahir Ludhianvi
اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں، ساحر لدھیانوی غزلیں
اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تجھے کیا پیش کروں تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں یا ترے درد جدائی کا گلا پیش کروں میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں جو ترے دل کو لبھائے وہ ادا مجھ میں نہیں کیوں نہ تجھ کو کوئی تیری ہی ادا پیش کروں
Ahmad Faraz
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں احمد فراز کی غزلیں
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں جو لالچوں سے تجھے مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں یہ کون ہے سر ساحل کہ ڈوبنے والے سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اس کی خیر خبر چلو فرازؔ کو اے یار چل کے دیکھتے ہیں
Jaan Nisar Akhtar
مدت ہوئی اس جانِ حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا، جان نثار اختر غزلیں
مدت ہوئی اس جان حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا جتنے بھی بد نام ہوئے ہم اتنا اس نے پیار کیا پہلے بھی خوش چشموں میں ہم چوکنا سے رہتے تھے تیری سوئی آنکھوں نے تو اور ہمیں ہوشیار کیا جاتے جاتے کوئی ہم سے اچھے رہنا کہہ تو گیا پوچھے لیکن پوچھنے والے کس نے یہ بیمار کیا قطرہ قطرہ صرف ہوا ہے عشق میں اپنے دل کا لہو شکل دکھائی تب اس نے جب آنکھوں کو خوں بار کیا ہم پر کتنی بار پڑے یہ دورے بھی تنہائی کے جو بھی ہم سے ملنے آیا ملنے سے انکار کیا عشق میں کیا نقصان نفع ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو ہم نے ساری عمر ہی یارو دل کا کاروبار کیا محفل پر جب نیند سی چھائی سب کے سب خاموش ہوئے ہم نے تب کچھ شعر سنایا لوگوں کو بے دار کیا اب تم سوچو اب تم جانو جو چاہو اب رنگ بھرو ہم نے تو اک نقشہ کھینچا اک خاکہ تیار کیا دیش سے جب پردیش سدھارے ہم پر یہ بھی وقت پڑا نظمیں چھوڑی غزلیں چھوڑی گیتوں کا بیوپار کیا
Mirza Ghalib
لب خشک در تشنگی مردگان کا مرزا غالب غزلیں
لب خشک در تشنگی مردگاں کا زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا ہمہ ناامیدی ہمہ بد گمانی میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا شگفتن کمیں گاۂ تقریب جوئی تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا غریب ستم دیدۂ باز گشتن سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا سراپا یک آئینہ دار شکستن ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا بہ صورت تکلف بہ معنی تأسف اسدؔ میں تبسم ہوں پژمردگاں کا
Mirza Ghalib
اگر تجھ کو ہے یقینِ اجابت، دعا نہ مانگ، مرزا غالب غزلیں
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ اے آرزو شہید وفا خوں بہا نہ مانگ جز بہر دست و بازوئے قاتل دعا نہ مانگ برہم ہے بزم غنچہ بہ یک جنبش نشاط کاشانہ بسکہ تنگ ہے غافل ہوا نہ مانگ میں دور گرد عرض رسوم نیاز ہوں دشمن سمجھ ولے نگۂ آشنا نہ مانگ یک بخت اوج نذر سبک باری اسدؔ سر پر وبال سایۂ بال ہما نہ مانگ گستاخیٔ وصال ہے مشاطۂ نیاز یعنی دعا بجز خم زلف دوتا نہ مانگ عیسیٰ طلسم حسن تغافل ہے زینہار جز پشت چشم نسخہ عرض دوا نہ مانگ نظارۂ دیگر و دل خونیں نفس دگر آئینہ دیکھ جوہر برگ دعا نمانگ
Faiz Ahmad Faiz
کچھ پہلے ان آنکھوں کے آگے کیا کیا نہ نظارہ گزرے تھا، فیض احمد فیض غزلیں۔
کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے لیکن اب سے پہلے تو آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا
Meer Taqi Meer
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں میر تقی میر غزلیں
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں حاصل ہے کیا سواے ترائی کے دہر میں اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں
Waseem Barelvi
آتے آتے میرا نام سا رہ گیا وسیم بریلوی غزلیں
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا
Jaun Eliya
شرمندگی ہے ہم کو بہت، ہم ملے تمہیں جون ایلیا غزلیں
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں تم سر بہ سر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں ہے جو ہمارا ایک حساب اس حساب سے آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں اب اپنے طور ہی میں نہیں تم سو کاش کہ خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں اس شہر حیلہ جو میں جو محرم ملے مجھے فریاد جان جاں وہی محرم ملے تمہیں دیتا ہوں تم کو خشکئ مژگاں کی میں دعا مطلب یہ ہے کہ دامن پر نم ملے تمہیں میں ان میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا جاناں جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا شرمندہ ہیں کہ اس میں بہت خم ملے تمہیں یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں
Bahadur Shah Zafar
دیکھو انسان خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے، بہادر شاہ ظفر غزلیں
دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہے اس نگہ کے سامنے تیر قضا کیا چیز ہے یوں تو ہیں سارے بتاں غارتگر ایمان و دیں ایک وہ کافر صنم نام خدا کیا چیز ہے جس نے دل میرا دیا دام محبت میں پھنسا وہ نہیں معلوم مج کو ناصحا کیا چیز ہے ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب خضر پھر تو چشمۂ آب بقا کیا چیز ہے مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے دل مرا بیٹھا ہے لے کر پھر مجھی سے وہ نگار پوچھتا ہے ہاتھ میں میرے بتا کیا چیز ہے خاک سے پیدا ہوئے ہیں دیکھ رنگا رنگ گل ہے تو یہ ناچیز لیکن اس میں کیا کیا چیز ہے جس کی تجھ کو جستجو ہے وہ تجھی میں ہے ظفرؔ ڈھونڈتا پھر پھر کے تو پھر جا بجا کیا چیز ہے