Poet
stringclasses
30 values
Poem_name
stringlengths
19
107
Poetry
stringlengths
68
2.22k
Ahmad Faraz
تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں، احمد فراز غزلیں
تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں مجھ سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں تو آ چکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں اے یار خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں تو لوٹ کر بھی اہل تمنا کو خوش نہیں یاں لٹ کے بھی وفا کے انہی قافلوں میں ہوں بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں خود ہی مثال لالۂ صحرا لہو لہو اور خود فرازؔ اپنے تماشائیوں میں ہوں
Mohsin Naqvi
اتنی مدت بعد ملے ہو، محسن نقوی غزلیں
اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگے ہو میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں تم دریا سے بھی گہرے ہو کون سی بات ہے تم میں ایسی اتنے اچھے کیوں لگتے ہو پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا پتھر بن کر کیا تکتے ہو جاؤ جیت کا جشن مناؤ میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو اپنے شہر کے سب لوگوں سے میری خاطر کیوں الجھے ہو کہنے کو رہتے ہو دل میں پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا رات بہت ہی یاد آئے ہو ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے اپنی کہو اب تم کیسے ہو محسنؔ تم بدنام بہت ہو جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو
Meer Taqi Meer
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے میر تقی میر غزلیں
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے ہوتا نہیں ہے اس لب نوخط پہ کوئی سبز عیسیٰ و خضر کیا سبھی یک بار مر گئے یوں کانوں کان گل نے نہ جانا چمن میں آہ سر کو پٹک کے ہم پس دیوار مر گئے صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں گویا متاع دل کے خریدار مر گئے مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں تھا جن سے لطف زندگی وے یار مر گئے گر زندگی یہی ہے جو کرتے ہیں ہم اسیر تو وے ہی جی گئے جو گرفتار مر گئے افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے تجھ سے دو چار ہونے کی حسرت کے مبتلا جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے
Jigar Moradabadi
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی گچھا و گل و خار پر، جگر مرادآبادی غزلیں
کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں مری سلطنت یہ ہی آشیاں مری ملکیت یہ ہی چار پر جنہیں کہئے عشق کی وسعتیں جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگار پر عجب انقلاب زمانہ ہے مرا مختصر سا فسانہ ہے یہی اب جو بار ہے دوش پر یہی سر تھا زانوئے یار پر یہ کمال عشق کی سازشیں یہ جمال حسن کی نازشیں یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر یہ فریب جلوہ ہے سر بسر مجھے ڈر یہ ہے دل بے خبر کہیں جم نہ جائے تری نظر انہیں چند نقش و نگار پر میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہئے کیا جگرؔ غم یار ہے مرا شیفتہ میں فریفتہ غم یار پر
Gulzar
صبر ہر بار اختیار کیا گلزار غزلیں
صبر ہر بار اختیار کیا ہم سے ہوتا نہیں ہزار کیا عادتاً تم نے کر دیئے وعدے عادتاً ہم نے اعتبار کیا ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں رک کر اپنا ہی انتظار کیا پھر نہ مانگیں گے زندگی یارب یہ گنہ ہم نے ایک بار کیا
Allama Iqbal
آفلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر علامہ اقبال غزلیں
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر کیا دبدبۂ نادر کیا شوکت تیموری ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
Dagh Dehlvi
بھاویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے، تن کے بیٹھے ہیں، داغ دہلوی غزلیں۔
بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں دلوں پر سیکڑوں سکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن کے بیٹھے ہیں یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دل ناداں ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی تو من کے بیٹھے ہیں اثر ہے جذب الفت میں تو کھنچ کر آ ہی جائیں گے ہمیں پروا نہیں ہم سے اگر وہ تن کے بیٹھے ہیں سبک ہو جائیں گے گر جائیں گے وہ بزم دشمن میں کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں وہ لاکھوں من کے بیٹھے ہیں فسوں ہے یا دعا ہے یا معمہ کھل نہیں سکتا وہ کچھ پڑھتے ہوئے آگے مرے مدفن کے بیٹھے ہیں بہت رویا ہوں میں جب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ آنسو بہاتے سامنے دشمن کے بیٹھے ہیں کھڑے ہوں زیر طوبیٰ وہ نہ دم لینے کو دم بھر بھی جو حسرت مند تیرے سایۂ دامن کے بیٹھے ہیں تلاش منزل مقصد کی گردش اٹھ نہیں سکتی کمر کھولے ہوئے رستے میں ہم رہزن کے بیٹھے ہیں یہ جوش گریہ تو دیکھو کہ جب فرقت میں رویا ہوں در و دیوار اک پل میں مرے مدفن کے بیٹھے ہیں نگاہ شوخ و چشم شوق میں در پردہ چھنتی ہے کہ وہ چلمن میں ہیں نزدیک ہم چلمن کے بیٹھے ہیں یہ اٹھنا بیٹھنا محفل میں ان کا رنگ لائے گا قیامت بن کے اٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں کسی کی شامت آئے گی کسی کی جان جائے گی کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں قسم دے کر انہیں یہ پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اس کے تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں کوئی چھینٹا پڑے تو داغؔ کلکتے چلے جائیں عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
Nida Fazli
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا، ندا فاضلی غزلیں
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا
Nazm Tabatabai
مجھ کو سمجھو یادگارِ رفتگانِ لکھنؤ، نظم طبا طبائی غزلیں۔
مجھ کو سمجھو یادگار رفتگان لکھنؤ ہوں قد آدم غبار کاروان لکھنؤ خون حسرت کہہ رہا ہے داستان لکھنؤ رہ گیا ہے اب یہی رنگیں بیان لکھنؤ گوش عبرت سے سنے کوئی مری فریاد ہے بلبل خونیں نوائے بوستان لکھنؤ میرے ہر آنسو میں اک آئینۂ تصویر ہے میرے ہر نالہ میں ہے طرز فغان لکھنؤ ڈھونڈھتا ہے اب کسے لے کر چراغ آفتاب کیوں مٹایا اے فلک تو نے نشان لکھنؤ لکھنؤ جن سے عبارت تھی ہوئے وہ ناپدید ہے نشان لکھنؤ باقی نہ شان لکھنؤ اب نظر آتا نہیں وہ مجمع اہل کمال کھا گئے ان کو زمین و آسمان لکھنؤ پہلے تھا اہل زباں کا دور اب گردش میں ہیں چاہئے تھی تیغ اردو کو فسان لکھنؤ مرثیہ گو کتنے یکتائے زمانہ تھے یہاں کوئی تو اتنوں میں ہوتا نوحہ خوان لکھنؤ یہ غبار ناتواں خاکستر پروانہ ہے خاندان اپنا تھا شمع دودمان لکھنؤ چلتا تھا جب گھٹنیوں اپنے یہاں طفل رضیع سجدہ کرتے تھے اسے گردن کشان لکھنؤ عہد پیرانہ سری میں کیوں نہ شیریں ہو سخن بچپنے میں میں نے چوسی ہے زبان لکھنؤ گلشن فردوس پر کیا ناز ہے رضواں تجھے پوچھ اس کے دل سے جو ہے رتبہ دان لکھنؤ بوئے انس آتی ہے حیدرؔ خاک مٹیا برج سے جمع ہیں اک جا وطن آوارگان لکھنؤ
Parveen Shakir
شوق رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں، پروین شاکر غزلیں
شوق رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں پاؤں سے ہواؤں کے بیڑیاں نہیں کھلتیں پیڑ کو دعا دے کر کٹ گئی بہاروں سے پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں پھول بن کے سیروں میں اور کون شامل تھا شوخی صبا سے تو بالیاں نہیں کھلتیں حسن کے سمجھنے کو عمر چاہئے جاناں دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں کوئی موجۂ شیریں چوم کر جگائے گی سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں کون سے سفر میں ہیں تتلیاں نہیں کھلتیں آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے چھت پہ کون آتا ہے سیڑھیاں نہیں کھلتیں پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر کیا قیامتیں گزریں بستیاں نہیں کھلتیں
Parveen Shakir
چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا، پروین شاکر غزلیں
چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں رتجگا بھی گیا
Jigar Moradabadi
تجھی سے ابتدا ہے تو ہی ایک دن انتہا ہوگا، جگر مرادآبادی غزلیں
تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہوگا سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا در جنت نہ وا ہوگا در رحمت تو وا ہوگا جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہوگا ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں جدھر نظریں اٹھاؤ گے یہی اک سلسلا ہوگا یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی جو محبوب خدا کا ہے وہ محبوب خدا ہوگا اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں خوشا درد دے کہ تیرا اور درد لا دوا ہوگا نگاہ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے نگاہ مہر عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا سیانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہوگا سمجھتا کیا ہے تو دیوانگان عشق کو زاہد یہ ہو جائیں گے جس جانب اسی جانب خدا ہوگا جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامن حضرت شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا
Jaan Nisar Akhtar
طلوع صبح ہے، نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا، جاں نثار اختر غزلیں
طلوع صبح ہے نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا شکست ظلمت شب مسکرا کے دیکھ ذرا غم بہار و غم یار ہی نہیں سب کچھ غم جہاں سے بھی دل کو لگا کے دیکھ ذرا بہار کون سی سوغات لے کے آئی ہے ہمارے زخم تمنا تو آ کے دیکھ ذرا ہر ایک سمت سے اک آفتاب ابھرے گا چراغ دیر و حرم تو بجھا کے دیکھ ذرا وجود عشق کی تاریخ کا پتہ تو چلے ورق الٹ کے تو ارض و سما کے دیکھ ذرا ملے تو تو ہی ملے اور کچھ قبول نہیں جہاں میں حوصلے اہل وفا کے دیکھ ذرا تری نظر سے ہے رشتہ مرے گریباں کا کدھر ہے میری طرف مسکرا کے دیکھ ذرا
Mirza Ghalib
زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسد مرزا غالب غزلیں
زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں تن بہ بند ہوس در ندادہ رکھتے ہیں دل ز کار جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں تمیز زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں بہ عکس آئنہ یک فرد سادہ رکھتے ہیں بہ رنگ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم کہ داغ دل بہ جبین کشادہ رکھتے ہیں بہ زاہداں رگ گردن ہے رشتۂ زنار سر بہ پاۓ بت نا نہادہ رکھتے ہیں معاف بے ہودہ گوئی ہیں ناصحان عزیز دل بہ دست نگارے ندادہ رکھتے ہیں بہ رنگ سبزہ عزیزان بد زباں یک دست ہزار تیغ بہ زہر آب دادہ رکھتے ہیں ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائی حیرت ز بن بستہ و چشم کشادہ رکھتے ہیں
Wali Mohammad Wali
کمر اس دلربا کی دلربا ہے ولی محمد ولی غزلیں
کمر اس دل ربا کی دل ربا ہے نگہ اس خوش ادا کی خوش ادا ہے سجن کے حسن کوں ٹک فکر سوں دیکھ کہ یہ آئینۂ معنی نما ہے یہ خط ہے جوہر آئینہ راز اسے مشک ختن کہنا بجا ہے ہوا معلوم تجھ زلفاں سوں اے شوخ کہ شاہ حسن پر ظل ہما ہے نہ ہووے کوہ کن کیوں آ کے عاشق جو وو شیریں ادا گل گوں قبا ہے نہ پوچھو آہ و زاری کی حقیقت عزیزاں عاشقی کا مقتضا ہے ولیؔ کوں مت ملامت کر اے واعظ ملامت عاشقوں پر کب روا ہے
Mohsin Naqvi
وہ دلاور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے، محسن نقوی غزلیں
وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے اک جنازہ اٹھا مقتل میں عجب شان کے ساتھ جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے عکس کوئی ہو خد و خال تمہارے دیکھوں بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے
Nazm Tabatabai
کس لئے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ، نظم طباعی غزلیں۔
کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ کس کو یہ ڈھونڈتے ہیں برہنہ سر دونوں ساتھ کیسی یارب یہ ہوا صبح شب وصل چلی بجھ گیا دل مرا اور شمع سحر دونوں ساتھ بعد میرے نہ رہا عشق کی منزل کا نشاں مٹ گئے راہرو و راہ گزر دونوں ساتھ اے جنوں دیکھ اسی صحرا میں اکیلا ہوں میں رہتے جس دشت میں ہیں خوف و خطر دونوں ساتھ مجھ کو حیرت ہے شب عیش کی کوتاہی پر یا خدا آئے تھے کیا شام و سحر دونوں ساتھ اس نے پھیری نگۂ ناز یہ معلوم ہوا کھنچ گیا سینے سے تیر اور جگر دونوں ساتھ غم کو دی دل نے جگہ دل کو جگہ پہلو نے ایک گوشے میں کریں گے یہ بسر دونوں ساتھ اس کو روکوں میں الٰہی کہ سنبھالوں اس کو کہ تڑپنے لگے دل اور جگر دونوں ساتھ ناز بڑھتا گیا بڑھتے گئے جوں جوں گیسو بلکہ لینے لگے اب زلف و کمر دونوں ساتھ تجھ سے مطلب ہے نہیں دنیا و عقبیٰ سے غرض تو نہیں جب تو اجڑ جائیں یہ گھر دونوں ساتھ بات سننا نہ کسی چاہنے والے کی کبھی کان میں پھونک رہے ہیں یہ گہر دونوں ساتھ آندھیاں آہ کی بھی اشک کا سیلاب بھی ہے دیتے ہیں دل کی خرابی کی خبر دونوں ساتھ کیا کہوں زہرہ و خورشید کا عالم اے نظمؔ نکلے خلوت سے جوں ہی وقت سحر دونوں ساتھ
Jigar Moradabadi
دل گیا، رونقِ حیات گئی، جگر مرادآبادی غزلیں
دل گیا رونق حیات گئی غم گیا ساری کائنات گئی دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی دن کا کیا ذکر تیرہ بختوں میں ایک رات آئی ایک رات گئی تیری باتوں سے آج تو واعظ وہ جو تھی خواہش نجات گئی ان کے بہلائے بھی نہ بہلا دل رائیگاں سعئ التفات گئی مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن اک مسیحا نفس کی بات گئی اب جنوں آپ ہے گریباں گیر اب وہ رسم تکلفات گئی ہم نے بھی وضع غم بدل ڈالی جب سے وہ طرز التفات گئی ترک الفت بہت بجا ناصح لیکن اس تک اگر یہ بات گئی ہاں مزے لوٹ لے جوانی کے پھر نہ آئے گی یہ جو رات گئی ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی جلوۂ ذات اے معاذ اللہ تاب آئینۂ صفات گئی نہیں ملتا مزاج دل ہم سے غالباً دور تک یہ بات گئی قید ہستی سے کب نجات جگرؔ موت آئی اگر حیات گئی
Jaun Eliya
ایک ہی خوشخبری صبح لاتی ہے جون ایلیا کی غزلیں۔
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے رنگ موسم ہے اور باد صبا شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں میز پر گرد جمتی جاتی ہے سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر اب کسے رات بھر جگاتی ہے میں بھی اذن نوا گری چاہوں بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے اس سراپا وفا کی فرقت میں خواہش غیر کیوں ستاتی ہے آپ اپنے سے ہم سخن رہنا ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے کیا ستم ہے کہ اب تری صورت غور کرنے پہ یاد آتی ہے کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
Wali Mohammad Wali
وہ نازنین ادا میں اعجاز ہے سراپا ولی محمد ولی غزلیں
وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا اے شوخ تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکر عالی تجھ قد کوں دیکھ بولے یو ناز ہے سراپا کیوں ہو سکیں جگت کے دل بر ترے برابر تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا گاہے اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر جاں بخش مجھ کو تیرا آواز ہے سراپا مجھ پر ولیؔ ہمیشہ دل دار مہرباں ہے ہر چند حسب ظاہر طناز ہے سراپا
Nazm Tabatabai
کوئی مائی دے یا نہ دے، ہم رندِ بے پروا ہیں، آپ نظم طباعی، غزلیں۔
کوئی مے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ ساقیا اپنی بغل میں شیشۂ صہبا ہیں آپ غافل و ہشیار وہ تمثال یک آئینہ ہیں ورطۂ حیرت میں ناداں آپ ہیں دانا ہیں آپ کیوں رہے میری دعا منت کش بال ملک نالۂ مستانہ میرے آسماں پیما ہیں آپ ہے تعجب خضر کو اور آب حیواں کی طلب اور پھر عزلت گزین دامن صحرا ہیں آپ منزل طول امل درپیش اور مہلت ہے کم راہ کس سے پوچھئے حیرت میں نقش پا ہیں آپ حق سے طالب دید کے ہوں ہم بصیر ایسے نہیں ہم کو جو کوتہ نظر سمجھیں وہ نا بینا ہیں آپ گل ہمہ تن زخم ہیں پھر بھی ہمہ تن گوش ہیں بے اثر کچھ نالہ ہائے بلبل شیدا ہیں آپ حرص سے شکوہ کروں کیا ہاتھ پھیلانے کا میں کہتی ہے وہ اپنے ہاتھوں خلق میں رسوا ہیں آپ ہم سے اے اہل تنعم منہ چھپانا چاہئے دم بھرا کرتے ہیں ہم اور آئنہ سیما ہیں آپ
