Poet
stringclasses 30
values | Poem_name
stringlengths 19
107
| Poetry
stringlengths 68
2.22k
|
---|---|---|
Jaun Eliya | حالات حال کے سبب حالات حال ہی گئی جون ایلیا غزلیں | حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
شوق میں کچھ نہیں گیا شوق کی زندگی گئی
تیرا فراق جان جاں عیش تھا کیا مرے لیے
یعنی ترے فراق میں خوب شراب پی گئی
تیرے وصال کے لیے اپنے کمال کے لیے
حالت دل کہ تھی خراب اور خراب کی گئی
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
بعد بھی تیرے جان جاں دل میں رہا عجب سماں
یاد رہی تری یہاں پھر تری یاد بھی گئی
اس کے بدن کو دی نمود ہم نے سخن میں اور پھر
اس کے بدن کے واسطے ایک قبا بھی سی گئی
مینا بہ مینا مے بہ مے جام بہ جام جم بہ جم
ناف پیالے کی ترے یاد عجب سہی گئی
کہنی ہے مجھ کو ایک بات آپ سے یعنی آپ سے
آپ کے شہر وصل میں لذت ہجر بھی گئی
صحن خیال یار میں کی نہ بسر شب فراق
جب سے وہ چاندنا گیا جب سے وہ چاندنی گئی |
Ahmad Faraz | اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی احمد فراز غزلیں | اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں
یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی
تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں
آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی
ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے
تو نے کس گھڑی ظالم میری ہم نوائی کی
ترک کر چکے قاصد کوئے نامراداں کو
کون اب خبر لاوے شہر آشنائی کی
طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے
آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی
پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد
دیکھنا اڑا دے گا پھر خبر رہائی کی
دکھ ہوا جب اس در پر کل فرازؔ کو دیکھا
لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی |
Ahmad Faraz | سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی احمد فراز غزلیں | سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
میں بھی خاموش رہا اس نے بھی پرسش نہیں کی
جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
اس کا کیا رنج ہو جس کی کبھی خواہش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے
اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی
اک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
اے مرے ابر کرم دیکھ یہ ویرانۂ جاں
کیا کسی دشت پہ تو نے کبھی بارش نہیں کی
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتل شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ہے فرازؔ
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی |
Waseem Barelvi | میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے وسیم بریلوی غزلیں | میرے غم کو جو اپنا بتاتے رہے
وقت پڑنے پہ ہاتھوں سے جاتے رہے
بارشیں آئیں اور فیصلہ کر گئیں
لوگ ٹوٹی چھتیں آزماتے رہے
آنکھیں منظر ہوئیں کان نغمہ ہوئے
گھر کے انداز ہی گھر سے جاتے رہے
شام آئی تو بچھڑے ہوئے ہم سفر
آنسوؤں سے ان آنکھوں میں آتے رہے
ننھے بچوں نے چھو بھی لیا چاند کو
بوڑھے بابا کہانی سناتے رہے
دور تک ہاتھ میں کوئی پتھر نہ تھا
پھر بھی ہم جانے کیوں سر بچاتے رہے
شاعری زہر تھی کیا کریں اے وسیمؔ
لوگ پیتے رہے ہم پلاتے رہے |
Jaun Eliya | آج لبِ گُہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا، جون ایلیا غزلیں | آج لب گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا
تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ تھے
میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا
مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تو مرے بازوؤں میں ہے
یعنی تجھے ابھی تلک میں نے رہا نہیں کیا
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
ہاں وہ نگاہ ناز بھی اب نہیں ماجرا طلب
ہم نے بھی اب کی فصل میں شور بپا نہیں کیا |
Jaun Eliya | ہم بڑا احسان فرما رہے ہیں جون ایلیا کی غزلیں | بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
کہ ان کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں
نہیں ترک محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں
یقیں کا راستہ طے کرنے والے
بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں
یہ مت بھولو کہ یہ لمحات ہم کو
بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں
تمہیں چاہیں گے جب چھن جاؤ گی تم
ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں
کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں
وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں
مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں
دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں
تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں
یہ جذب عشق ہے یا جذبۂ رحم
ترے آنسو مجھے رلوا رہے ہیں
عجب کچھ ربط ہے تم سے کہ تم کو
ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں
وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں |
Mirza Ghalib | روخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع مرزا غالب غزلیں | رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع
ہوئی ہے آتش گل آب زندگانی شمع
زبان اہل زباں میں ہے مرگ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانی شمع
کرے ہے صرف بہ ایماۓ شعلہ قصہ تمام
بہ طرز اہل فنا ہے فسانہ خوانی شمع
غم اس کو حسرت پروانہ کا ہے اے شعلے
ترے لرزنے سے ظاہر ہے نا توانی شمع
ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے
بہ جلوہ ریزی باد و بہ پر فشانی شمع
نشاط داغ غم عشق کی بہار نہ پوچھ
شگفتگی ہے شہید گل خزانی شمع
جلے ہے دیکھ کے بالین یار پر مجھ کو
نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغ بد گمانی شمع |
Faiz Ahmad Faiz | ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے، فیض احمد فیض غزلیں | ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہوگا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیضؔ آتے ہیں رہ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے |
Habib Jalib | کم پرانا بہت نیا تھا فراق حبیب جلیب غزلیں | کم پرانا بہت نیا تھا فراق
اک عجب رمز آشنا تھا فراق
دور وہ کب ہوا نگاہوں سے
دھڑکنوں میں بسا ہوا ہے فراق
شام غم کے سلگتے صحرا میں
اک امنڈتی ہوئی گھٹا تھا فراق
امن تھا پیار تھا محبت تھا
رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق
فاصلے نفرتوں کے مٹ جائیں
پیار ہی پیار سوچتا تھا فراق
ہم سے رنج و الم کے ماروں کو
کس محبت سے دیکھتا تھا فراق
عشق انسانیت سے تھا اس کو
ہر تعصب سے ماورا تھا فراق |
Mirza Ghalib | جب میں پینے کو دھوتا ہوں اس سیم تن کے پاؤں، مرزا غالب کی غزلیں۔ | دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں
دی سادگی سے جان پڑوں کوہ کن کے پاؤں
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیرزن کے پاؤں
بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں
مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور
تن سے سوا فگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں
اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں
ہے جوش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغ چمن کے پاؤں
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاؤں
غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزا نہ ہو
پیتا ہوں دھوکے خسرو شیریں سخن کے پاؤں |
Sahir Ludhianvi | بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمگار سے ہم، ساحر لدھیانوی غزلیں | بھڑکا رہے ہیں آگ لب نغمہ گر سے ہم
خاموش کیا رہیں گے زمانے کے ڈر سے ہم
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم |
Waseem Barelvi | سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ وسیم بریلوی غزلیں | سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ
شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ
تیرا خیال تیری طلب تیری آرزو
میں عمر بھر چلا ہوں کسی روشنی کے ساتھ
دنیا مرے خلاف کھڑی کیسے ہو گئی
میری تو دشمنی بھی نہیں تھی کسی کے ساتھ
کس کام کی رہی یہ دکھاوے کی زندگی
وعدے کیے کسی سے گزاری کسی کے ساتھ
دنیا کو بے وفائی کا الزام کون دے
اپنی ہی نبھ سکی نہ بہت دن کسی کے ساتھ
قطرے وہ کچھ بھی پائیں یہ ممکن نہیں وسیمؔ
بڑھنا جو چاہتے ہیں سمندر کشی کے ساتھ |
Nida Fazli | یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ، ندا فضلی غزلیں | یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ
مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ
خدا کے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموں کو
بدلتے وقت پہ کچھ اپنا اختیار بھی رکھ
یہ ہی لہو ہے شہادت یہ ہی لہو پانی
خزاں نصیب سہی ذہن میں بہار بھی رکھ
گھروں کے طاقوں میں گلدستے یوں نہیں سجتے
جہاں ہیں پھول وہیں آس پاس خار بھی رکھ
پہاڑ گونجیں ندی گائے یہ ضروری ہے
سفر کہیں کا ہو دل میں کسی کا پیار بھی رکھ |