Mohsin Naqvi
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی محسن نقوی غزلیں
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
Sahir Ludhianvi
دور رہ کر نہ کرو بات، قریب آ جاؤ ساحر لدھیانوی غزلیں
دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ یاد رہ جائے گی یہ رات قریب آ جاؤ ایک مدت سے تمنا تھی تمہیں چھونے کی آج بس میں نہیں جذبات قریب آ جاؤ سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے جان لے لے گی یہ برسات قریب آ جاؤ اس قدر ہم سے جھجکنے کی ضرورت کیا ہے زندگی بھر کا ہے اب ساتھ قریب آ جاؤ
Wali Mohammad Wali
خوب رو خوب کام کرتے ہیں ولی محمد ولی کی غزلیں۔
خوب رو خوب کام کرتے ہیں یک نگہ میں غلام کرتے ہیں دیکھ خوباں کوں وقت ملنے کے کس ادا سوں سلام کرتے ہیں کیا وفادار ہیں کہ ملنے میں دل سوں سب رام رام کرتے ہیں کم نگاہی سوں دیکھتے ہیں ولے کام اپنا تمام کرتے ہیں کھولتے ہیں جب اپنی زلفاں کوں صبح عاشق کوں شام کرتے ہیں صاحب لفظ اس کوں کہہ سکیے جس سوں خوباں کلام کرتے ہیں دل لجاتے ہیں اے ولیؔ میرا سرو قد جب خرام کرتے ہیں
Mirza Ghalib
آپ کہتے تو ہو کہ آپ سب کی باتیں گالیاں لگتی ہیں، مگر میرزا غالب کی غزلیں منہ آتی ہیں۔
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ وہ آئے ہوں کشمکش نزع میں ہاں جذب محبت کچھ کہہ نہ سکوں پر وہ مرے پوچھنے کو آئے ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں گو آئے ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے جلاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے ہاں اہل طلب کون سنے طعنۂ نایافت دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں اس در پہ نہیں بار تو کعبہ ہی کو ہو آئے کی ہم نفسوں نے اثر گریہ میں تقریر اچھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے
Mirza Ghalib
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش مرزا غالب غزلیں
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار حیف جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے اے نا تمامی نفس شعلہ بار حیف
Nida Fazli
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا، ندا فاضلی غزلیں
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں کیا بات ہے میں وقت پے گھر کیوں نہیں جاتا وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا
Habib Jalib
یہ جو شب کے ایوانوں میں ایک ہلچل ایک ہشر بپا ہے، حبیب جالب غزلیں
یہ جو شب کے ایوانوں میں اک ہلچل اک حشر بپا ہے یہ جو اندھیرا سمٹ رہا ہے یہ جو اجالا پھیل رہا ہے یہ جو ہر دکھ سہنے والا دکھ کا مداوا جان گیا ہے مظلوموں مجبوروں کا غم یہ جو مرے شعروں میں ڈھلا ہے یہ جو مہک گلشن گلشن ہے یہ جو چمک عالم عالم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے
Sahir Ludhianvi
ہر چند میری قوتِ گفتار ہے محبوس، ساحر لدھیانوی غزلیں
ہر چند مری قوت گفتار ہے محبوس خاموش مگر طبع خود آرا نہیں ہوتی معمورۂ احساس میں ہے حشر سا برپا انسان کی تذلیل گوارا نہیں ہوتی نالاں ہوں میں بیداریٔ احساس کے ہاتھوں دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی بیگانہ صفت جادۂ منزل سے گزر جا ہر چیز سزاوار نظارہ نہیں ہوتی فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن فطرت کبھی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی
Mohsin Naqvi
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام، محسن نقوی غزلیں
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
Bahadur Shah Zafar
وہ سو سو عذراتوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے، بہادر شاہ ظفر غزلیں
وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے بلا سے اس کی گر اس میں کسی مضطر کا دم نکلے کہاں آنسو کے قطرے خون دل سے ہیں بہم نکلے یہ دل میں جمع تھے مدت سے کچھ پیکان غم نکلے مرے مضمون سوز دل سے خط سب جل گیا میرا قلم سے حرف جو نکلے شرر ہی یک قلم نکلے نکال اے چارہ گر تو شوق سے لیکن سر پیکاں ادھر نکلے جگر سے تیر ادھر قالب سے دم نکلے تصور سے لب لعلیں کے تیرے ہم اگر رو دیں تو جو لخت جگر آنکھوں سے نکلے اک رقم نکلے نہیں ڈرتے اگر ہوں لاکھ زنداں یار زنداں سے جنون اب تو مثال نالۂ زنجیر ہم نکلے جگر پر داغ لب پر دود دل اور اشک دامن میں تری محفل سے ہم مانند شمع صبح دم نکلے اگر ہوتا زمانہ گیسوئے شب رنگ کا تیرے مری شب دیز سودا کا زیادہ تر قدم نکلے کجی جن کی طبیعت میں ہے کب ہوتی وہ سیدھی ہے کہو شاخ گل تصویر سے کس طرح خم نکلے شمار اک شب کیا ہم نے جو اپنے دل کے داغوں سے تو انجم چرخ ہشتم کے بہت سے ان سے کم نکلے خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے
Mirza Ghalib
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھے اے آرزو خرامی مرزا غالب غزلیں
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ نا تمامی کرتے ہو شکوہ کس کا تم اور بے وفائی سر پیٹتے ہیں اپنا ہم اور نیک نامی صد رنگ گل کترنا در پردہ قتل کرنا تیغ ادا نہیں ہے پابند بے نیامی طرف سخن نہیں ہے مجھ سے خدا نہ کردہ ہے نامہ بر کو اس سے دعوائے ہم کلامی طاقت فسانۂ باد اندیشہ شعلہ ایجاد اے غم ہنوز آتش اے دل ہنوز خامی ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن ہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی ہے یاس میں اسدؔ کو ساقی سے بھی فراغت دریا سے خشک گزرے مستوں کی تشنہ کامی
Nida Fazli
کوئی ہندو، کوئی مسلم، کوئی عیسائی ہے، ندا فاضلی غزلیں
کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے اتنی خوں خار نہ تھیں پہلے عبادت گاہیں یہ عقیدے ہیں کہ انسان کی تنہائی ہے تین چوتھائی سے زائد ہیں جو آبادی میں ان کے ہی واسطے ہر بھوک ہے مہنگائی ہے دیکھے کب تلک باقی رہے سج دھج اس کی آج جس چہرہ سے تصویر اتروائی ہے اب نظر آتا نہیں کچھ بھی دکانوں کے سوا اب نہ بادل ہیں نہ چڑیاں ہیں نہ پروائی ہے
Meer Taqi Meer
شیر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت میر تقی میر غزلیں
شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت وادی و کہسار میں روتا ہوں ڈاڑھیں مار مار دلبران شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت وا نہیں ہوتا کسو سے دل گرفتہ عشق کا ظاہراً غمگیں اسے رہنا خوش آیا ہے بہت میرؔ گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت
Allama Iqbal
پریشان ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے علامہ اقبال غزلیں
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے نہ کر دیں مجھ کو مجبور نوا فردوس میں حوریں مرا سوز دروں پھر گرمی محفل نہ بن جائے کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جائے بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری وہی افسانۂ دنبالۂ محمل نہ بن جائے عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
Firaq GorakhPuri
تیز احساسِ خودی درکار ہے فراق گورکھپوری غزلیں
تیز احساس خودی درکار ہے زندگی کو زندگی درکار ہے جو چڑھا جائے خمستان جہاں ہاں وہی لب تشنگی درکار ہے دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام آدمی کو آدمی درکار ہے سو گلستاں جس اداسی پر نثار مجھ کو وہ افسردگی درکار ہے شاعری ہے سربسر تہذیب‌ قلب اس کو غم شائستگی درکار ہے شعلہ میں لاتا ہے جو سوز و گداز وہ خلوص باطنی درکار ہے خوبیٔ لفظ و بیاں سے کچھ سوا شاعری کو ساحری درکار ہے قادر مطلق کو بھی انسان کی سنتے ہیں بے چارگی درکار ہے اور ہوں گے طالب مدح جہاں مجھ کو بس تیری خوشی درکار ہے عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی اک ذرا دیوانگی درکار ہے ہوش والوں کو بھی میری رائے میں ایک گونہ بے خودی درکار ہے خطرۂ بسیار دانی کی قسم علم میں بھی کچھ کمی درکار ہے دوستو کافی نہیں چشم خرد عشق کو بھی روشنی درکار ہے میری غزلوں میں حقائق ہیں فقط آپ کو تو شاعری درکار ہے تیرے پاس آیا ہوں کہنے ایک بات مجھ کو تیری دوستی درکار ہے میں جفاؤں کا نہ کرتا یوں گلہ آج تیری ناخوشی درکار ہے اس کی زلف آراستہ پیراستہ اک ذرا سی برہمی درکار ہے زندہ دل تھا تازہ دم تھا ہجر میں آج مجھ کو بے دلی درکار ہے حلقہ حلقہ گیسوئے شب رنگ یار مجھ کو تیری ابتری درکار ہے عقل نے کل میرے کانوں میں کہا مجھ کو تیری زندگی درکار ہے تیز رو تہذیب عالم کو فراقؔ اک ذرا آہستگی درکار ہے
Ahmad Faraz
تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست احمد فراز غزلیں
تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست اب بھی آئے ہو تو احسان تمہارا لیکن وہ قیامت جو گزرنی تھی گزر بھی گئی دوست تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہے ایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست بارش سنگ کا موسم ہے مرے شہر میں تو تو یہ شیشے سا بدن لے کے کہاں آ گئی دوست میں اسے عہد شکن کیسے سمجھ لوں جس نے آخری خط میں یہ لکھا تھا فقط آپ کی دوست
Parveen Shakir
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے پروین شاکر غزلیں
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے ہماری زندگی برباد کر کے پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے مگر ہاں منت صیاد کر کے بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن گیا ہے روح کو آباد کر کے ہر آمر طول دینا چاہتا ہے مقرر ظلم کی میعاد کر کے
Mirza Ghalib
ہر در و دیوارِ غم کدہ مرزا غالب کی غزلوں سے سبزہ زار ہے۔
ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے دشواریٔ رہ و ستم ہم رہاں نہ پوچھ جز دل سراغ درد بہ دل خفتگاں نہ پوچھ آئینہ عرض کر خط و خال بیاں نہ پوچھ ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا جاہ و جلال عہد وصال بتاں نہ پوچھ غفلت متاع کفۂ میزان عدل ہوں یا رب حساب سختیٔ خواب گراں نہ پوچھ ہر داغ تازہ یک دل داغ انتظار ہے عرض فضاۓ سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ درد جدائی اسدؔ اللہ خاں نہ پوچھ پرواز یک تپ غم تسخیر نالہ ہے گرمیٔ نبض خار و خس آشیاں نہ پوچھ تو مشق باز کر دل پروانہ ہے بہار بیتابیٔ تجلیٔ آتش بجاں نہ پوچھ
Mirza Ghalib
افسوس کہ دندان کا کیا رزق فلک نے مرزا غالب غزلیں
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے جن لوگوں کی تھی در خور عقد گہر انگشت کافی ہے نشانی ترا چھلے کا نہ دینا خالی مجھے دکھلا کے بہ وقت سفر انگشت لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
Akbar Allahabadi
مانی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے اکبر الہ آبادی غزلیں
معنی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے نیچر بھی سبق سیکھ لے زینت ہے تو یہ ہے کمرے میں جو ہنستی ہوئی آئی مس رعنا ٹیچر نے کہا علم کی آفت ہے تو یہ ہے یہ بات تو اچھی ہے کہ الفت ہو مسوں سے حور ان کو سمجھتے ہیں قیامت ہے تو یہ ہے پیچیدہ مسائل کے لیے جاتے ہیں انگلینڈ زلفوں میں الجھ آتے ہیں شامت ہے تو یہ ہے پبلک میں ذرا ہاتھ ملا لیجئے مجھ سے صاحب مرے ایمان کی قیمت ہے تو یہ ہے
Jigar Moradabadi
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا جگر مرادآبادی غزلیں
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا جس دل کو تم نے دیکھ لیا دل بنا دیا ہر چند کر دیا مجھے برباد عشق نے لیکن انہیں تو شیفتۂ دل بنا دیا پہلے کہاں یہ ناز تھے یہ عشوہ و ادا دل کو دعائیں دو تمہیں قاتل بنا دیا
Bahadur Shah Zafar
ہم واقف ہیں کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں، بہادر شاہ ظفر کی غزلیں۔
واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں اور پھر ہم ان کے یار ہیں ہم ایسے شخص ہیں دیوانے تیرے دشت میں رکھیں گے جب قدم مجنوں بھی لے گا ان کے قدم ایسے شخص ہیں جن پہ ہوں ایسے ظلم و ستم ہم نہیں وہ لوگ ہوں روز بلکہ لطف و کرم ایسے شخص ہیں یوں تو بہت ہیں اور بھی خوبان دل فریب پر جیسے پر فن آپ ہیں کم ایسے شخص ہیں کیا کیا جفا کشوں پہ ہیں ان دلبروں کے ظلم ایسوں کے سہتے ایسے ستم ایسے شخص ہیں دیں کیا ہے بلکہ دیجئے ایمان بھی انہیں زاہد یہ بت خدا کی قسم ایسے شخص ہیں آزردہ ہوں عدو کے جو کہنے پہ اے ظفرؔ نے ایسے شخص وہ ہیں نہ ہم ایسے شخص ہیں
Mirza Ghalib
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی، مرزا غالب غزلیں
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا حریف جوشش دریا نہیں خودداری ساحل جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشک باری کا جنون برق نشتر ہے رگ ابر بہاری کا برائے حل مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا بہ وقت سرنگونی ہے تصور انتظارستاں نگہ کو آبلوں سے شغل ہے اختر شماری کا اسدؔ ساغر کش تسلیم ہو گردش سے گردوں کی کہ ننگ فہم مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا
Mirza Ghalib
ہوئی تاخیر تو کچھ بائسِ تاخیر بھی تھا مرزا غالب غزلیں
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ اس میں کچھ شائبۂ خوبی تقدیر بھی تھا تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد ہاں کچھ اک رنج گراں باری زنجیر بھی تھا بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا بات کرتے کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا نالہ کرتا تھا ولے طالب تاثیر بھی تھا پیشہ میں عیب نہیں رکھیے نہ فرہاد کو نام ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
Mirza Ghalib
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں، مرزا غالب غزلیں۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنان مصر سے ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار جو مری کوتاہیٔ قسمت سے مژگاں ہو گئیں بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے میری آہیں بخیۂ چاک گریباں ہو گئیں واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
Mirza Ghalib
ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں مرزا غالب غزلیں
ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں شوق فضول و جرأت رندانہ چاہیے عاشق نقاب جلوۂ جانانہ چاہیے فانوس شمع کو پر پروانہ چاہیے
Sahir Ludhianvi
میں زندہ ہوں یہ مشتہر کیجیے، ساحر لدھیانوی غزلیں ۳
میں زندہ ہوں یہ مشتہر کیجیے مرے قاتلوں کو خبر کیجیے زمیں سخت ہے آسماں دور ہے بسر ہو سکے تو بسر کیجیے ستم کے بہت سے ہیں رد عمل ضروری نہیں چشم تر کیجیے وہی ظلم بار دگر ہے تو پھر وہی جرم بار دگر کیجیے قفس توڑنا بعد کی بات ہے ابھی خواہش بال و پر کیجیے
Mohsin Naqvi
یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی، محسن نقوی غزلیں
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمان وفا اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی
Dagh Dehlvi
فلک دیتا ہے جن کو عیش، ان کو غم بھی ہوتے ہیں۔ داغ دہلوی غزلیں۔
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے کہیں یہ زخم دل شرمندہ مرہم بھی ہوتے ہیں وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں بظاہر رہنما ہیں اور دل میں بدگمانی ہے ترے کوچے میں جو جاتا ہے آگے ہم بھی ہوتے ہیں ہمارے آنسوؤں کی آبداری اور ہی کچھ ہے کہ یوں ہونے کو روشن گوہر شبنم بھی ہوتے ہیں خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوا ہے عشق اے ناصح جدائی کس طرح سے ہو جدا توام بھی ہوتے ہیں نہیں گھٹتی شب فرقت بھی اکثر ہم نے دیکھا ہے جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دست وحشت سے کہیں ایسے گریباں دامن مریم بھی ہوتے ہیں طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاؤ جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغؔ برحق ہے مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں
Nida Fazli
جسے دیکھتے ہی خماری لگے، ندا فاضلی غزلیں
جسے دیکھتے ہی خماری لگے اسے عمر ساری ہماری لگے اجالا سا ہے اس کے چاروں طرف وہ نازک بدن پاؤں بھاری لگے وہ سسرال سے آئی ہے مائکے اسے جتنا دیکھو وہ پیاری لگے حسین صورتیں اور بھی ہیں مگر وہ سب سیکڑوں میں ہزاری لگے چلو اس طرح سے سجائیں اسے یہ دنیا ہماری تمہاری لگے اسے دیکھنا شعر گوئی کا فن اسے سوچنا دین داری لگے
Parveen Shakir
چلنے کا حوصلہ نہیں، رکنا محال کر دیا پروین شاکر غزلیں
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
Nida Fazli
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو، ندا فاضلی غزلیں
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
Jaan Nisar Akhtar
ای درد عشق، تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں، جان نثار اختر غزلیں
اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں مجھ کو سنبھال حد سے گزرنے لگا ہوں میں پہلے حقیقتوں ہی سے مطلب تھا اور اب ایک آدھ بات فرض بھی کرنے لگا ہوں میں ہر آن ٹوٹتے یہ عقیدوں کے سلسلے لگتا ہے جیسے آج بکھرنے لگا ہوں میں اے چشم یار میرا سدھرنا محال تھا تیرا کمال ہے کہ سدھرنے لگا ہوں میں یہ مہر و ماہ ارض و سما مجھ میں کھو گئے اک کائنات بن کے ابھرنے لگا ہوں میں اتنوں کا پیار مجھ سے سنبھالا نہ جائے گا لوگو تمہارے پیار سے ڈرنے لگا ہوں میں دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں
Jigar Moradabadi
کیا تعجب کی میری روح رواں تک پہنچے جگر مرادآبادی کی غزلیں۔
کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے تو جہاں پر تھا بہت پہلے وہیں آج بھی ہے دیکھ رندان خوش انفاس کہاں تک پہنچے جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ برے کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے بڑھ کے رندوں نے قدم حضرت واعظ کے لیے گرتے پڑتے جو در پیر مغاں تک پہنچے تو مرے حال پریشاں پہ بہت طنز نہ کر اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ کہاں تک پہنچے ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے عشق کی چوٹ دکھانے میں کہیں آتی ہے کچھ اشارے تھے کہ جو لفظ و بیاں تک پہنچے جلوے بیتاب تھے جو پردۂ فطرت میں جگرؔ خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے
Mirza Ghalib
عشق تاثیر سے ناامید نہیں مرزا غالب غزلیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں جاں سپاری شجر بید نہیں سلطنت دست بدست آئی ہے جام مے خاتم جمشید نہیں ہے تجلی تری سامان وجود ذرہ بے پرتو خورشید نہیں راز معشوق نہ رسوا ہو جائے ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں گردش رنگ طرب سے ڈر ہے غم محرومئ جاوید نہیں کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
Allama Iqbal
یہ پیغام دی گئی ہے مجھے بعد صبح گاہی علامہ اقبال غزلیں
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کج کلاہی یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الٰہ الا لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
Allama Iqbal
میں نے اپنی جولان گاہ زیر آسمان سمجھا تھا، علامہ اقبال غزلیں
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں کہہ گئیں راز محبت پردہ داری ہائے شوق تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں تھی کسی درماندہ رہ رو کی صدائے دردناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
Mirza Ghalib
مدت ہوئی ہے یار کو مہمان کیے ہوئے، مرزا غالب غزلیں۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے پھر گرم نالہ ہائے شرربار ہے نفس مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خون دل ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
Meer Taqi Meer
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکالتے ہیں میر تقی میر غزلیں
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں
Mirza Ghalib
پا بدامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد مرزا غالب غزلیں
پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد خار پا ہیں جوہر آئینۂ زانو مجھے دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت ہے نگاہ آشنا تیرا سر ہر مو مجھے ہوں سراپا ساز آہنگ شکایت کچھ نہ پوچھ ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے باعث واماندگی ہے عمر فرصت جو مجھے کر دیا ہے پا بہ زنجیر رم آہو مجھے خاک فرصت برسر ذوق فنا اے انتظار ہے غبار شیشۂ ساعت رم آہو مجھے ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے مردمک ہے طوطیٔ آئینۂ زانو مجھے یاد مژگاں میں بہ نشتر زار سودائے خیال چاہیے وقت تپش یک دست صد پہلو مجھے اضطراب عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہے جستجوئے فرصت ربط سر زانو مجھے چاہیے درمان ریش دل بھی تیغ یار سے مرم زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے کثرت جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ خوب رویوں نے بنایا غالبؔ بد خو مجھے فرصت آرام غش ہستی ہے بحران عدم ہے شکست رنگ امکاں گردش پہلو مجھے ساز ایمائے فنا ہے عالم پیری اسدؔ قامت خم سے ہے حاصل شوخیٔ ابرو مجھے
Nazm Tabatabai
یہ آہِ بے اثر کیا ہو، یہ نخلِ بے ثمر کیا ہو، نظم تباہ تبائی، غزلیں
یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو نہ ہو جب درد ہی یا رب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو بغل گیر آرزو سے ہیں مرادیں آرزو مجھ سے یہاں اس وقت تو اک عید ہے تم جلوہ گر کیا ہو مقدر میں یہ لکھا ہے کٹے گی عمر مر مر کر ابھی سے مر گئے ہم دیکھیے اب عمر بھر کیا ہو مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں یہ سچ ہے نازنیں ہو خوبصورت ہو مگر کیا ہو لگا کر زخم میں ٹانکے قضا تیری نہ آ جائے جو وہ سفاک سن پائے بتا اے چارہ گر کیا ہو قیامت کے بکھیڑے پڑ گئے آتے ہی دنیا میں یہ مانا ہم نے مر جانا تو ممکن ہے مگر کیا ہو کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو
Firaq GorakhPuri
فراق ایک نئی صورت نکل تو سکتی ہے، فراق گورکھپوری غزلیں
فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے بقول اس آنکھ کے دنیا بدل تو سکتی ہے ترے خیال کو کچھ چپ سی لگ گئی ورنہ کہانیوں سے شب غم بہل تو سکتی ہے عروس دہر چلے کھا کے ٹھوکریں لیکن قدم قدم پہ جوانی ابل تو سکتی ہے پلٹ پڑے نہ کہیں اس نگاہ کا جادو کہ ڈوب کر یہ چھری کچھ اچھل تو سکتی ہے بجھے ہوئے نہیں اتنے بجھے ہوئے دل بھی فسردگی میں طبیعت مچل تو سکتی ہے اگر تو چاہے تو غم والے شادماں ہو جائیں نگاہ یار یہ حسرت نکل تو سکتی ہے اب اتنی بند نہیں غم کدوں کی بھی راہیں ہوائے کوچۂ محبوب چل تو سکتی ہے کڑے ہیں کوس بہت منزل محبت کے ملے نہ چھاؤں مگر دھوپ ڈھل تو سکتی ہے حیات لو تہ‌ دامان مرگ دے اٹھی ہوا کی راہ میں یہ شمع جل تو سکتی ہے کچھ اور مصلحت‌ جذب عشق ہے ورنہ کسی سے چھٹ کے طبیعت سنبھل تو سکتی ہے ازل سے سوئی ہے تقدیر‌‌ عشق موت کی نیند اگر جگائیے کروٹ بدل تو سکتی ہے غم زمانہ و سوز نہاں کی آنچ تو دے اگر نہ ٹوٹے یہ زنجیر گل تو سکتی ہے شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانی‌ٔ حسن نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے کبھی وہ مل نہ سکے گی میں یہ نہیں کہتا وہ آنکھ آنکھ میں پڑ کر بدل تو سکتی ہے بدلتا جائے غم روزگار کا مرکز یہ چال گردش ایام چل تو سکتی ہے وہ بے نیاز سہی دل متاع ہیچ سہی مگر کسی کی جوانی مچل تو سکتی ہے تری نگاہ سہارا نہ دے تو بات ہے اور کہ گرتے گرتے بھی دنیا سنبھل تو سکتی ہے یہ زور و شور سلامت تری جوانی بھی بقول عشق کے سانچے میں ڈھل تو سکتی ہے سنا ہے برف کے ٹکڑے ہیں دل حسینوں کے کچھ آنچ پا کے یہ چاندی پگھل تو سکتی ہے ہنسی ہنسی میں لہو تھوکتے ہیں دل والے یہ سر زمین مگر لعل اگل تو سکتی ہے جو تو نے ترک محبت کو اہل دل سے کہا ہزار نرم ہو یہ بات کھل تو سکتی ہے ارے وہ موت ہو یا زندگی محبت پر نہ کچھ سہی کف افسوس مل تو سکتی ہے ہیں جس کے بل پہ کھڑے سرکشوں کو وہ دھرتی اگر کچل نہیں سکتی نگل تو سکتی ہے ہوئی ہے گرم لہو پی کے عشق کی تلوار یوں ہی جلائے جا یہ شاخ پھل تو سکتی ہے گزر رہی ہے دبے پاؤں عشق کی دیوی سبک روی سے جہاں کو مسل تو سکتی ہے حیات سے نگہہ واپسیں ہے کچھ مانوس مرے خیال سے آنکھوں میں پل تو سکتی ہے نہ بھولنا یہ ہے تاخیر حسن کی تاخیر فراقؔ آئی ہوئی موت ٹل تو سکتی ہے