Firaq GorakhPuri | سر میں سودا بھی نہیں، دل میں تمنا بھی نہیں، فراق گورکھپوری غزلیں | سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں
مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں
بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام
کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں
ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں
تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں
آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش
آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں
یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں
یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں
فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم
چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں
منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں |
Bahadur Shah Zafar | وان رسائی نہیں تو پھر کیا ہے بہادر شاہ ظفر غزلیں | واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
یہ جدائی نہیں تو پھر کیا ہے
ہو ملاقات تو صفائی سے
اور صفائی نہیں تو پھر کیا ہے
دل ربا کو ہے دل ربائی شرط
دل ربائی نہیں تو پھر کیا ہے
گلہ ہوتا ہے آشنائی میں
آشنائی نہیں تو پھر کیا ہے
اللہ اللہ رے ان بتوں کا غرور
یہ خدائی نہیں تو پھر کیا ہے
موت آئی تو ٹل نہیں سکتی
اور آئی نہیں تو پھر کیا ہے
مگس قاب اغنیا ہونا ہے
بے حیائی نہیں تو پھر کیا ہے
بوسۂ لب دل شکستہ کو
مومیائی نہیں تو پھر کیا ہے
نہیں رونے میں گر ظفرؔ تاثیر
جگ ہنسائی نہیں تو پھر کیا ہے |
Javed Akhtar | خلا ہے در پہ تیرا انتظار جاتا رہا، جاوید اختر غزلیں | کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا
خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا
کسی کی آنکھ میں مستی تو آج بھی ہے وہی
مگر کبھی جو ہمیں تھا خمار جاتا رہا
کبھی جو سینے میں اک آگ تھی وہ سرد ہوئی
کبھی نگاہ میں جو تھا شرار جاتا رہا
عجب سا چین تھا ہم کو کہ جب تھے ہم بے چین
قرار آیا تو جیسے قرار جاتا رہا
کبھی تو میری بھی سنوائی ہوگی محفل میں
میں یہ امید لیے بار بار جاتا رہا |
Nida Fazli | کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی، چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی۔ ندا فاضلی غزلیں۔ | کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی
جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی
جس سے جب تک ملے دل ہی سے ملے دل جو بدلا تو فسانہ بدلا
رسم دنیا کو نبھانے کے لیے ہم سے رشتوں کی تجارت نہ ہوئی
دور سے تھا وہ کئی چہروں میں پاس سے کوئی بھی ویسا نہ لگا
بے وفائی بھی اسی کا تھا چلن پھر کسی سے یہ شکایت نہ ہوئی
چھوڑ کر گھر کو کہیں جانے سے گھر میں رہنے کی عبادت تھی بڑی
جھوٹ مشہور ہوا راجا کا سچ کی سنسار میں شہرت نہ ہوئی
وقت روٹھا رہا بچے کی طرح راہ میں کوئی کھلونا نہ ملا
دوستی کی تو نبھائی نہ گئی دشمنی میں بھی عداوت نہ ہوئی |
Sahir Ludhianvi | میری تقدیر میں جلنا ہے تو جل جاؤں گا، ساحر لدھیانوی غزلیں | میری تقدیر میں جلنا ہے تو جل جاؤں گا
تیرا وعدہ تو نہیں ہوں جو بدل جاؤں گا
سوز بھر دو مرے سپنے میں غم الفت کا
میں کوئی موم نہیں ہوں جو پگھل جاؤں گا
درد کہتا ہے یہ گھبرا کے شب فرقت میں
آہ بن کر ترے پہلو سے نکل جاؤں گا
مجھ کو سمجھاؤ نہ ساحرؔ میں اک دن خود ہی
ٹھوکریں کھا کے محبت میں سنبھل جاؤں گا |
Waseem Barelvi | میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا وسیم بریلوی غزلیں | میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر اک اپنا راستہ لے گا
میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاؤں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں کہ پھر جلا لے گا
کلیجہ چاہئے دشمن سے دشمنی کے لئے
جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لے گا
میں اس کا ہو نہیں سکتا بتا نہ دینا اسے
لکیریں ہاتھ کی اپنی وہ سب جلا لے گا
ہزار توڑ کے آ جاؤں اس سے رشتہ وسیمؔ
میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا بلا لے گا |
Noon Meem Rashid | تیرے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا نون میم راشد غزلیں | ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا
مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملا
حیات شوق کی یہ گرمیاں کہاں ہوتیں
خدا کا شکر ہمیں نالۂ رسا نہ ملا
ازل سے فطرت آزاد ہی تھی آوارہ
یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
یہ کائنات کسی کا غبار راہ سہی
دلیل راہ جو بنتا وہ نقش پا نہ ملا
یہ دل شہید فریب نگاہ ہو نہ سکا
وہ لاکھ ہم سے بہ انداز محرمانہ ملا
کنار موج میں مرنا تو ہم کو آتا ہے
نشان ساحل الفت ملا ملا نہ ملا
تری تلاش ہی تھی مایۂ بقائے وجود
بلا سے ہم کو سر منزل بقا نہ ملا |
Meer Taqi Meer | جو اس شور سے میر روتا رہے گا میر تقی میر غزلیں | جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں
جسے ابر ہر سال روتا رہے گا
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تو کب تک مرے منہ کو دھوتا رہے گا
بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں
کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا
مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے
جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا
تو یوں گالیاں غیر کو شوق سے دے
ہمیں کچھ کہے گا تو ہوتا رہے گا
بس اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو
تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا |
Parveen Shakir | اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا پروین شاکر غزلیں | اگرچہ تجھ سے بہت اختلاف بھی نہ ہوا
مگر یہ دل تری جانب سے صاف بھی نہ ہوا
تعلقات کے برزخ میں ہی رکھا مجھ کو
وہ میرے حق میں نہ تھا اور خلاف بھی نہ ہوا
عجب تھا جرم محبت کہ جس پہ دل نے مرے
سزا بھی پائی نہیں اور معاف بھی نہ ہوا
ملامتوں میں کہاں سانس لے سکیں گے وہ لوگ
کہ جن سے کوئے جفا کا طواف بھی نہ ہوا
عجب نہیں ہے کہ دل پر جمی ملی کائی
بہت دنوں سے تو یہ حوض صاف بھی نہ ہوا
ہوائے دہر ہمیں کس لیے بجھاتی ہے
ہمیں تو تجھ سے کبھی اختلاف بھی نہ ہوا |
Noon Meem Rashid | تو آشنائے جذبہء عشق نہیں رہا، نون میم راشد کی غزلیں | تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا
دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا
پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے
تو ہی حریف ذوق سماعت نہیں رہا
آئیں کہاں سے آنکھ میں آتش چکانیاں
دل آشنائے سوز محبت نہیں رہا
گل ہائے حسن یار میں دامن کش نظر
میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا
شاید جنوں ہے مائل فرزانگی مرا
میں وہ نہیں وہ عالم وحشت نہیں رہا
ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگ ناگہاں
میں اب اسیر گردش قسمت نہیں رہا
جلوہ گہہ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج
لو میں رہین زحمت خلوت نہیں رہا
کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے
سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا |
Sahir Ludhianvi | عقائد وہم ہیں، مذہب خیالِ خام ہے، ساقی ساحر لدھیانوی غزلیں | عقائد وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی
ازل سے ذہن انساں بستۂ اوہام ہے ساقی
حقیقت آشنائی اصل میں گم کردہ راہی ہے
عروس آگہی پروردۂ ابہام ہے ساقی
مبارک ہو ضعیفی کو خرد کی فلسفہ رانی
جوانی بے نیاز عبرت انجام ہے ساقی
ہوس ہوگی اسیر حلقۂ نیک و بد عالم
محبت ماورائے فکر ننگ و نام ہے ساقی
ابھی تک راستے کے پیچ و خم سے دل دھڑکتا ہے
مرا ذوق طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی
وہاں بھیجا گیا ہوں چاک کرنے پردۂ شب کو
جہاں ہر صبح کے دامن پہ عکس شام ہے ساقی
مرے ساغر میں مے ہے اور ترے ہاتھوں میں بربط ہے
وطن کی سر زمیں میں بھوک سے کہرام ہے ساقی
زمانہ برسر پیکار ہے پر ہول شعلوں سے
ترے لب پر ابھی تک نغمہ خیام ہے ساقی |
Firaq GorakhPuri | ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں فراق گورکھپوری غزلیں | ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں
شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں
ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں
جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں
یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے
گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں
اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ
خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں
حدیں حسن و محبت کی ملا کر
قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں
خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت
ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں
اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا
تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں
بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے
میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں
انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے
میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس
کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں
حد جور و کرم سے بڑھ چلا حسن
نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں
جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں
محبت اب محبت ہو چلی ہے
تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں
اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے
وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں
یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ
فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں |
Bahadur Shah Zafar | ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں بہادر شاہ ظفر غزلیں | ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں
خون دل پینے سے جو کچھ ہے حلاوت ہم کو
یہ مزا اور کسی کو نہیں مے پینے میں
دل کو کس شکل سے اپنے نہ مصفا رکھوں
جلوہ گر یار کی صورت ہے اس آئینے میں
اشک و لخت جگر آنکھوں میں نہیں ہیں میرے
ہیں بھرے لال و گہر عشق کے گنجینے میں
شکل آئینہ ظفرؔ سے تو نہ رکھ دل میں خیال
کچھ مزا بھی ہے بھلا جان مری لینے میں |
Javed Akhtar | دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ، جاوید اختر غزلیں | دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ
جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ
جیون جیون ہم نے جگ میں کھیل یہی ہوتے دیکھا
دھیرے دھیرے جیتی دنیا دھیرے دھیرے ہارے لوگ
وقت سنگھاسن پر بیٹھا ہے اپنے راگ سناتا ہے
سنگت دینے کو پاتے ہیں سانسوں کے اکتارے لوگ
نیکی اک دن کام آتی ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے بے بس مرتے دیکھے کیسے پیارے پیارے لوگ
اس نگری میں کیوں ملتی ہے روٹی سپنوں کے بدلے
جن کی نگری ہے وہ جانیں ہم ٹھہرے بنجارے لوگ |
Mirza Ghalib | شب کی وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا، مرزا غالب غزلیں | شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
رشتۂ ہر شمع خار کسوت فانوس تھا
مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اگتی ہے حنا
کس قدر یارب ہلاک حسرت پا بوس تھا
حاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزو
دل بہ دل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا
کیا کہوں بیماریٔ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خون دل بے منت کیموس تھا
بت پرستی ہے بہار نقش بند یہائے دہر
ہر صریر خامہ میں یک نالۂ ناقوس تھا
طبع کی واشد نے رنگ یک گلستاں گل کیا
یہ دل وابستہ گویا بیضۂ طاؤس تھا
کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں
دست برسر سر بزانوئے دل مایوس تھا |
Kaifi Azmi | کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ کیفی اعظمی غزلیں | کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ
تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ
گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو
ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ
منزل سے وہ بھی دور تھا اور ہم بھی دور تھے
ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہ نما کے ساتھ
رقص صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے
اے کاش تم بھی آ گئے ہوتے صبا کے ساتھ
اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں
فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آواز پا کے ساتھ
ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند
پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ |
Meer Taqi Meer | باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا میر تقی میر غزلیں | باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
سعی و تلاش بہت سی رہے گی اس انداز کے کہنے کی
صحبت میں علما فضلا کی جا کر پڑھیے گنیے گا
دل کی تسلی جب کہ ہوگی گفت و شنود سے لوگوں کی
آگ پھنکے گی غم کی بدن میں اس میں جلیے بھنیے گا
گرم اشعار میرؔ درونہ داغوں سے یہ بھر دیں گے
زرد رو شہر میں پھریے گا گلیوں میں نے گل چنیے گا |
Jaan Nisar Akhtar | حوصلہ کھو نہ دیا تیری نہیں سے ہم نے، جاں نثار اختر غزلیں | حوصلہ کھو نہ دیا تیری نہیں سے ہم نے
کتنی شکنوں کو چنا تیری جبیں سے ہم نے
وہ بھی کیا دن تھے کہ دیوانہ بنے پھرتے تھے
سن لیا تھا ترے بارے میں کہیں سے ہم نے
جس جگہ پہلے پہل نام ترا آتا ہے
داستاں اپنی سنائی ہے وہیں سے ہم نے
یوں تو احسان حسینوں کے اٹھائے ہیں بہت
پیار لیکن جو کیا ہے تو تمہیں سے ہم نے
کچھ سمجھ کر ہی خدا تجھ کو کہا ہے ورنہ
کون سی بات کہی اتنے یقیں سے ہم نے |
Parveen Shakir | آپنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں پروین شاکر غزلیں | اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں
ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں
تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں
بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں |
Meer Taqi Meer | چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے، میر تقی میر غزلیں۔ | چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو مے خانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے
عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گزاراں ہے
دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے
لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے
کوہ کن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے |
Mirza Ghalib | اسد ہم وہ جنون جولاں گدا بے سر و پا ہیں، مرزا غالب غزلیں۔ | اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا |
Allama Iqbal | کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں، علامہ اقبال غزلیں | کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں |
Meer Taqi Meer | کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق میر تقی میر غزلیں | کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
عشق معشوق عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
گر پرستش خدا کی ثابت کی
کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق
دل کش ایسا کہاں ہے دشمن جاں
مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق
ہے ہمارے بھی طور کا عاشق
جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق
کوئی خواہاں نہیں محبت کا
تو کہے جنس ناروا ہے عشق
میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو
کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق |
Faiz Ahmad Faiz | تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں، فیض احمد فیض کی غزلیں۔ | تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن
تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں
وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں
در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں |
Waseem Barelvi | تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے وسیم بریلوی غزلیں | تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے
اسی لئے تو تمہیں ہم نظر نہیں آتے
محبتوں کے دنوں کی یہی خرابی ہے
یہ روٹھ جائیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے
جنہیں سلیقہ ہے تہذیب غم سمجھنے کا
انہیں کے رونے میں آنسو نظر نہیں آتے
خوشی کی آنکھ میں آنسو کی بھی جگہ رکھنا
برے زمانے کبھی پوچھ کر نہیں آتے
بساط عشق پہ بڑھنا کسے نہیں آتا
یہ اور بات کہ بچنے کے گھر نہیں آتے
وسیمؔ ذہن بناتے ہیں تو وہی اخبار
جو لے کے ایک بھی اچھی خبر نہیں آتے |
Sahir Ludhianvi | پہاڑوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں | پربتوں کے پیڑوں پر شام کا بسیرا ہے
سرمئی اجالا ہے چمپئی اندھیرا ہے
دونوں وقت ملتے ہیں دو دلوں کی صورت سے
آسماں نے خوش ہو کر رنگ سا بکھیرا ہے
ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں
بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے
کیوں نہ جذب ہو جائیں اس حسیں نظارے میں
روشنی کا جھرمٹ ہے مستیوں کا گھیرا ہے |
Mirza Ghalib | دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا، مرزا غالب غزلیں | دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی
دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا |
Jaan Nisar Akhtar | بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے جاں نثار اختر غزلیں | بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے
چمن مانگا تھا پر اس نے بمشکل اک کلی دی ہے
مرے خلوت کدے کے رات دن یوں ہی نہیں سنورے
کسی نے دھوپ بخشی ہے کسی نے چاندنی دی ہے
نظر کو سبز میدانوں نے کیا کیا وسعتیں بخشیں
پگھلتے آبشاروں نے ہمیں دریا دلی دی ہے
محبت ناروا تقسیم کی قائل نہیں پھر بھی
مری آنکھوں کو آنسو تیرے ہونٹوں کو ہنسی دی ہے
مری آوارگی بھی اک کرشمہ ہے زمانے میں
ہر اک درویش نے مجھ کو دعائے خیر ہی دی ہے
کہاں ممکن تھا کوئی کام ہم جیسے دوانوں سے
تمہیں نے گیت لکھوائے تمہیں نے شاعری دی ہے |
Wali Mohammad Wali | جب صنم کوں خیالِ باغ ہوا، ولی محمد ولی غزلیں | جب صنم کوں خیال باغ ہوا
طالب نشۂ فراغ ہوا
فوج عشاق دیکھ ہر جانب
نازنیں صاحب دماغ ہوا
رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر
جگر لالہ داغ داغ ہوا
دل عشاق کیوں نہ ہو روشن
جب خیال صنم چراغ ہوا
اے ولیؔ گل بدن کوں باغ میں دیکھ
دل صد چاک باغ باغ ہوا |
Nazm Tabatabai | احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر نظم طبع تابعی غزلیں | احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر
رستہ بھی چل تو سبزۂ بیگانہ چھوڑ کر
مرنے کے بعد پھر نہیں کوئی شریک حال
جاتا ہے شمع کشتہ کو پروانہ چھوڑ کر
ہونٹوں پہ آج تک ہیں شب عیش کے مزے
ساقی کا لب لیا لب پیمانہ چھوڑ کر
افعی نہیں کھلی ہوئی زلفوں کا عکس ہے
جاتے کہاں ہو آئینہ و شانہ چھوڑ کر
طول امل پہ دل نہ لگانا کہ اہل بزم
جائیں گے ناتمام یہ افسانہ چھوڑ کر
لبریز جام عمر ہوا آ گئی اجل
لو اٹھ گئے بھرا ہوا پیمانہ چھوڑ کر
اس پیر زال دہر کی ہم ٹھوکروں میں ہیں
جب سے گئی ہے ہمت مردانہ چھوڑ کر
پہروں ہمارا آپ میں آنا محال ہے
کوسوں نکل گیا دل دیوانہ چھوڑ کر
اترا جو شیشہ طاق سے زاہد کا ہے یہ حال
کرتا ہے رقص سجدۂ شکرانہ چھوڑ کر
یہ سمعۂ و ریا تو نشانی ہے کفر کی
زنار باندھ سبحۂ صد دانہ چھوڑ کر
رندان مے کدہ بھی ہیں اے خضر منتظر
بستی میں آئیے کبھی ویرانہ چھوڑ کر
احسان سر پہ لغزش مستانہ کا ہوا
ہم دو قدم نہ جا سکے مے خانہ چھوڑ کر
وادی بہت مہیب ہے بیم و امید کا
دیکھیں گے شیر پر دل دیوانہ چھوڑ کر
رو رو کے کر رہی ہے صراحی وداع اسے
جاتا ہے دور دور جو پیمانہ چھوڑ کر
توبہ تو کی ہے نظمؔ بنا ہوگی کس طرح
کیوں کر جیو گے مشرب رندانہ چھوڑ کر |
Nazm Tabatabai | اس واسطے آدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں نظم طباعی غزلیں | اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں
مدت سے دوستوں کی محفل کو ڈھونڈتے ہیں
یہ دل کے پار ہو کر پھر دل کو ڈھونڈتے ہیں
تیر نگاہ اس کے بسمل کو ڈھونڈتے ہیں
اک لہر میں نہ تھے ہم کیوں اے حباب دیکھا
یوں آنکھ بند کر کے ساحل کو ڈھونڈتے ہیں
طرز کرم کی شاہد ہیں میوہ دار شاخیں
اس طرح سر جھکا کر سائل کو ڈھونڈتے ہیں
ہے وصل و ہجر اپنا اے قیس طرفہ مضموں
محمل میں بیٹھے ہیں اور محمل کو ڈھونڈتے ہیں
طول امل کا رستہ ممکن نہیں کہ طے ہو
منزل پہ بھی پہنچ کر منزل کو ڈھونڈتے ہیں
حسرت شباب کی ہے ایام شیب میں بھی
معدوم کی ہوس ہے زائل کو ڈھونڈتے ہیں
اٹھتے ہیں ولولے کچھ ہر بار درد بن کر
کیا جانیے جگر کو یا دل کو ڈھونڈتے ہیں
زخم جگر کا میرے ہے رشک دوستوں کو
مرتا ہوں میں کہ یہ کیوں قاتل کو ڈھونڈتے ہیں
اہل ہوس کی کشتی یک بام و دو ہوا ہے
دریائے عشق میں بھی ساحل کو ڈھونڈتے ہیں
آیا جو رحم مجھ پر اس میں بھی چال ہے کچھ
سینہ پہ ہاتھ رکھ کر اب دل کو ڈھونڈتے ہیں
کرتے ہیں کار فرہاد آساں زمین میں بھی
مشکل پسند ہیں ہم مشکل کو ڈھونڈتے ہیں
اے خضر پئے خجستہ بہر خدا کرم کر
بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں
دل خواہ تیرے عشوے دل جو ترے اشارے
وہ دل ٹٹولتے ہیں یہ دل کو ڈھونڈتے ہیں
اے نظمؔ کیا بتائیں حج و طواف اپنا
کعبے میں بھی کسی کی محمل کو ڈھونڈتے ہیں |
Bahadur Shah Zafar | محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو بہادر شاہ ظفر غزلیں | محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
خوشی ہو اس میں یا ہو غم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
غنیمت تم اسے سمجھو کہ اس خم خانہ میں یارو
نصیب اک دم دل خرم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
دلاؤ حضرت دل تم نہ یاد خط سبز اس کا
کہیں ایسا نہ ہو یہ سم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہمیشہ چاہتا ہے دل کہ مل کر کیجے مے نوشی
میسر جام مے جم جم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
رہے حرص و ہوا دائم عزیزو ساتھ جب اپنے
نہ کیونکر فکر بیش و کم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ظفرؔ سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں
جو غم سے فرصت اب اک دم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو |
Javed Akhtar | میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے، جاوید اختر غزلیں۔ | میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے
جس کا جواب چاہئے وہ کیا سوال ہے
گھر سے چلا تو دل کے سوا پاس کچھ نہ تھا
کیا مجھ سے کھو گیا ہے مجھے کیا ملال ہے
آسودگی سے دل کے سبھی داغ دھل گئے
لیکن وہ کیسے جائے جو شیشے میں بال ہے
بے دست و پا ہوں آج تو الزام کس کو دوں
کل میں نے ہی بنا تھا یہ میرا ہی جال ہے
پھر کوئی خواب دیکھوں کوئی آرزو کروں
اب اے دل تباہ ترا کیا خیال ہے |
Akbar Allahabadi | آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے، اکبر الہ آبادی غزلیں | آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے
خاطر سے تری یاد کو ٹلنے نہیں دیتے
سچ ہے کہ ہمیں دل کو سنبھلنے نہیں دیتے
کس ناز سے کہتے ہیں وہ جھنجھلا کے شب وصل
تم تو ہمیں کروٹ بھی بدلنے نہیں دیتے
پروانوں نے فانوس کو دیکھا تو یہ بولے
کیوں ہم کو جلاتے ہو کہ جلنے نہیں دیتے
حیران ہوں کس طرح کروں عرض تمنا
دشمن کو تو پہلو سے وہ ٹلنے نہیں دیتے
دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے
گرمئ محبت میں وہ ہیں آہ سے مانع
پنکھا نفس سرد کا جھلنے نہیں دیتے |
Jaun Eliya | نیا ایک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم، جون ایلیا غزلیں | نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم |
Waseem Barelvi | حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں وسیم بریلوی غزلیں | حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں
زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں
تم نے میرے گھر نہ آنے کی قسم کھائی تو ہے
آنسوؤں سے بھی کہو آنکھوں میں آنا چھوڑ دیں
پیار کے دشمن کبھی تو پیار سے کہہ کے تو دیکھ
ایک تیرا در ہی کیا ہم تو زمانہ چھوڑ دیں
گھونسلے ویران ہیں اب وہ پرندے ہی کہاں
اک بسیرے کے لئے جو آب و دانہ چھوڑ دیں |
Jigar Moradabadi | محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں، جگر مرادآبادی غزلیں | محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں
یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں
وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آ رہے ہیں
وہ از خود ہی نادم ہوئے جا رہے ہیں
خدا جانے کیا کیا خیال آ رہے ہیں
ہمارے ہی دل سے مزے ان کے پوچھو
وہ دھوکے جو دانستہ ہم کھا رہے ہیں
جفا کرنے والوں کو کیا ہو گیا ہے
وفا کر کے بھی ہم تو شرما رہے ہیں
وہ عالم ہے اب یارو اغیار کیسے
ہمیں اپنے دشمن ہوئے جا رہے ہیں
مزاج گرامی کی ہو خیر یارب
کئی دن سے اکثر وہ یاد آ رہے ہیں |
Mirza Ghalib | کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو مرزا غالب غزلیں۔ | کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
عارض گل دیکھ روئے یار یاد آیا اسدؔ
جوشش فصل بہاری اشتیاق انگیز ہے |
Allama Iqbal | گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر علامہ اقبال غزلیں | گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خذف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمۂ نوبہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر |
Jaan Nisar Akhtar | مانا کہ رنگ رنگ تیرا پیرہن بھی ہے، جاں نثار اختر غزلیں | مانا کہ رنگ رنگ ترا پیرہن بھی ہے
پر اس میں کچھ کرشمہ عکس بدن بھی ہے
عقل معاش و حکمت دنیا کے باوجود
ہم کو عزیز عشق کا دیوانہ پن بھی ہے
مطرب بھی تو ندیم بھی تو ساقیا بھی تو
تو جان انجمن ہی نہیں انجمن بھی ہے
بازو چھوا جو تو نے تو اس دن کھلا یہ راز
تو صرف رنگ و بو ہی نہیں ہے بدن بھی ہے
یہ دور کس طرح سے کٹے گا پہاڑ سا
یارو بتاؤ ہم میں کوئی کوہ کن بھی ہے |
Firaq GorakhPuri | آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں فراق گورکھپوری غزلیں | آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں
اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں
بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام
بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں
فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے
تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں
ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی
بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں
راہ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی
پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں
دل کے افق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری
لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں
اے نرگس سیاہ بتا دے ترے نثار
کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں
نیرنگ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ
یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں
بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز
در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں
فرق آ گیا تھا دور حیات و ممات میں
آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں
جیسے فنا بقا میں بھی کوئی کمی سی ہو
مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں
دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی
تیرے لئے اٹھائی ندامت کہاں کہاں
اب امتیاز عشق و ہوس بھی نہیں رہا
ہوتی ہے تیری چشم عنایت کہاں کہاں
ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی
اس راہ میں کھلے در رحمت کہاں کہاں
ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ
ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں |
Mohsin Naqvi | کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا، میں اکیلا، محسن نقوی غزلیں | کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا میں اکیلا
بھرا اب بھی مرے گاؤں کا میلہ میں اکیلا
بچھڑ کر تجھ سے میں شب بھر نہ سویا کون رویا
بجز میرے یہ دکھ بھی کس نے جھیلا میں اکیلا
یہ بے آواز بنجر بن کے باسی یہ اداسی
یہ دہشت کا سفر جنگل یہ بیلہ میں اکیلا
میں دیکھوں کب تلک منظر سہانے سب پرانے
وہی دنیا وہی دل کا جھمیلا میں اکیلا
وہ جس کے خوف سے صحرا سدھارے لوگ سارے
گزرنے کو ہے طوفاں کا وہ ریلا میں اکیلا |
Waseem Barelvi | وہ میرے گھر نہیں آتا، میں اس کے گھر نہیں جاتا، وسیم بریلوی غزلیں | وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا
مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا
برے اچھے ہوں جیسے بھی ہوں سب رشتے یہیں کے ہیں
کسی کو ساتھ دنیا سے کوئی لے کر نہیں جاتا
گھروں کی تربیت کیا آ گئی ٹی وی کے ہاتھوں میں
کوئی بچہ اب اپنے باپ کے اوپر نہیں جاتا
کھلے تھے شہر میں سو در مگر اک حد کے اندر ہی
کہاں جاتا اگر میں لوٹ کے پھر گھر نہیں جاتا
محبت کے یہ آنسو ہیں انہیں آنکھوں میں رہنے دو
شریفوں کے گھروں کا مسئلہ باہر نہیں جاتا
وسیمؔ اس سے کہو دنیا بہت محدود ہے میری
کسی در کا جو ہو جائے وہ پھر در در نہیں جاتا |
Jaan Nisar Akhtar | جسم کی ہر بات ہے آوارگی، یہ مت کہو جان نثار اختر غزلیں | جسم کی ہر بات ہے آوارگی یہ مت کہو
ہم بھی کر سکتے ہیں ایسی شاعری یہ مت کہو
اس نظر کی اس بدن کی گنگناہٹ تو سنو
ایک سی ہوتی ہے ہر اک راگنی یہ مت کہو
ہم سے دیوانوں کے بن دنیا سنورتی کس طرح
عقل کے آگے ہے کیا دیوانگی یہ مت کہو
کٹ سکی ہیں آج تک سونے کی زنجیریں کہاں
ہم بھی اب آزاد ہیں یارو ابھی یہ مت کہو
پاؤں اتنے تیز ہیں اٹھتے نظر آتے نہیں
آج تھک کر رہ گیا ہے آدمی یہ مت کہو
جتنے وعدے کل تھے اتنے آج بھی موجود ہیں
ان کے وعدوں میں ہوئی ہے کچھ کمی یہ مت کہو
دل میں اپنے درد کی چھٹکی ہوئی ہے چاندنی
ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تیرگی یہ مت کہو |
Mohsin Naqvi | ہم جو پہنچے سرِ مقتل تو یہ منظر دیکھا، محسن نقوی غزلیں | ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر نوک سناں پر دیکھا
ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آ کر دیکھا
ایسے لپٹے ہیں در و بام سے اب کے جیسے
حادثوں نے بڑی مدت میں مرا گھر دیکھا
اب یہ سوچا ہے کہ اوروں کا کہا مانیں گے
اپنی آنکھوں پہ بھروسا تو بہت کر دیکھا
ایک اک پل میں اترتا رہا صدیوں کا عذاب
ہجر کی رات گزاری ہے کہ محشر دیکھا
مجھ سے مت پوچھ مری تشنہ لبی کے تیور
ریت چمکی تو یہ سمجھو کہ سمندر دیکھا
دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا |
Altaf Hussain Hali | خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم الطاف حسین حالی غزلیں | خوبیاں اپنے میں گو بے انتہا پاتے ہیں ہم
پر ہر اک خوبی میں داغ اک عیب کا پاتے ہیں ہم
خوف کا کوئی نشاں ظاہر نہیں افعال میں
گو کہ دل میں متصل خوف خدا پاتے ہیں ہم
کرتے ہیں طاعت تو کچھ خواہاں نمائش کے نہیں
پر گنہ چھپ چھپ کے کرنے میں مزا پاتے ہیں ہم
دیدہ و دل کو خیانت سے نہیں رکھ سکتے باز
گرچہ دست و پا کو اکثر بے خطا پاتے ہیں ہم
دل میں درد عشق نے مدت سے کر رکھا ہے گھر
پر اسے آلودۂ حرص و ہوا پاتے ہیں ہم
ہو کے نادم جرم سے پھر جرم کرتے ہیں وہی
جرم سے گو آپ کو نادم سدا پاتے ہیں ہم
ہیں فدا ان دوستوں پر جن میں ہو صدق و صفا
پر بہت کم آپ میں صدق و صفا پاتے ہیں ہم
گو کسی کو آپ سے ہونے نہیں دیتے خفا
اک جہاں سے آپ کو لیکن خفا پاتے ہیں ہم
جانتے اپنے سوا سب کو ہیں بے مہر و وفا
اپنے میں گر شمۂ مہر و وفا پاتے ہیں ہم
بخل سے منسوب کرتے ہیں زمانہ کو سدا
گر کبھی توفیق ایثار و عطا پاتے ہیں ہم
ہو اگر مقصد میں ناکامی تو کر سکتے ہیں صبر
درد خودکامی کو لیکن بے دوا پاتے ہیں ہم
ٹھہرتے جاتے ہیں جتنے چشم عالم میں بھلے
حال نفس دوں کا اتنا ہی برا پاتے ہیں ہم
جس قدر جھک جھک کے ملتے ہیں بزرگ و خورد سے
کبر و ناز اتنا ہی اپنے میں سوا پاتے ہیں ہم
گو بھلائی کرکے ہم جنسوں سے خوش ہوتا ہے جی
تہہ نشیں اس میں مگر درد ریا پاتے ہیں ہم
ہے ردائے نیک نامی دوش پر اپنے مگر
داغ رسوائی کے کچھ زیر ردا پاتے ہیں ہم
راہ کے طالب ہیں پر بے راہ پڑتے ہیں قدم
دیکھیے کیا ڈھونڈھتے ہیں اور کیا پاتے ہیں ہم
نور کے ہم نے گلے دیکھے ہیں اے حالیؔ مگر
رنگ کچھ تیری الاپوں میں نیا پاتے ہیں ہم |
Javed Akhtar | پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی جاوید اختر غزلیں | پیاس کی کیسے لائے تاب کوئی
نہیں دریا تو ہو سراب کوئی
زخم دل میں جہاں مہکتا ہے
اسی کیاری میں تھا گلاب کوئی
رات بجتی تھی دور شہنائی
رویا پی کر بہت شراب کوئی
دل کو گھیرے ہیں روزگار کے غم
ردی میں کھو گئی کتاب کوئی
کون سا زخم کس نے بخشا ہے
اس کا رکھے کہاں حساب کوئی
پھر میں سننے لگا ہوں اس دل کی
آنے والا ہے پھر عذاب کوئی
شب کی دہلیز پر شفق ہے لہو
پھر ہوا قتل آفتاب کوئی |
Mirza Ghalib | ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے، مرزا غالب غزلیں | ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں ولے ان کی تمنا نہیں کرتے
در پردہ انہیں غیر سے ہے ربط نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردا نہیں کرتے
یہ باعث نومیدی ارباب ہوس ہے
غالبؔ کو برا کہتے ہیں اچھا نہیں کرتے |
Gulzar | کہیں تو گرد اُڑے یا کہیں گبار دکھے، گلزار غزلیں | کہیں تو گرد اڑے یا کہیں غبار دکھے
کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دکھے
خفا تھی شاخ سے شاید کہ جب ہوا گزری
زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دکھے
رواں ہیں پھر بھی رکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے
بڑے اداس لگے جب بھی آبشار دکھے
کبھی تو چونک کے دیکھے کوئی ہماری طرف
کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دکھے
کوئی طلسمی صفت تھی جو اس ہجوم میں وہ
ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دکھے |
Allama Iqbal | عقل گو آستان سے دور نہیں علامہ اقبال غزلیں | عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
اک جنوں ہے کہ با شعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ با شعور نہیں
ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں
ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادۂ ظہور نہیں
ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں |
Waseem Barelvi | کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو وسیم بریلوی غزلیں | کچھ اتنا خوف کا مارا ہوا بھی پیار نہ ہو
وہ اعتبار دلائے اور اعتبار نہ ہو
ہوا خلاف ہو موجوں پہ اختیار نہ ہو
یہ کیسی ضد ہے کہ دریا کسی سے پار نہ ہو
میں گاؤں لوٹ رہا ہوں بہت دنوں کے بعد
خدا کرے کہ اسے میرا انتظار نہ ہو
ذرا سی بات پہ گھٹ گھٹ کے صبح کر دینا
مری طرح بھی کوئی میرا غم گسار نہ ہو
دکھی سماج میں آنسو بھرے زمانے میں
اسے یہ کون بتائے کہ اشک بار نہ ہو
گناہ گاروں پہ انگلی اٹھائے دیتے ہو
وسیمؔ آج کہیں تم بھی سنگسار نہ ہو |
Javed Akhtar | یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب جاوید اختر غزلیں | یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب
میں اکیلا ہی نہیں برباد سب
سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی
اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب
بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں
میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب
سب کو دعوائے وفا سب کو یقیں
اس اداکاری میں ہیں استاد سب
شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے
قید میں کہلائیں گے آزاد سب
چار لفظوں میں کہو جو بھی کہو
اس کو کب فرصت سنے فریاد سب
تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں
ہم پہ جو گزری ہمیں ہے یاد سب |
Ameer Khusrau | ذہ حالِ مسکین مکن تغافل، دورائے نیناں بنائے بتیاں، امیر خسرو غزلیں | زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ
سپیت من کے دورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں |
Jigar Moradabadi | عشق کو بے نقاب ہونا تھا جگر مرادآبادی غزلیں | عشق کو بے نقاب ہونا تھا
آپ اپنا جواب ہونا تھا
مست جام شراب ہونا تھا
بے خود اضطراب ہونا تھا
تیری آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
ہاں مجھی کو خراب ہونا تھا
آؤ مل جاؤ مسکرا کے گلے
ہو چکا جو عتاب ہونا تھا
کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
مست جام شراب خاک ہوتے
غرق جام شراب ہونا تھا
دل کہ جس پر ہیں نقش رنگارنگ
اس کو سادہ کتاب ہونا تھا
ہم نے ناکامیوں کو ڈھونڈ لیا
آخرش کامیاب ہونا تھا
ہائے وہ لمحۂ سکوں کہ جسے
محشر اضطراب ہونا تھا
نگۂ یار خود تڑپ اٹھتی
شرط اول خراب ہونا تھا
کیوں نہ ہوتا ستم بھی بے پایاں
کرم بے حساب ہونا تھا
کیوں نظر حیرتوں میں ڈوب گئی
موج صد اضطراب ہونا تھا
ہو چکا روز اولیں ہی جگرؔ
جس کو جتنا خراب ہونا تھا |
Dagh Dehlvi | لے چلا جان میری روٹھ کے جانا تیرا داغ دہلوی غزلیں | لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا
اپنے دل کو بھی بتاؤں نہ ٹھکانا تیرا
سب نے جانا جو پتا ایک نے جانا تیرا
تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے
کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا
آرزو ہی نہ رہی صبح وطن کی مجھ کو
شام غربت ہے عجب وقت سہانا تیرا
یہ سمجھ کر تجھے اے موت لگا رکھا ہے
کام آتا ہے برے وقت میں آنا تیرا
اے دل شیفتہ میں آگ لگانے والے
رنگ لایا ہے یہ لاکھے کا جمانا تیرا
تو خدا تو نہیں اے ناصح ناداں میرا
کیا خطا کی جو کہا میں نے نہ مانا تیرا
رنج کیا وصل عدو کا جو تعلق ہی نہیں
مجھ کو واللہ ہنساتا ہے رلانا تیرا
کعبہ و دیر میں یا چشم و دل عاشق میں
انہیں دو چار گھروں میں ہے ٹھکانا تیرا
ترک عادت سے مجھے نیند نہیں آنے کی
کہیں نیچا نہ ہو اے گور سرہانا تیرا
میں جو کہتا ہوں اٹھائے ہیں بہت رنج فراق
وہ یہ کہتے ہیں بڑا دل ہے توانا تیرا
بزم دشمن سے تجھے کون اٹھا سکتا ہے
اک قیامت کا اٹھانا ہے اٹھانا تیرا
اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی
ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا
یوں تو کیا آئے گا تو فرط نزاکت سے یہاں
سخت دشوار ہے دھوکے میں بھی آنا تیرا
داغؔ کو یوں وہ مٹاتے ہیں یہ فرماتے ہیں
تو بدل ڈال ہوا نام پرانا تیرا |
Sahir Ludhianvi | اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے، ساحر لدھیانوی غزلیں | اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزاد ہے
روح گنگا کی ہمالہ کا بدن آزاد ہے
کھیتیاں سونا اگائیں وادیاں موتی لٹائیں
آج گوتم کی زمیں تلسی کا بن آزاد ہے
مندروں میں سنکھ باجے مسجدوں میں ہو اذاں
شیخ کا دھرم اور دین برہمن آزاد ہے
لوٹ کیسی بھی ہو اب اس دیش میں رہنے نہ پائے
آج سب کے واسطے دھرتی کا دھن آزاد ہے |
Mohsin Naqvi | ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں، محسن نقوی غزلیں | ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں
طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں
یہ دشت شب میں ستاروں کی ہم سفر آنکھیں
ستم یہ کم تو نہیں دل گرفتگی کے لئے
میں شہر بھر میں اکیلا ادھر ادھر آنکھیں
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں
میں زخم زخم ہوا جب تو مجھ پہ بھید کھلا
کہ پتھروں کو سمجھتی رہیں گہر آنکھیں
میں اپنے اشک سنبھالوں گا کب تلک محسنؔ
زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں |
Akbar Allahabadi | رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی، اکبر الہ آبادی غزلیں | رنگ شراب سے مری نیت بدل گئی
واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی
طیار تھے نماز پہ ہم سن کے ذکر حور
جلوہ بتوں کا دیکھ کے نیت بدل گئی
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے لقمے پہ شاد ہے
صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
چمکا ترا جمال جو محفل میں وقت شام
پروانہ بیقرار ہوا شمع جل گئی
عقبیٰ کی باز پرس کا جاتا رہا خیال
دنیا کی لذتوں میں طبیعت بہل گئی
حسرت بہت ترقیٔ دختر کی تھی انہیں
پردہ جو اٹھ گیا تو وہ آخر نکل گئی |
Bahadur Shah Zafar | اتنا نہ اپنے جام سے باہر نکل کے چل، بہادر شاہ ظفر غزلیں | اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ
مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل
فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ
اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل
یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما
سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے چل
اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل
بل ہے تو بل کے بل پہ تو کچھ اپنے بل کے چل
انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ
اور آپ ہی وہ کہتا ہے پتلے کو کل کے چل
پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کہ رکھ دیکھ کر قدم
کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل چل سنبھل کے چل
ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂ عدم
آنکھوں کے روبرو سے تو لوگوں کے ٹل کے چل
کیا چل سکے گا ہم سے کہ پہچانتے ہیں ہم
تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کے چل
ہے شمع سر کے بل جو محبت میں گرم ہو
پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کے چل
بلبل کے ہوش نکہت گل کی طرح اڑا
گلشن میں میرے ساتھ ذرا عطر مل کے چل
گر قصد سوئے دل ہے ترا اے نگاہ یار
دو چار تیر پیک سے آگے اجل کے چل
جو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ
تو کہہ دو اس کو طور پہ تو اس غزل کے چل |
Ahmad Faraz | دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں احمد فراز غزلیں | دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
آج تک اپنی بیکلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
بے طرح حال دل ہے اور تجھ سے
دوستانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
ایک تو حرف آشنا تھا مگر
اب زمانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
قاصدا ہم فقیر لوگوں کا
اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
اے خدا درد دل ہے بخشش دوست
آب و دانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
اب تو اپنا بھی اس گلی میں فرازؔ
آنا جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں |
Jaan Nisar Akhtar | آج مدت میں وہ یاد آئے ہیں، جاں نثار اختر غزلیں | آج مدت میں وہ یاد آئے ہیں
در و دیوار پہ کچھ سائے ہیں
آبگینوں سے نہ ٹکرا پائے
کوہساروں سے تو ٹکرائے ہیں
زندگی تیرے حوادث ہم کو
کچھ نہ کچھ راہ پہ لے آئے ہیں
سنگ ریزوں سے خزف پاروں سے
کتنے ہیرے کبھی چن لائے ہیں
اتنے مایوس تو حالات نہیں
لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں
ان کی جانب نہ کسی نے دیکھا
جو ہمیں دیکھ کے شرمائے ہیں |
Mirza Ghalib | تو دوست کسو کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا مرزا غالب غزلیں | تو دوست کسو کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا
چھوڑا مہ نخشب کی طرح دست قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق باندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل آرزدگئ یار سے خوش ہوں
یعنی سبق شوق مکرر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
جاری تھی اسدؔ داغ جگر سے مری تحصیل
آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا |
Bahadur Shah Zafar | کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی، بہادر شاہ ظفر غزلیں | کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی
پر حیف ترے دل میں محبت نہ ذری دی
دی تو نے مجھے سلطنت بحر و بر اے عشق
ہونٹوں کو جو خشکی مری آنکھوں کو تری دی
خال لب شیریں کا دیا بوسہ کب اس نے
اک چاٹ لگانے کو مرے نیشکری دی
کافر ترے سوائے سر زلف نے مجھ کو
کیا کیا نہ پریشانی و آشفتہ سری دی
محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو
بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی
صیاد نے دی رخصت پرواز پر افسوس
تو نے نہ اجازت مجھے بے بال و پری دی
کہتا ترا کچھ سوختہ جاں لیک اجل نے
فرصت نہ اسے مثل چراغ سحری دی
قسام ازل نے نہ رکھا ہم کو بھی محروم
گرچہ نہ دیا کوئی ہنر بے ہنری دی
اس چشم میں ہے سرمے کا دنبالہ پر آشوب
کیوں ہاتھ میں بدمست کے بندوق بھری دی
دل دے کے کیا ہم نے تری زلف کا سودا
اک آپ بلا اپنے لیے مول خریدی
ساقی نے دیا کیا مجھے اک ساغر سرشار
گویا کہ دو عالم سے ظفرؔ بے خبری دی |
Meer Taqi Meer | میر تقی میر کی غزلیں 82 | آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
ابھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد
جینا مرا تو تجھ کو غنیمت ہے نا سمجھ
کھینچے گا کون پھر یہ ترے ناز میرے بعد
شمع مزار اور یہ سوز جگر مرا
ہر شب کریں گے زندگی ناساز میرے بعد
حسرت ہے اس کے دیکھنے کی دل میں بے قیاس
اغلب کہ میری آنکھیں رہیں باز میرے بعد
کرتا ہوں میں جو نالے سرانجام باغ میں
منہ دیکھو پھر کریں گے ہم آواز میرے بعد
بن گل موا ہی میں تو پہ تو جا کے لوٹیو
صحن چمن میں اے پر پرواز میرے بعد
بیٹھا ہوں میرؔ مرنے کو اپنے میں مستعد
پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جانباز میرے بعد |
Bahadur Shah Zafar | تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے، بہادر شاہ ظفر غزلیں۔ | تفتہ جانوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے
عشق کی آتش بلا ہے اس کی سوزش اور ہے
کیوں نہ وحشت میں چبھے ہر مو بشکل نیش تیز
خار غم کی تیرے دیوانے کی کاوش اور ہے
مطربو باساز آؤ تم ہماری بزم میں
ساز و ساماں سے تمہاری اتنی سازش اور ہے
تھوکتا بھی دختر رز پر نہیں مست الست
جو کہ ہے اس فاحشہ پر غش وہ فاحش اور ہے
تاب کیا ہمتاب ہووے اس سے خورشید فلک
آفتاب داغ دل کی اپنے تابش اور ہے
سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کہ اس میں خواہشیں
گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اور ہے
ابر مت ہم چشم ہونا چشم دریا بار سے
تیری بارش اور ہے اور اس کی بارش اور ہے
ہے تو گردش چرخ کی بھی فتنہ انگیزی میں طاق
تیری چشم فتنہ زا کی لیک گردش اور ہے
بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ
کیا کہوں تجھ سے کہ وہ طرز پرستش اور ہے |
Mirza Ghalib | دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا، مرزا غالب غزلیں | دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا
سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دل گزر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر منزل تقوی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا
کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا
مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ
ناتوانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا
نہ ہوئی ہم سے رقم حیرت خط رخ یار
صفحۂ آئنہ جولاں گہ طوطی نہ ہوا
وسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوے
مجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوا |
Waseem Barelvi | لہو نہ ہو تو قلم ترجمان نہیں ہوتا، وسیم بریلوی غزلیں | لہو نہ ہو تو قلم ترجماں نہیں ہوتا
ہمارے دور میں آنسو زباں نہیں ہوتا
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی
کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا
بس اک نگاہ مری راہ دیکھتی ہوتی
یہ سارا شہر مرا میزباں نہیں ہوتا
ترا خیال نہ ہوتا تو کون سمجھاتا
زمیں نہ ہو تو کوئی آسماں نہیں ہوتا
میں اس کو بھول گیا ہوں یہ کون مانے گا
کسی چراغ کے بس میں دھواں نہیں ہوتا
وسیمؔ صدیوں کی آنکھوں سے دیکھیے مجھ کو
وہ لفظ ہوں جو کبھی داستاں نہیں ہوتا |
Javed Akhtar | بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے جاوید اختر غزلیں | بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے
مگر یہ تو مری منزل نہیں ہے
یہ تودہ ریت کا ہے بیچ دریا
یہ بہہ جائے گا یہ ساحل نہیں ہے
بہت آسان ہے پہچان اس کی
اگر دکھتا نہیں تو دل نہیں ہے
مسافر وہ عجب ہے کارواں میں
کہ جو ہم راہ ہے شامل نہیں ہے
بس اک مقتول ہی مقتول کب ہے
بس اک قاتل ہی تو قاتل نہیں ہے
کبھی تو رات کو تم رات کہہ دو
یہ کام اتنا بھی اب مشکل نہیں ہے |
Mirza Ghalib | رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو مرزا غالب غزلیں | رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہمزباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو |
Bahadur Shah Zafar | نہ دو دشنام ہم کو، اتنی بدخوئی سے کیا حاصل؟ بہادر شاہ ظفر غزلیں | نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل
تمہیں دینا ہی ہوگا بوسہ خم روئی سے کیا حاصل
دل آزاری نے تیری کر دیا بالکل مجھے بیدل
نہ کر اب میری دل جوئی کہ دل جوئی سے کیا حاصل
نہ جب تک چاک ہو دل پھانس کب دل کی نکلتی ہے
جہاں ہو کام خنجر کا وہاں سوئی سے کیا حاصل
برائی یا بھلائی گو ہے اپنے واسطے لیکن
کسی کو کیوں کہیں ہم بد کہ بد گوئی سے کیا حاصل
نہ کر فکر خضاب اے شیخ تو پیری میں جانے دے
جواں ہونا نہیں ممکن سیہ روئی سے کیا حاصل
چڑھائے آستیں خنجر بکف وہ یوں جو پھرتا ہے
اسے کیا جانے ہے اس عربدہ جوئی سے کیا حاصل
عبث پنبہ نہ رکھ داغ دل سوزاں پہ تو میرے
کہ انگارے پہ ہوگا چارہ گر روئی سے کیا حاصل
شمیم زلف ہو اس کی تو ہو فرحت مرے دل کو
صبا ہووے گا مشک چیں کی خوشبوئی سے کیا حاصل
نہ ہووے جب تلک انساں کو دل سے میل یک جانب
ظفرؔ لوگوں کے دکھلانے کو یکسوئی سے کیا حاصل |
Sahir Ludhianvi | اہل دل اور بھی ہیں، اہل وفا اور بھی ہیں، ساحر لدھیانوی غزلیں | اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں
ہم پہ ہی ختم نہیں مسلک شوریدہ سری
چاک دل اور بھی ہیں چاک قبا اور بھی ہیں
کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں
میرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں
سر سلامت ہے تو کیا سنگ ملامت کی کمی
جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں
منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں |
Allama Iqbal | خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل علامہ اقبال غزلیں | خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
فریب خوردۂ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل |
Nazm Tabatabai | صبح ہے زنار کیوں کیسی کہی نظم تباہی غزلیں | سبحہ ہے زنار کیوں کیسی کہی
زاہد عیار کیوں کیسی کہی
کٹ گئے اغیار کیوں کیسی کہی
چھا گئی ہر بار کیوں کیسی کہی
ہیں یہ سب اقرار جھوٹے یا نہیں
کیجئے اقرار کیوں کیسی کہی
روٹھنے سے آپ کا مطلب یہ ہے
اس کو آئے پیار کیوں کیسی کہی
کہہ دیا میں نے سحر ہے جھوٹ موٹ
ہو گئے بیدار کیوں کیسی کہی
ایک تو کہتے ہیں صدہا بھپتیاں
اور پھر اصرار کیوں کیسی کہی
ناصحا یہ بحث دیوانوں کے ساتھ
عقل کی ہے مار کیوں کیسی کہی
یا خفا تھے یا ذرا سی بات پر
ہو گئی بوچھار کیوں کیسی کہی
مجھ سے بیعت کر لے تو بھی واعظا
ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی
سرمہ دے کر دل کے لینے کا ہے قصد
آنکھ تو کر چار کیوں کیسی کہی
جان دے دے چل کے در پر یار کے
او دل بیمار کیوں کیسی کہی
کیا ہی بگڑے ہو پتے کی بات پر
ہو گئے بیزار کیوں کیسی کہی
اب تو حیدرؔ اور ہی کچھ رنگ ہیں
مانتا ہوں یار کیوں کیسی کہی |
Firaq GorakhPuri | کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے، فراق گورکھپوری غزلیں | کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے
اس کا الزام تغافل پہ کچھ انکار تو ہے
ہر فریب غم دنیا سے خبردار تو ہے
تیرا دیوانہ کسی کام میں ہشیار تو ہے
دیکھ لیتے ہیں سبھی کچھ ترے مشتاق جمال
خیر دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے
معرکے سر ہوں اسی برق نظر سے اے حسن
یہ چمکتی ہوئی چلتی ہوئی تلوار تو ہے
سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رک رک کر
تیرے وحشی کو خیال در و دیوار تو ہے
عشق کا شکوۂ بے جا بھی نہ بے کار گیا
نہ سہی جور مگر جور کا اقرار تو ہے
تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی
خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے
اس میں بھی رابطۂ خاص کی ملتی ہے جھلک
خیر اقرار محبت نہ ہو انکار تو ہے
کیوں جھپک جاتی ہے رہ رہ کے تری برق نگاہ
یہ جھجک کس لئے اک کشتۂ دیدار تو ہے
کئی عنوان ہیں ممنون کرم کرنے کے
عشق میں کچھ نہ سہی زندگی بیکار تو ہے
سحر و شام سر انجمن ناز نہ ہو
جلوۂ حسن تو ہے عشق سیہ کار تو ہے
چونک اٹھتے ہیں فراقؔ آتے ہی اس شوخ کا نام
کچھ سراسیمگیٔ عشق کا اقرار تو ہے |
Akbar Allahabadi | انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف، اکبر الہ آبادی غزلیں | انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف
نظر اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
توجہ اپنی ہو کیا فن شاعری کی طرف
نظر ہر ایک کی جاتی ہے عیب ہی کی طرف
لکھا ہوا ہے جو رونا مرے مقدر میں
خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف
تمہارا سایہ بھی جو لوگ دیکھ لیتے ہیں
وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے پری کی طرف
بلا میں پھنستا ہے دل مفت جان جاتی ہے
خدا کسی کو نہ لے جائے اس گلی کی طرف
کبھی جو ہوتی ہے تکرار غیر سے ہم سے
تو دل سے ہوتے ہو در پردہ تم اسی کی طرف
نگاہ پڑتی ہے ان پر تمام محفل کی
وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
نگاہ اس بت خود بیں کی ہے مرے دل پر
نہ آئنہ کی طرف ہے نہ آرسی کی طرف
قبول کیجیئے للہ تحفۂ دل کو
نظر نہ کیجیئے اس کی شکستگی کی طرف
یہی نظر ہے جو اب قاتل زمانہ ہوئی
یہی نظر ہے کہ اٹھتی نہ تھی کسی کی طرف
غریب خانہ میں للٰلہ دو گھڑی بیٹھو
بہت دنوں میں تم آئے ہو اس گلی کی طرف
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف
جو گھر میں پوچھے کوئی خوف کیا ہے کہہ دینا
چلے گئے تھے ٹہلتے ہوئے کسی کی طرف
ہزار جلوۂ حسن بتاں ہو اے اکبرؔ
تم اپنا دھیان لگائے رہو اسی کی طرف |
Mirza Ghalib | ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے مرزا غالب غزلیں | ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
درس عنوان تماشا بہ تغافل خوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
وحشت آتش دل سے شب تنہائی میں
صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے
غم عشاق نہ ہو سادگی آموز بتاں
کس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے
اثر آبلہ سے جادۂ صحرائے جنوں
صورت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے
بے خودی بستر تمہید فراغت ہو جو
پر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے
شوق دیدار میں گر تو مجھے گردن مارے
ہو نگہ مثل گل شمع پریشاں مجھ سے
بیکسی ہائے شب ہجر کی وحشت ہے ہے
سایہ خورشید قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے
گردش ساغر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئنہ داریٔ یک دیدۂ حیراں مجھ سے
نگہ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے اسدؔ
ہے چراغاں خس و خاشاک گلستاں مجھ سے
بستن عہد محبت ہمہ نادانی تھا
چشم نکشودہ رہا عقدۂ پیماں مجھ سے
آتش افروزی یک شعلۂ ایما تجھ سے
چشمک آرائی صد شہر چراغاں مجھ سے |
Jaun Eliya | کام کی بات میں نے کی ہی نہیں، جون ایلیا غزلیں۔ | کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ مرا طور زندگی ہی نہیں
اے امید اے امید نو میداں
مجھ سے میت تری اٹھی ہی نہیں
میں جو تھا اس گلی کا مست خرام
اس گلی میں مری چلی ہی نہیں
یہ سنا ہے کہ میرے کوچ کے بعد
اس کی خوشبو کہیں بسی ہی نہیں
تھی جو اک فاختہ اداس اداس
صبح وہ شاخ سے اڑی ہی نہیں
مجھ میں اب میرا جی نہیں لگتا
اور ستم یہ کہ میرا جی ہی نہیں
وہ جو رہتی تھی دل محلے میں
پھر وہ لڑکی مجھے ملی ہی نہیں
جائیے اور خاک اڑائیے آپ
اب وہ گھر کیا کہ وہ گلی ہی نہیں
ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی
ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں |
Sahir Ludhianvi | اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں، ساحر لدھیانوی غزلیں | اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا تجھے کیا پیش کروں
تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں
یا ترے درد جدائی کا گلا پیش کروں
میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو
کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں
جو ترے دل کو لبھائے وہ ادا مجھ میں نہیں
کیوں نہ تجھ کو کوئی تیری ہی ادا پیش کروں |
Ahmad Faraz | ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں احمد فراز کی غزلیں | ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں
یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے
ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
یہ کون ہے سر ساحل کہ ڈوبنے والے
سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں
ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اس کی خیر خبر
چلو فرازؔ کو اے یار چل کے دیکھتے ہیں |
Jaan Nisar Akhtar | مدت ہوئی اس جانِ حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا، جان نثار اختر غزلیں | مدت ہوئی اس جان حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا
جتنے بھی بد نام ہوئے ہم اتنا اس نے پیار کیا
پہلے بھی خوش چشموں میں ہم چوکنا سے رہتے تھے
تیری سوئی آنکھوں نے تو اور ہمیں ہوشیار کیا
جاتے جاتے کوئی ہم سے اچھے رہنا کہہ تو گیا
پوچھے لیکن پوچھنے والے کس نے یہ بیمار کیا
قطرہ قطرہ صرف ہوا ہے عشق میں اپنے دل کا لہو
شکل دکھائی تب اس نے جب آنکھوں کو خوں بار کیا
ہم پر کتنی بار پڑے یہ دورے بھی تنہائی کے
جو بھی ہم سے ملنے آیا ملنے سے انکار کیا
عشق میں کیا نقصان نفع ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے ساری عمر ہی یارو دل کا کاروبار کیا
محفل پر جب نیند سی چھائی سب کے سب خاموش ہوئے
ہم نے تب کچھ شعر سنایا لوگوں کو بے دار کیا
اب تم سوچو اب تم جانو جو چاہو اب رنگ بھرو
ہم نے تو اک نقشہ کھینچا اک خاکہ تیار کیا
دیش سے جب پردیش سدھارے ہم پر یہ بھی وقت پڑا
نظمیں چھوڑی غزلیں چھوڑی گیتوں کا بیوپار کیا |
Mirza Ghalib | لب خشک در تشنگی مردگان کا مرزا غالب غزلیں | لب خشک در تشنگی مردگاں کا
زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا
ہمہ ناامیدی ہمہ بد گمانی
میں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کا
شگفتن کمیں گاۂ تقریب جوئی
تصور ہوں بے موجب آزردگاں کا
غریب ستم دیدۂ باز گشتن
سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا
سراپا یک آئینہ دار شکستن
ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا
بہ صورت تکلف بہ معنی تأسف
اسدؔ میں تبسم ہوں پژمردگاں کا |
Mirza Ghalib | اگر تجھ کو ہے یقینِ اجابت، دعا نہ مانگ، مرزا غالب غزلیں | گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
اے آرزو شہید وفا خوں بہا نہ مانگ
جز بہر دست و بازوئے قاتل دعا نہ مانگ
برہم ہے بزم غنچہ بہ یک جنبش نشاط
کاشانہ بسکہ تنگ ہے غافل ہوا نہ مانگ
میں دور گرد عرض رسوم نیاز ہوں
دشمن سمجھ ولے نگۂ آشنا نہ مانگ
یک بخت اوج نذر سبک باری اسدؔ
سر پر وبال سایۂ بال ہما نہ مانگ
گستاخیٔ وصال ہے مشاطۂ نیاز
یعنی دعا بجز خم زلف دوتا نہ مانگ
عیسیٰ طلسم حسن تغافل ہے زینہار
جز پشت چشم نسخہ عرض دوا نہ مانگ
نظارۂ دیگر و دل خونیں نفس دگر
آئینہ دیکھ جوہر برگ دعا نمانگ |
Faiz Ahmad Faiz | کچھ پہلے ان آنکھوں کے آگے کیا کیا نہ نظارہ گزرے تھا، فیض احمد فیض غزلیں۔ | کچھ پہلے ان آنکھوں آگے کیا کیا نہ نظارا گزرے تھا
کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا
تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
اب کے خزاں ایسی ٹھہری وہ سارے زمانے بھول گئے
جب موسم گل ہر پھیرے میں آ آ کے دوبارا گزرے تھا
تھی یاروں کی بہتات تو ہم اغیار سے بھی بیزار نہ تھے
جب مل بیٹھے تو دشمن کا بھی ساتھ گوارا گزرے تھا
اب تو ہاتھ سجھائی نہ دیوے لیکن اب سے پہلے تو
آنکھ اٹھتے ہی ایک نظر میں عالم سارا گزرے تھا |
Meer Taqi Meer | آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں میر تقی میر غزلیں | آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسان شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
حاصل ہے کیا سواے ترائی کے دہر میں
اٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں
مائل بہ غیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے
تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں
ہم رہروان راہ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسان صبح کوئی دم بہت ہے یاں
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورت آدم بہت ہے یاں
عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں
ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں
اعجاز عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جان مجسم بہت ہے یاں
میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں
دل مت لگا رخ عرق آلود یار سے
آئینے کو اٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں
شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں |
Waseem Barelvi | آتے آتے میرا نام سا رہ گیا وسیم بریلوی غزلیں | آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا
رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا
وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا
جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا
آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا
اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا |
Jaun Eliya | شرمندگی ہے ہم کو بہت، ہم ملے تمہیں جون ایلیا غزلیں | شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
تم سر بہ سر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں
تم کو جہان شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
اب اپنے طور ہی میں نہیں تم سو کاش کہ
خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں
اس شہر حیلہ جو میں جو محرم ملے مجھے
فریاد جان جاں وہی محرم ملے تمہیں
دیتا ہوں تم کو خشکئ مژگاں کی میں دعا
مطلب یہ ہے کہ دامن پر نم ملے تمہیں
میں ان میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا
جاناں جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں
تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
شرمندہ ہیں کہ اس میں بہت خم ملے تمہیں
یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے
ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں |
Bahadur Shah Zafar | دیکھو انسان خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے، بہادر شاہ ظفر غزلیں | دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے
بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے
روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہے
اس نگہ کے سامنے تیر قضا کیا چیز ہے
یوں تو ہیں سارے بتاں غارتگر ایمان و دیں
ایک وہ کافر صنم نام خدا کیا چیز ہے
جس نے دل میرا دیا دام محبت میں پھنسا
وہ نہیں معلوم مج کو ناصحا کیا چیز ہے
ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب
خضر پھر تو چشمۂ آب بقا کیا چیز ہے
مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج
عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے
دل مرا بیٹھا ہے لے کر پھر مجھی سے وہ نگار
پوچھتا ہے ہاتھ میں میرے بتا کیا چیز ہے
خاک سے پیدا ہوئے ہیں دیکھ رنگا رنگ گل
ہے تو یہ ناچیز لیکن اس میں کیا کیا چیز ہے
جس کی تجھ کو جستجو ہے وہ تجھی میں ہے ظفرؔ
ڈھونڈتا پھر پھر کے تو پھر جا بجا کیا چیز ہے |
Subsets and Splits