Allama Iqbal
عجیب وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں علامہ اقبال کی غزلیں۔
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادھے بھولے بھالے ہیں مرے اشعار اے اقبالؔ کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ دردانگیز نالے ہیں
Akbar Allahabadi
عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا، اکبر الہ آبادی کی غزلیں
عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا جو برہمن نے کہا آخر وہ سب کرنا پڑا صبر کرنا فرقت محبوب میں سمجھے تھے سہل کھل گیا اپنی سمجھ کا حال جب کرنا پڑا تجربے نے حب دنیا سے سکھایا احتراز پہلے کہتے تھے فقط منہ سے اور اب کرنا پڑا شیخ کی مجلس میں بھی مفلس کی کچھ پرسش نہیں دین کی خاطر سے دنیا کو طلب کرنا پڑا کیا کہوں بے خود ہوا میں کس نگاہ مست سے عقل کو بھی میری ہستی کا ادب کرنا پڑا اقتضا فطرت کا رکتا ہے کہیں اے ہم نشیں شیخ صاحب کو بھی آخر کار شب کرنا پڑا عالم ہستی کو تھا مد نظر کتمان راز ایک شے کو دوسری شے کا سبب کرنا پڑا شعر غیروں کے اسے مطلق نہیں آئے پسند حضرت اکبرؔ کو بالآخر طلب کرنا پڑا
Firaq GorakhPuri
مجھ کو مارا ہے ہر ایک درد و دوا سے پہلے، فراق گورکھپوری غزلیں
مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے دی سزا عشق نے ہر جرم و خطا سے پہلے آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے فتنے برپا ہوئے ہر غنچۂ سربستہ سے کھل گیا راز چمن چاک قبا سے پہلے چال ہے بادۂ ہستی کا چھلکتا ہوا جام ہم کہاں تھے ترے نقش کف پا سے پہلے اب کمی کیا ہے ترے بے سر و سامانوں کو کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفا سے پہلے عشق بے باک کو دعوے تھے بہت خلوت میں کھو دیا سارا بھرم شرم و حیا سے پہلے خود بخود چاک ہوئے پیرہن لالہ و گل چل گئی کون ہوا باد صبا سے پہلے ہم سفر راہ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات ہم پہنچ جائیں گے اس آبلہ پا سے پہلے پردۂ شرم میں صد برق تبسم کے نثار ہوش جاتے رہے نیرنگ حیا سے پہلے موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے بے تکلف بھی ترا حسن خود آرا تھا کبھی اک ادا اور بھی تھی حسن ادا سے پہلے غفلتیں ہستئ فانی کی بتا دیں گی تجھے جو مرا حال تھا احساس فنا سے پہلے ہم انہیں پا کے فراقؔ اور بھی کچھ کھوئے گئے یہ تکلف تو نہ تھے عہد وفا سے پہلے
Parveen Shakir
راستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی پروین شاکر غزلیں
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی
Mirza Ghalib
دل سے تیری نگاہ جگر تک اتر گئی مرزا غالب غزلیں
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ تکلیف پردہ داری زخم جگر گئی وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی مارا زمانہ نے اسداللہ خاں تمہیں وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
Faiz Ahmad Faiz
نہ گنواؤ نوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا، فیض احمد فیض کی غزلیں
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا ادھر ایک حرف کہ کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی جو کہا تو سن کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
Jaan Nisar Akhtar
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا جاں نثار اختر غزلیں
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا دل تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا گزر گیا ہے کوئی لمحۂ شرر کی طرح ابھی تو میں اسے پہچان بھی نہ پایا تھا معاف کر نہ سکی میری زندگی مجھ کو وہ ایک لمحہ کہ میں تجھ سے تنگ آیا تھا شگفتہ پھول سمٹ کر کلی بنے جیسے کچھ اس کمال سے تو نے بدن چرایا تھا پتا نہیں کہ مرے بعد ان پہ کیا گزری میں چند خواب زمانے میں چھوڑ آیا تھا
Jigar Moradabadi
شرما گئے، لجا گئے، دامن چھڑا گئے، جگر مرادآبادی غزلیں
شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے دل پر ہزار طرح کے اوہام چھا گئے یہ تم نے کیا کیا مری دنیا میں آ گئے سب کچھ لٹا کے راہ محبت میں اہل دل خوش ہیں کہ جیسے دولت کونین پا گئے صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے عقل و جنوں میں سب کی تھیں راہیں جدا جدا ہر پھر کے لیکن ایک ہی منزل پہ آ گئے اب کیا کروں میں فطرت ناکام عشق کو جتنے تھے حادثات مجھے راس آ گئے
Akbar Allahabadi
اگر دل واقف نیرنگی تاب صنم ہوتا، اکبر الہ آبادی غزلیں
اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا زمانہ کی دو رنگی کا اسے ہرگز نہ غم ہوتا یہ پابند مصیبت دل کے ہاتھوں ہم تو رہتے ہیں نہیں تو چین سے کٹتی نہ دل ہوتا نہ غم ہوتا انہیں کی ہے وفائی کا یہ ہے آٹھوں پہر صدمہ وہی ہوتے جو قابو میں تو پھر کاہے کو غم ہوتا لب و چشم صنم گر دیکھنے پاتے کہیں شاعر کوئی شیریں سخن ہوتا کوئی جادو رقم ہوتا بہت اچھا ہوا آئے نہ وہ میری عیادت کو جو وہ آتے تو غیر آتے جو غیر آتے تو غم ہوتا اگر قبریں نظر آتیں نہ دارا و سکندر کی مجھے بھی اشتیاق دولت و جاہ و حشم ہوتا لئے جاتا ہے جوش شوق ہم کو راہ الفت میں نہیں تو ضعف سے دشوار چلنا دو قدم ہوتا نہ رہنے پائے دیواروں میں روزن شکر ہے ورنہ تمہیں تو دل لگی ہوتی غریبوں پر ستم ہوتا
Gulzar
دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی گلزار غزلیں
دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی مرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے بلندیوں پہ اب آ کے پیچے لڑائے کوئی وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے کہاں گئے بہتے پانیوں میں بلائے کوئی ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے جٹائیں آنکھوں پہ گر رہی ہیں اٹھائے کوئی مزار پہ کھول کر گریباں دعائیں مانگیں جو آئے اب کے تو لوٹ کر پھر نہ جائے کوئی
Jaun Eliya
اگر سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی جون ایلیا غزلیں
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی ثابت ہوا سکون دل و جاں کہیں نہیں رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی ترک تعلقات کوئی مسئلہ نہیں یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
Javed Akhtar
شہر کے دکان داروں کاروبار عشق میں سود کیا زیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے، جاوید اختر غزلیں
شہر کے دکاں دارو کاروبار الفت میں سود کیا زیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقد جاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے کوئی کیسے ملتا ہے پھول کیسے کھلتا ہے آنکھ کیسے جھکتی ہے سانس کیسے رکتی ہے کیسے رہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے وصل کا سکوں کیا ہے ہجر کا جنوں کیا ہے حسن کا فسوں کیا ہے عشق کا دروں کیا ہے تم مریض دانائی مصلحت کے شیدائی راہ گمرہاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے زخم کیسے پھلتے ہیں داغ کیسے جلتے ہیں درد کیسے ہوتا ہے کوئی کیسے روتا ہے اشک کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے نامراد دل کیسے صبح و شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں تم کو کب نظر آئی غم زدوں کی تنہائی زیست بے اماں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے جانتا ہوں میں تم کو ذوق شاعری بھی ہے شخصیت سجانے میں اک یہ ماہری بھی ہے پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
Habib Jalib
اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا حبیب جلیب غزلیں
اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا مجھ کو انسان سے اوتار کیا دشت غربت میں دل ویراں نے یاد جمنا کو کئی بار کیا پیار کی بات نہ پوچھو یارو ہم نے کس کس سے نہیں پیار کیا کتنی خوابیدہ تمناؤں کو اس کی آواز نے بیدار کیا ہم پجاری ہیں بتوں کے جالبؔ ہم نے کعبے میں بھی اقرار کیا
Mirza Ghalib
رفتار عمر قطع راہ اضطراب ہے مرزا غالب غزلیں
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے مینائے مے ہے سرو نشاط بہار سے بال تدرو جلوۂ موج شراب ہے زخمی ہوا ہے پاشنہ پاۓ ثبات کا نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے جاداد بادہ نوشی رنداں ہے شش جہت غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے نظارہ کیا حریف ہو اس برق حسن کا جوش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے میں نا مراد دل کی تسلی کو کیا کروں مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے گزرا اسدؔ مسرت پیغام یار سے قاصد پہ مجھ کو رشک سوال و جواب ہے ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض جو دانہ دام میں ہے سو اشک کباب ہے بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار یعنی یہ ہر ورق ورق انتخاب ہے
Mirza Ghalib
ارض ناز شوخی دندان برائے خندہ ہے مرزا غالب غزلیں
عرض ناز شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے دعواۓ جمعیت احباب جاۓ خندہ ہے ہے عدم میں غنچہ محو عبرت انجام گل یک جہاں زانو تأمل در قفاۓ خندہ ہے کلفت افسردگی کو عیش بیتابی حرام ورنہ دنداں در دل افشردن بناۓ خندہ ہے شورش باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں دل محیط گریہ و لب آشناۓ خندہ ہے خود فروشی ہاۓ ہستی بسکہ جاۓ خندہ ہے ہر شکست قیمت دل میں صداۓ خندہ ہے نقش عبرت در نظر یا نقد عشرت در بساط دو جہاں وسعت بہ قدر یک فضاۓ خندہ ہے جاۓ استہزا ہے عشرت کوشی ہستی اسدؔ صبح و شبنم فرصت نشو و نماۓ خندہ ہے
Jaan Nisar Akhtar
چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے، جاں نثار اختر غزلیں
چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے کون دیتا ہے یہ گلیوں میں صدا رات گئے یہ حقائق کی چٹانوں سے تراشی دنیا اوڑھ لیتی ہے طلسموں کی ردا رات گئے چبھ کے رہ جاتی ہے سینے میں بدن کی خوشبو کھول دیتا ہے کوئی بند قبا رات گئے آؤ ہم جسم کی شمعوں سے اجالا کر لیں چاند نکلا بھی تو نکلے گا ذرا رات گئے تو نہ اب آئے تو کیا آج تلک آتی ہے سیڑھیوں سے ترے قدموں کی صدا رات گئے
Wali Mohammad Wali
دل ہوا ہے میرا خراب سخن والی محمد والی غزلیں
دل ہوا ہے مرا خراب‌ سخن دیکھ کر حسن بے حجاب سخن بزم معنی میں سر خوشی ہے اسے جس کوں ہے نشۂ شراب سخن راہ مضمون تازہ بند نہیں تا قیامت کھلا ہے باب سخن جلوہ پیرا ہو شاہد معنی جب زباں سوں اٹھے نقاب سخن گوہر اس کی نظر میں جا نہ کرے جن نے دیکھا ہے آب و تاب سخن ہرجا‌ گویاں کی بات کیونکہ سنے جو سنا نغمۂ رباب سخن ہے تری بات اے نزاکت فہم لوح دیباچۂ کتاب سخن ہے سخن جگ منیں عدیم المثال جز سخن نیں دجا جواب سخن اے ولیؔ درد سر کبھو نہ رہے جب ملے صندل و گلاب سخن
Firaq GorakhPuri
اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یوں ہی کبھی لب کھولیں ہیں، فراق گورکھپوری غزلیں۔
اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہو لیں ہیں خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیل جائیں ہیں جل تھل پر کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولیں ہیں باغ میں وہ خواب آور عالم موج صبا کے اشاروں پر ڈالی ڈالی نورس پتے سہج سہج جب ڈولیں ہیں اف وہ لبوں پر موج تبسم جیسے کروٹیں لیں کوندے ہائے وہ عالم جنبش مژگاں جب فتنے پر تولیں ہیں نقش و نگار غزل میں جو تم یہ شادابی پاؤ ہو ہم اشکوں میں کائنات کے نوک قلم کو ڈبو لیں ہیں ان راتوں کو حریم ناز کا اک عالم ہوئے ہے ندیم خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں غم کا فسانہ سننے والو آخر شب آرام کرو کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا اب سو لیں ہیں ہم لوگ اب تو اجنبی سے ہیں کچھ تو بتاؤ حال فراقؔ اب تو تمہیں کو پیار کریں ہیں اب تو تمہیں سے بولیں ہیں
Habib Jalib
یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو، حبیب جالب غزلیں
یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو اس سے لرزاں تھے بہت شب کے نگہباں یارو اس نے ہر گام دیا حوصلۂ تازہ ہمیں وہ نہ اک پل بھی رہا ہم سے گریزاں یارو اس نے مانی نہ کبھی تیرگیٔ شب سے شکست دل اندھیروں میں رہا اس کا فروزاں یارو اس کو ہر حال میں جینے کی ادا آتی تھی وہ نہ حالات سے ہوتا تھا پریشاں یارو اس نے باطل سے نہ تا زیست کیا سمجھوتہ دہر میں اس سا کہاں صاحب ایماں یارو اس کو تھی کشمکش دیر و حرم سے نفرت اس سا ہندو نہ کوئی اس سا مسلماں یارو اس نے سلطانیٔ جمہور کے نغمے لکھے روح شاہوں کی رہی اس سے پریشاں یارو اپنے اشعار کی شمعوں سے اجالا کر کے کر گیا شب کا سفر کتنا وہ آساں یارو اس کے گیتوں سے زمانے کو سنواریں یارو روح ساحرؔ کو اگر کرنا ہے شاداں یارو
Bahadur Shah Zafar
دیکھ دل کو میرے اے کافر بے پیر نہ توڑ، بہادر شاہ ظفر غزلیں
دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ غل سدا وادئ وحشت میں رکھوں گا برپا اے جنوں دیکھ مرے پاؤں کی زنجیر نہ توڑ دیکھ ٹک غور سے آئینۂ دل کو میرے اس میں آتا ہے نظر عالم تصویر نہ توڑ تاج زر کے لیے کیوں شمع کا سر کاٹے ہے رشتۂ الفت پروانہ کو گل گیر نہ توڑ اپنے بسمل سے یہ کہتا تھا دم نزع وہ شوخ تھا جو کچھ عہد سو او عاشق دلگیر نہ توڑ رقص بسمل کا تماشا مجھے دکھلا کوئی دم دست و پا مار کے دم تو تہ شمشیر نہ توڑ سہم کر اے ظفرؔ اس شوخ کماندار سے کہہ کھینچ کر دیکھ مرے سینے سے تو تیر نہ توڑ
Faiz Ahmad Faiz
ہم نے سب شہر میں سنوارے تھے فیض احمد فیض کی غزلیں۔
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے تم سے تھے جتنے استعارے تھے تیرے قول و قرار سے پہلے اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے جب وہ لعل و گہر حساب کیے جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے میرے دامن میں آ گرے سارے جتنے طشت فلک میں تارے تھے عمر جاوید کی دعا کرتے فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے
Meer Taqi Meer
بہ رنگ و بوئے گل اُس باغ کے ہم آشنا ہوتے، میر تقی میر کی غزلیں
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے کہ ہم راہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم غبار راہ ہوتے یا کسو کی خاک پا ہوتے الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے تو ہے کس ناحیے سے اے دیار عشق کیا جانوں ترے باشندگاں ہم کاش سارے بے وفا ہوتے اب ایسے ہیں کہ صانع کے مزاج اوپر بہم پہنچے جو خاطر خواہ اپنے ہم ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میرؔ کیا جانیں انہیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے
Naji Shakir
اے صبا کہ بہار کی باتیں ناجی شاکر غزلیں
اے صبا کہہ بہار کی باتیں اس بت گل عذار کی باتیں کس پہ چھوڑے نگاہ کا شہباز کیا کرے ہے شکار کی باتیں مہربانی سیں یا ہوں غصے سیں پیاری لگتی ہیں یار کی باتیں چھوڑتے کب ہیں نقد دل کوں صنم جب یہ کرتے ہیں پیار کی باتیں پوچھیے کچھ کہیں ہیں کچھ ناجیؔ آ پڑیں روزگار کی باتیں
Bahadur Shah Zafar
کیا کہوں دل مائل ذلف دوتا کیونکر ہوا بہادر شاہ ظفر غزلیں
کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا یہ بھلا چنگا گرفتار بلا کیونکر ہوا جن کو محراب عبادت ہو خم ابروئے یار ان کا کعبے میں کہو سجدہ ادا کیونکر ہوا دیدۂ حیراں ہمارا تھا تمہارے زیر پا ہم کو حیرت ہے کہ پیدا نقش پا کیونکر ہوا نامہ بر خط دے کے اس نو خط کو تو نے کیا کہا کیا خطا تجھ سے ہوئی اور وہ خفا کیونکر ہوا خاکساری کیا عجب کھووے اگر دل کا غبار خاک سے دیکھو کہ آئینہ صفا کیونکر ہوا جن کو یکتائی کا دعویٰ تھا وہ مثل آئینہ ان کو حیرت ہے کہ پیدا دوسرا کیونکر ہوا تیرے دانتوں کے تصور سے نہ تھا گر آب دار جو بہا آنسو وہ در بے بہا کیونکر ہوا جو نہ ہونا تھا ہوا ہم پر تمہارے عشق میں تم نے اتنا بھی نہ پوچھا کیا ہوا کیونکر ہوا وہ تو ہے نا آشنا مشہور عالم میں ظفرؔ پر خدا جانے وہ تجھ سے آشنا کیونکر ہوا
Bahadur Shah Zafar
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے بہادر شاہ ظفر غزلیں
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے پر جو سبب غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے ہم دیکھتے ہیں تم میں خدا جانے بتو کیا اس بھید کو اللہ کی قسم کہہ نہیں سکتے رسوائے جہاں کرتا ہے رو رو کے ہمیں تو ہم تجھے کچھ اے دیدۂ نم کہہ نہیں سکتے کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر جو تو نے کئے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے ہے صبر جنہیں تلخ کلامی کو تمہاری شربت ہی بتاتے ہیں سم کہہ نہیں سکتے جب کہتے ہیں کچھ بات رکاوٹ کی ترے ہم رک جاتا ہے یہ سینہ میں دم کہہ نہیں سکتے اللہ رے ترا رعب کہ احوال دل اپنا دے دیتے ہیں ہم کر کے رقم کہہ نہیں سکتے طوبائے بہشتی ہے تمہارا قد رعنا ہم کیونکر کہیں سرو ارم کہہ نہیں سکتے جو ہم پہ شب ہجر میں اس ماہ لقا کے گزرے ہیں ظفرؔ رنج و الم کہہ نہیں سکتے
Altaf Hussain Hali
ہے یہ تکیہ تیری عطاؤں پر الطاف حسین حالی غزلیں
ہے یہ تکیہ تری عطاؤں پر وہی اصرار ہے خطاؤں پر رہیں نا آشنا زمانہ سے حق ہے تیرا یہ آشناؤں پر رہروو با خبر رہو کہ گماں رہزنی کا ہے رہنماؤں پر ہے وہ دیر آشنا تو عیب ہے کیا مرتے ہیں ہم انہیں اداؤں پر اس کے کوچہ میں ہیں وہ بے پر و بال اڑتے پھرتے ہیں جو ہواؤں پر شہسواروں پہ بند ہے جو راہ وقف ہے یاں برہنہ پاؤں پر نہیں منعم کو اس کی بوند نصیب مینہ برستا ہے جو گداؤں پر نہیں محدود بخششیں تیری زاہدوں پر نہ پارساؤں پر حق سے درخواست عفو کی حالیؔ کیجے کس منہ سے ان خطاؤں پر
Jaan Nisar Akhtar
صبح کے درد کو راتوں کی جلن کو بھولیں جاں نثار اختر غزلیں
صبح کے درد کو راتوں کی جلن کو بھولیں کس کے گھر جائیں کہ اس وعدہ شکن کو بھولیں آج تک چوٹ دبائے نہیں دبتی دل کی کس طرح اس صنم سنگ بدن کو بھولیں اب سوا اس کے مداوائے غم دل کیا ہے اتنی پی جائیں کہ ہر رنج و محن کو بھولیں اور تہذیب غم عشق نبھا دیں کچھ دن آخری وقت میں کیا اپنے چلن کو بھولیں
Kaifi Azmi
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں، کیفی اعظمی غزلیں
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں
Meer Taqi Meer
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، میر تقی میر غزلیں
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
Waseem Barelvi
اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے، وسیم بریلوی غزلیں
اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے کتاب ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے میں تجھ سے ملتا تو تفصیل میں نہیں جاتا مری طرف سے ترے دل میں جانے کیا نکلے جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلہ نکلے تمام شہر کی آنکھوں میں سرخ شعلے ہیں وسیمؔ گھر سے اب ایسے میں کوئی کیا نکلے
Waseem Barelvi
کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا، وسیم بریلوی غزلیں
کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تری کیا ہر شخص مرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا پیاسے رہے جاتے ہیں زمانے کے سوالات کس کے لیے زندہ ہوں بتا بھی نہیں سکتا گھر ڈھونڈ رہے ہیں مرا راتوں کے پجاری میں ہوں کہ چراغوں کو بجھا بھی نہیں سکتا ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
Gulzar
شام سے آج سانس بھاری ہے گلزار غزلیں
شام سے آج سانس بھاری ہے بے قراری سی بے قراری ہے آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے رات کو دے دو چاندنی کی ردا دن کی چادر ابھی اتاری ہے شاخ پر کوئی قہقہہ تو کھلے کیسی چپ سی چمن میں طاری ہے کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا آج کی داستاں ہماری ہے
Kaifi Azmi
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا، کیفی اعظمی غزلیں
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا
Akbar Allahabadi
جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا - اکبر الہ آبادی کی غزلیں
جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا اب خشک مزاج آنکھیں بھی ہوئیں دل نے بھی مچلنا چھوڑ دیا ناوک فگنی سے ظالم کی جنگل میں ہے اک سناٹا سا مرغان خوش الحاں ہو گئے چپ آہو نے اچھلنا چھوڑ دیا کیوں کبر و غرور اس دور پہ ہے کیوں دوست فلک کو سمجھا ہے گردش سے یہ اپنی باز آیا یا رنگ بدلنا چھوڑ دیا بدلی وہ ہوا گزرا وہ سماں وہ راہ نہیں وہ لوگ نہیں تفریح کہاں اور سیر کجا گھر سے بھی نکلنا چھوڑ دیا وہ سوز و گداز اس محفل میں باقی نہ رہا اندھیر ہوا پروانوں نے جلنا چھوڑ دیا شمعوں نے پگھلنا چھوڑ دیا ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں ہر موڑ پہ اک لیسنس طلب اس پارک میں آخر اے اکبرؔ میں نے تو ٹہلنا چھوڑ دیا کیا دین کو قوت دیں یہ جواں جب حوصلہ افزا کوئی نہیں کیا ہوش سنبھالیں یہ لڑکے خود اس نے سنبھلنا چھوڑ دیا اقبال مساعد جب نہ رہا رکھے یہ قدم جس منزل میں اشجار سے سایہ دور ہوا چشموں نے ابلنا چھوڑ دیا اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ میں چلنا چھوڑ دیا جب سر میں ہوائے طاعت تھی سرسبز شجر امید کا تھا جب صرصر عصیاں چلنے لگی اس پیڑ نے پھلنا چھوڑ دیا اس حور لقا کو گھر لائے ہو تم کو مبارک اے اکبرؔ لیکن یہ قیامت کی تم نے گھر سے جو نکلنا چھوڑ دیا
Mirza Ghalib
برسیکالِ گریہِ عاشق ہے، دیکھا چاہیے مرزا غالب کی غزلیں۔
برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے کھل گئی مانند گل سو جا سے دیوار چمن الفت گل سے غلط ہے دعوی وارستگی سرو ہے با وصف آزادی گرفتار چمن صاف ہے از بسکہ عکس گل سے گلزار چمن جانشین جوہر آئینہ ہے خار چمن ہے نزاکت بس کہ فصل گل میں معمار چمن قالب گل میں ڈھلی ہے خشت دیوار چمن تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار جوہر آئینہ ہے یاں نقش احضار چمن بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست ہے کلاہ ناز گل بر طاق دیوار چمن وقت ہے گر بلبل مسکیں زلیخائی کرے یوسف گل جلوہ فرما ہے بہ بازار چمن وحشت افزا گریہ ہا موقوف فصل گل اسدؔ چشم دریا ریز ہے میزاب سرکار چمن
Jigar Moradabadi
آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا، جگر مرادآبادی غزلیں
آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا تاریک مثل آہ جو آنکھوں کا نور تھا کیا صبح ہی سے شام بلا کا ظہور تھا وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا ہر وقت اک خمار تھا ہر دم سرور تھا بوتل بغل میں تھی کہ دل ناصبور تھا کوئی تو دردمند دل ناصبور تھا مانا کہ تم نہ تھے کوئی تم سا ضرور تھا لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا ساقی کی چشم مست کا کیا کیجیے بیان اتنا سرور تھا کہ مجھے بھی سرور تھا پلٹی جو راستے ہی سے اے آہ نامراد یہ تو بتا کہ باب اثر کتنی دور تھا جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا اس چشم مے فروش سے کوئی نہ بچ سکا سب کو بقدر حوصلۂ دل سرور تھا دیکھا تھا کل جگرؔ کو سر راہ مے کدہ اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چور تھا
Mirza Ghalib
دیکھنا قسمت کی آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے مرزا غالب غزلیں
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے غیر کو یا رب وہ کیونکر منع گستاخی کرے گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے دور چشم بد تری بزم طرب سے واہ واہ نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق پر ہم ایسے کھوے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجور یاں مثل نقش مدعائے غیر بیٹھا جائے ہے ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا رنگ کھلتا جاے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے