Poet
stringclasses 30
values | Poem_name
stringlengths 19
107
| Poetry
stringlengths 68
2.22k
|
---|---|---|
Ahmad Faraz | تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں، احمد فراز غزلیں | تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں
مجھ سے گریز پا ہے تو ہر راستہ بدل
میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں
تو آ چکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں
بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں
اے یار خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں
کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں
تو لوٹ کر بھی اہل تمنا کو خوش نہیں
یاں لٹ کے بھی وفا کے انہی قافلوں میں ہوں
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو
میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں
مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر
اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں
خود ہی مثال لالۂ صحرا لہو لہو
اور خود فرازؔ اپنے تماشائیوں میں ہوں |
Mohsin Naqvi | اتنی مدت بعد ملے ہو، محسن نقوی غزلیں | اتنی مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم پھرتے ہو
اتنے خائف کیوں رہتے ہو
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو
تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو
کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے
رات گئے تک کیوں جاگے ہو
میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں
تم دریا سے بھی گہرے ہو
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو
پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا
پتھر بن کر کیا تکتے ہو
جاؤ جیت کا جشن مناؤ
میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو
اپنے شہر کے سب لوگوں سے
میری خاطر کیوں الجھے ہو
کہنے کو رہتے ہو دل میں
پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو
رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا
رات بہت ہی یاد آئے ہو
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو
محسنؔ تم بدنام بہت ہو
جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو |
Meer Taqi Meer | جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے میر تقی میر غزلیں | جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
ہوتا نہیں ہے اس لب نوخط پہ کوئی سبز
عیسیٰ و خضر کیا سبھی یک بار مر گئے
یوں کانوں کان گل نے نہ جانا چمن میں آہ
سر کو پٹک کے ہم پس دیوار مر گئے
صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں
گویا متاع دل کے خریدار مر گئے
مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں
تھا جن سے لطف زندگی وے یار مر گئے
گر زندگی یہی ہے جو کرتے ہیں ہم اسیر
تو وے ہی جی گئے جو گرفتار مر گئے
افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں
لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے
تجھ سے دو چار ہونے کی حسرت کے مبتلا
جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے
گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر
جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے |
Jigar Moradabadi | کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی گچھا و گل و خار پر، جگر مرادآبادی غزلیں | کبھی شاخ و سبزہ و برگ پر کبھی غنچہ و گل و خار پر
میں چمن میں چاہے جہاں رہوں مرا حق ہے فصل بہار پر
مجھے دیں نہ غیظ میں دھمکیاں گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
مری سلطنت یہ ہی آشیاں مری ملکیت یہ ہی چار پر
جنہیں کہئے عشق کی وسعتیں جو ہیں خاص حسن کی عظمتیں
یہ اسی کے قلب سے پوچھئے جسے فخر ہو غم یار پر
مرے اشک خوں کی بہار ہے کہ مرقع غم یار ہے
مری شاعری بھی نثار ہے مری چشم سحر نگار پر
عجب انقلاب زمانہ ہے مرا مختصر سا فسانہ ہے
یہی اب جو بار ہے دوش پر یہی سر تھا زانوئے یار پر
یہ کمال عشق کی سازشیں یہ جمال حسن کی نازشیں
یہ عنایتیں یہ نوازشیں مری ایک مشت غبار پر
مری سمت سے اسے اے صبا یہ پیام آخر غم سنا
ابھی دیکھنا ہو تو دیکھ جا کہ خزاں ہے اپنی بہار پر
یہ فریب جلوہ ہے سر بسر مجھے ڈر یہ ہے دل بے خبر
کہیں جم نہ جائے تری نظر انہیں چند نقش و نگار پر
میں رہین درد سہی مگر مجھے اور چاہئے کیا جگرؔ
غم یار ہے مرا شیفتہ میں فریفتہ غم یار پر |
Gulzar | صبر ہر بار اختیار کیا گلزار غزلیں | صبر ہر بار اختیار کیا
ہم سے ہوتا نہیں ہزار کیا
عادتاً تم نے کر دیئے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں
رک کر اپنا ہی انتظار کیا
پھر نہ مانگیں گے زندگی یارب
یہ گنہ ہم نے ایک بار کیا |
Allama Iqbal | آفلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر علامہ اقبال غزلیں | افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبۂ نادر کیا شوکت تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر
خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر |
Dagh Dehlvi | بھاویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے، تن کے بیٹھے ہیں، داغ دہلوی غزلیں۔ | بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں
دلوں پر سیکڑوں سکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں
الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن کے بیٹھے ہیں
یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دل ناداں
ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی تو من کے بیٹھے ہیں
اثر ہے جذب الفت میں تو کھنچ کر آ ہی جائیں گے
ہمیں پروا نہیں ہم سے اگر وہ تن کے بیٹھے ہیں
سبک ہو جائیں گے گر جائیں گے وہ بزم دشمن میں
کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں وہ لاکھوں من کے بیٹھے ہیں
فسوں ہے یا دعا ہے یا معمہ کھل نہیں سکتا
وہ کچھ پڑھتے ہوئے آگے مرے مدفن کے بیٹھے ہیں
بہت رویا ہوں میں جب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے
کہ آپ آنسو بہاتے سامنے دشمن کے بیٹھے ہیں
کھڑے ہوں زیر طوبیٰ وہ نہ دم لینے کو دم بھر بھی
جو حسرت مند تیرے سایۂ دامن کے بیٹھے ہیں
تلاش منزل مقصد کی گردش اٹھ نہیں سکتی
کمر کھولے ہوئے رستے میں ہم رہزن کے بیٹھے ہیں
یہ جوش گریہ تو دیکھو کہ جب فرقت میں رویا ہوں
در و دیوار اک پل میں مرے مدفن کے بیٹھے ہیں
نگاہ شوخ و چشم شوق میں در پردہ چھنتی ہے
کہ وہ چلمن میں ہیں نزدیک ہم چلمن کے بیٹھے ہیں
یہ اٹھنا بیٹھنا محفل میں ان کا رنگ لائے گا
قیامت بن کے اٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں
کسی کی شامت آئے گی کسی کی جان جائے گی
کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں
قسم دے کر انہیں یہ پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اس کے
تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں
کوئی چھینٹا پڑے تو داغؔ کلکتے چلے جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں |
Nida Fazli | کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا، ندا فاضلی غزلیں | کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
چراغ جلتے ہی بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا |
Nazm Tabatabai | مجھ کو سمجھو یادگارِ رفتگانِ لکھنؤ، نظم طبا طبائی غزلیں۔ | مجھ کو سمجھو یادگار رفتگان لکھنؤ
ہوں قد آدم غبار کاروان لکھنؤ
خون حسرت کہہ رہا ہے داستان لکھنؤ
رہ گیا ہے اب یہی رنگیں بیان لکھنؤ
گوش عبرت سے سنے کوئی مری فریاد ہے
بلبل خونیں نوائے بوستان لکھنؤ
میرے ہر آنسو میں اک آئینۂ تصویر ہے
میرے ہر نالہ میں ہے طرز فغان لکھنؤ
ڈھونڈھتا ہے اب کسے لے کر چراغ آفتاب
کیوں مٹایا اے فلک تو نے نشان لکھنؤ
لکھنؤ جن سے عبارت تھی ہوئے وہ ناپدید
ہے نشان لکھنؤ باقی نہ شان لکھنؤ
اب نظر آتا نہیں وہ مجمع اہل کمال
کھا گئے ان کو زمین و آسمان لکھنؤ
پہلے تھا اہل زباں کا دور اب گردش میں ہیں
چاہئے تھی تیغ اردو کو فسان لکھنؤ
مرثیہ گو کتنے یکتائے زمانہ تھے یہاں
کوئی تو اتنوں میں ہوتا نوحہ خوان لکھنؤ
یہ غبار ناتواں خاکستر پروانہ ہے
خاندان اپنا تھا شمع دودمان لکھنؤ
چلتا تھا جب گھٹنیوں اپنے یہاں طفل رضیع
سجدہ کرتے تھے اسے گردن کشان لکھنؤ
عہد پیرانہ سری میں کیوں نہ شیریں ہو سخن
بچپنے میں میں نے چوسی ہے زبان لکھنؤ
گلشن فردوس پر کیا ناز ہے رضواں تجھے
پوچھ اس کے دل سے جو ہے رتبہ دان لکھنؤ
بوئے انس آتی ہے حیدرؔ خاک مٹیا برج سے
جمع ہیں اک جا وطن آوارگان لکھنؤ |
Parveen Shakir | شوق رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں، پروین شاکر غزلیں | شوق رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے بیڑیاں نہیں کھلتیں
پیڑ کو دعا دے کر کٹ گئی بہاروں سے
پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں
پھول بن کے سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخی صبا سے تو بالیاں نہیں کھلتیں
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہئے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
کوئی موجۂ شیریں چوم کر جگائے گی
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں
شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں تتلیاں نہیں کھلتیں
آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے
چھت پہ کون آتا ہے سیڑھیاں نہیں کھلتیں
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزریں بستیاں نہیں کھلتیں |
Parveen Shakir | چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا، پروین شاکر غزلیں | چراغ راہ بجھا کیا کہ رہنما بھی گیا
ہوا کے ساتھ مسافر کا نقش پا بھی گیا
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
بہت عزیز سہی اس کو میری دل داری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دکھا بھی گیا
اب ان دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تانک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا
سب آئے میری عیادت کو وہ بھی آیا تھا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا
یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رخصت ہیں رتجگا بھی گیا |
Jigar Moradabadi | تجھی سے ابتدا ہے تو ہی ایک دن انتہا ہوگا، جگر مرادآبادی غزلیں | تجھی سے ابتدا ہے تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے وہ ہم کو دیکھتا ہوگا
سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
در جنت نہ وا ہوگا در رحمت تو وا ہوگا
جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہوگا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے یہی اک سلسلا ہوگا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی
جو محبوب خدا کا ہے وہ محبوب خدا ہوگا
اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا درد دے کہ تیرا اور درد لا دوا ہوگا
نگاہ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہ مہر عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا
سیانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گزرے گی وہ دل ہی جانتا ہوگا
سمجھتا کیا ہے تو دیوانگان عشق کو زاہد
یہ ہو جائیں گے جس جانب اسی جانب خدا ہوگا
جگرؔ کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامن حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہوگا برملا ہوگا |
Jaan Nisar Akhtar | طلوع صبح ہے، نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا، جاں نثار اختر غزلیں | طلوع صبح ہے نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا
شکست ظلمت شب مسکرا کے دیکھ ذرا
غم بہار و غم یار ہی نہیں سب کچھ
غم جہاں سے بھی دل کو لگا کے دیکھ ذرا
بہار کون سی سوغات لے کے آئی ہے
ہمارے زخم تمنا تو آ کے دیکھ ذرا
ہر ایک سمت سے اک آفتاب ابھرے گا
چراغ دیر و حرم تو بجھا کے دیکھ ذرا
وجود عشق کی تاریخ کا پتہ تو چلے
ورق الٹ کے تو ارض و سما کے دیکھ ذرا
ملے تو تو ہی ملے اور کچھ قبول نہیں
جہاں میں حوصلے اہل وفا کے دیکھ ذرا
تری نظر سے ہے رشتہ مرے گریباں کا
کدھر ہے میری طرف مسکرا کے دیکھ ذرا |
Mirza Ghalib | زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسد مرزا غالب غزلیں | زمانہ سخت کم آزار ہے بہ جان اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں
تن بہ بند ہوس در ندادہ رکھتے ہیں
دل ز کار جہاں اوفتادہ رکھتے ہیں
تمیز زشتی و نیکی میں لاکھ باتیں ہیں
بہ عکس آئنہ یک فرد سادہ رکھتے ہیں
بہ رنگ سایہ ہمیں بندگی میں ہے تسلیم
کہ داغ دل بہ جبین کشادہ رکھتے ہیں
بہ زاہداں رگ گردن ہے رشتۂ زنار
سر بہ پاۓ بت نا نہادہ رکھتے ہیں
معاف بے ہودہ گوئی ہیں ناصحان عزیز
دل بہ دست نگارے ندادہ رکھتے ہیں
بہ رنگ سبزہ عزیزان بد زباں یک دست
ہزار تیغ بہ زہر آب دادہ رکھتے ہیں
ادب نے سونپی ہمیں سرمہ سائی حیرت
ز بن بستہ و چشم کشادہ رکھتے ہیں |
Wali Mohammad Wali | کمر اس دلربا کی دلربا ہے ولی محمد ولی غزلیں | کمر اس دل ربا کی دل ربا ہے
نگہ اس خوش ادا کی خوش ادا ہے
سجن کے حسن کوں ٹک فکر سوں دیکھ
کہ یہ آئینۂ معنی نما ہے
یہ خط ہے جوہر آئینہ راز
اسے مشک ختن کہنا بجا ہے
ہوا معلوم تجھ زلفاں سوں اے شوخ
کہ شاہ حسن پر ظل ہما ہے
نہ ہووے کوہ کن کیوں آ کے عاشق
جو وو شیریں ادا گل گوں قبا ہے
نہ پوچھو آہ و زاری کی حقیقت
عزیزاں عاشقی کا مقتضا ہے
ولیؔ کوں مت ملامت کر اے واعظ
ملامت عاشقوں پر کب روا ہے |
Mohsin Naqvi | وہ دلاور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے، محسن نقوی غزلیں | وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے
سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری
میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے
اک جنازہ اٹھا مقتل میں عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے
عکس کوئی ہو خد و خال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسنؔ
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے |
Nazm Tabatabai | کس لئے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ، نظم طباعی غزلیں۔ | کس لیے پھرتے ہیں یہ شمس و قمر دونوں ساتھ
کس کو یہ ڈھونڈتے ہیں برہنہ سر دونوں ساتھ
کیسی یارب یہ ہوا صبح شب وصل چلی
بجھ گیا دل مرا اور شمع سحر دونوں ساتھ
بعد میرے نہ رہا عشق کی منزل کا نشاں
مٹ گئے راہرو و راہ گزر دونوں ساتھ
اے جنوں دیکھ اسی صحرا میں اکیلا ہوں میں
رہتے جس دشت میں ہیں خوف و خطر دونوں ساتھ
مجھ کو حیرت ہے شب عیش کی کوتاہی پر
یا خدا آئے تھے کیا شام و سحر دونوں ساتھ
اس نے پھیری نگۂ ناز یہ معلوم ہوا
کھنچ گیا سینے سے تیر اور جگر دونوں ساتھ
غم کو دی دل نے جگہ دل کو جگہ پہلو نے
ایک گوشے میں کریں گے یہ بسر دونوں ساتھ
اس کو روکوں میں الٰہی کہ سنبھالوں اس کو
کہ تڑپنے لگے دل اور جگر دونوں ساتھ
ناز بڑھتا گیا بڑھتے گئے جوں جوں گیسو
بلکہ لینے لگے اب زلف و کمر دونوں ساتھ
تجھ سے مطلب ہے نہیں دنیا و عقبیٰ سے غرض
تو نہیں جب تو اجڑ جائیں یہ گھر دونوں ساتھ
بات سننا نہ کسی چاہنے والے کی کبھی
کان میں پھونک رہے ہیں یہ گہر دونوں ساتھ
آندھیاں آہ کی بھی اشک کا سیلاب بھی ہے
دیتے ہیں دل کی خرابی کی خبر دونوں ساتھ
کیا کہوں زہرہ و خورشید کا عالم اے نظمؔ
نکلے خلوت سے جوں ہی وقت سحر دونوں ساتھ |
Jigar Moradabadi | دل گیا، رونقِ حیات گئی، جگر مرادآبادی غزلیں | دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر
لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی
دن کا کیا ذکر تیرہ بختوں میں
ایک رات آئی ایک رات گئی
تیری باتوں سے آج تو واعظ
وہ جو تھی خواہش نجات گئی
ان کے بہلائے بھی نہ بہلا دل
رائیگاں سعئ التفات گئی
مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن
اک مسیحا نفس کی بات گئی
اب جنوں آپ ہے گریباں گیر
اب وہ رسم تکلفات گئی
ہم نے بھی وضع غم بدل ڈالی
جب سے وہ طرز التفات گئی
ترک الفت بہت بجا ناصح
لیکن اس تک اگر یہ بات گئی
ہاں مزے لوٹ لے جوانی کے
پھر نہ آئے گی یہ جو رات گئی
ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی
آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی
جلوۂ ذات اے معاذ اللہ
تاب آئینۂ صفات گئی
نہیں ملتا مزاج دل ہم سے
غالباً دور تک یہ بات گئی
قید ہستی سے کب نجات جگرؔ
موت آئی اگر حیات گئی |
Jaun Eliya | ایک ہی خوشخبری صبح لاتی ہے جون ایلیا کی غزلیں۔ | ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور باد صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
میں بھی اذن نوا گری چاہوں
بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے
سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو
زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے
اس سراپا وفا کی فرقت میں
خواہش غیر کیوں ستاتی ہے
آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے |
Wali Mohammad Wali | وہ نازنین ادا میں اعجاز ہے سراپا ولی محمد ولی غزلیں | وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گل رخاں سوں ممتاز ہے سراپا
اے شوخ تجھ نین میں دیکھا نگاہ کر کر
عاشق کے مارنے کا انداز ہے سراپا
جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکر عالی
تجھ قد کوں دیکھ بولے یو ناز ہے سراپا
کیوں ہو سکیں جگت کے دل بر ترے برابر
تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا
گاہے اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر
جاں بخش مجھ کو تیرا آواز ہے سراپا
مجھ پر ولیؔ ہمیشہ دل دار مہرباں ہے
ہر چند حسب ظاہر طناز ہے سراپا |
Nazm Tabatabai | کوئی مائی دے یا نہ دے، ہم رندِ بے پروا ہیں، آپ نظم طباعی، غزلیں۔ | کوئی مے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ
ساقیا اپنی بغل میں شیشۂ صہبا ہیں آپ
غافل و ہشیار وہ تمثال یک آئینہ ہیں
ورطۂ حیرت میں ناداں آپ ہیں دانا ہیں آپ
کیوں رہے میری دعا منت کش بال ملک
نالۂ مستانہ میرے آسماں پیما ہیں آپ
ہے تعجب خضر کو اور آب حیواں کی طلب
اور پھر عزلت گزین دامن صحرا ہیں آپ
منزل طول امل درپیش اور مہلت ہے کم
راہ کس سے پوچھئے حیرت میں نقش پا ہیں آپ
حق سے طالب دید کے ہوں ہم بصیر ایسے نہیں
ہم کو جو کوتہ نظر سمجھیں وہ نا بینا ہیں آپ
گل ہمہ تن زخم ہیں پھر بھی ہمہ تن گوش ہیں
بے اثر کچھ نالہ ہائے بلبل شیدا ہیں آپ
حرص سے شکوہ کروں کیا ہاتھ پھیلانے کا میں
کہتی ہے وہ اپنے ہاتھوں خلق میں رسوا ہیں آپ
ہم سے اے اہل تنعم منہ چھپانا چاہئے
دم بھرا کرتے ہیں ہم اور آئنہ سیما ہیں آپ |
Mohsin Naqvi | ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی محسن نقوی غزلیں | ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی |
Sahir Ludhianvi | دور رہ کر نہ کرو بات، قریب آ جاؤ ساحر لدھیانوی غزلیں | دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ
یاد رہ جائے گی یہ رات قریب آ جاؤ
ایک مدت سے تمنا تھی تمہیں چھونے کی
آج بس میں نہیں جذبات قریب آ جاؤ
سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے
جان لے لے گی یہ برسات قریب آ جاؤ
اس قدر ہم سے جھجکنے کی ضرورت کیا ہے
زندگی بھر کا ہے اب ساتھ قریب آ جاؤ |
Wali Mohammad Wali | خوب رو خوب کام کرتے ہیں ولی محمد ولی کی غزلیں۔ | خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
دیکھ خوباں کوں وقت ملنے کے
کس ادا سوں سلام کرتے ہیں
کیا وفادار ہیں کہ ملنے میں
دل سوں سب رام رام کرتے ہیں
کم نگاہی سوں دیکھتے ہیں ولے
کام اپنا تمام کرتے ہیں
کھولتے ہیں جب اپنی زلفاں کوں
صبح عاشق کوں شام کرتے ہیں
صاحب لفظ اس کوں کہہ سکیے
جس سوں خوباں کلام کرتے ہیں
دل لجاتے ہیں اے ولیؔ میرا
سرو قد جب خرام کرتے ہیں |
Mirza Ghalib | آپ کہتے تو ہو کہ آپ سب کی باتیں گالیاں لگتی ہیں، مگر میرزا غالب کی غزلیں منہ آتی ہیں۔ | کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ وہ آئے
ہوں کشمکش نزع میں ہاں جذب محبت
کچھ کہہ نہ سکوں پر وہ مرے پوچھنے کو آئے
ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں گو آئے
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین
ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے
جلاد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے
ہاں اہل طلب کون سنے طعنۂ نایافت
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے
اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
اس در پہ نہیں بار تو کعبہ ہی کو ہو آئے
کی ہم نفسوں نے اثر گریہ میں تقریر
اچھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے
اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے |
Mirza Ghalib | بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش مرزا غالب غزلیں | بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار حیف
جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے
اے نا تمامی نفس شعلہ بار حیف |
Nida Fazli | بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا، ندا فاضلی غزلیں | بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پے گھر کیوں نہیں جاتا
وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ
جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا
وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے
وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا |
Habib Jalib | یہ جو شب کے ایوانوں میں ایک ہلچل ایک ہشر بپا ہے، حبیب جالب غزلیں | یہ جو شب کے ایوانوں میں اک ہلچل اک حشر بپا ہے
یہ جو اندھیرا سمٹ رہا ہے یہ جو اجالا پھیل رہا ہے
یہ جو ہر دکھ سہنے والا دکھ کا مداوا جان گیا ہے
مظلوموں مجبوروں کا غم یہ جو مرے شعروں میں ڈھلا ہے
یہ جو مہک گلشن گلشن ہے یہ جو چمک عالم عالم ہے
مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے |
Sahir Ludhianvi | ہر چند میری قوتِ گفتار ہے محبوس، ساحر لدھیانوی غزلیں | ہر چند مری قوت گفتار ہے محبوس
خاموش مگر طبع خود آرا نہیں ہوتی
معمورۂ احساس میں ہے حشر سا برپا
انسان کی تذلیل گوارا نہیں ہوتی
نالاں ہوں میں بیداریٔ احساس کے ہاتھوں
دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی
بیگانہ صفت جادۂ منزل سے گزر جا
ہر چیز سزاوار نظارہ نہیں ہوتی
فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کبھی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی |
Mohsin Naqvi | اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام، محسن نقوی غزلیں | اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام |
Bahadur Shah Zafar | وہ سو سو عذراتوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے، بہادر شاہ ظفر غزلیں | وہ سو سو اٹھکھٹوں سے گھر سے باہر دو قدم نکلے
بلا سے اس کی گر اس میں کسی مضطر کا دم نکلے
کہاں آنسو کے قطرے خون دل سے ہیں بہم نکلے
یہ دل میں جمع تھے مدت سے کچھ پیکان غم نکلے
مرے مضمون سوز دل سے خط سب جل گیا میرا
قلم سے حرف جو نکلے شرر ہی یک قلم نکلے
نکال اے چارہ گر تو شوق سے لیکن سر پیکاں
ادھر نکلے جگر سے تیر ادھر قالب سے دم نکلے
تصور سے لب لعلیں کے تیرے ہم اگر رو دیں
تو جو لخت جگر آنکھوں سے نکلے اک رقم نکلے
نہیں ڈرتے اگر ہوں لاکھ زنداں یار زنداں سے
جنون اب تو مثال نالۂ زنجیر ہم نکلے
جگر پر داغ لب پر دود دل اور اشک دامن میں
تری محفل سے ہم مانند شمع صبح دم نکلے
اگر ہوتا زمانہ گیسوئے شب رنگ کا تیرے
مری شب دیز سودا کا زیادہ تر قدم نکلے
کجی جن کی طبیعت میں ہے کب ہوتی وہ سیدھی ہے
کہو شاخ گل تصویر سے کس طرح خم نکلے
شمار اک شب کیا ہم نے جو اپنے دل کے داغوں سے
تو انجم چرخ ہشتم کے بہت سے ان سے کم نکلے
خدا کے واسطے زاہد اٹھا پردہ نہ کعبہ کا
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے
تمنا ہے یہ دل میں جب تلک ہے دم میں دم اپنے
ظفرؔ منہ سے ہمارے نام اس کا دم بہ دم نکلے |
Mirza Ghalib | حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھے اے آرزو خرامی مرزا غالب غزلیں | حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ نا تمامی
کرتے ہو شکوہ کس کا تم اور بے وفائی
سر پیٹتے ہیں اپنا ہم اور نیک نامی
صد رنگ گل کترنا در پردہ قتل کرنا
تیغ ادا نہیں ہے پابند بے نیامی
طرف سخن نہیں ہے مجھ سے خدا نہ کردہ
ہے نامہ بر کو اس سے دعوائے ہم کلامی
طاقت فسانۂ باد اندیشہ شعلہ ایجاد
اے غم ہنوز آتش اے دل ہنوز خامی
ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن
ہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی
ہے یاس میں اسدؔ کو ساقی سے بھی فراغت
دریا سے خشک گزرے مستوں کی تشنہ کامی |
Nida Fazli | کوئی ہندو، کوئی مسلم، کوئی عیسائی ہے، ندا فاضلی غزلیں | کوئی ہندو کوئی مسلم کوئی عیسائی ہے
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
اتنی خوں خار نہ تھیں پہلے عبادت گاہیں
یہ عقیدے ہیں کہ انسان کی تنہائی ہے
تین چوتھائی سے زائد ہیں جو آبادی میں
ان کے ہی واسطے ہر بھوک ہے مہنگائی ہے
دیکھے کب تلک باقی رہے سج دھج اس کی
آج جس چہرہ سے تصویر اتروائی ہے
اب نظر آتا نہیں کچھ بھی دکانوں کے سوا
اب نہ بادل ہیں نہ چڑیاں ہیں نہ پروائی ہے |
Meer Taqi Meer | شیر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت میر تقی میر غزلیں | شعر کے پردے میں میں نے غم سنایا ہے بہت
مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت
بے سبب آتا نہیں اب دم بہ دم عاشق کو غش
درد کھینچا ہے نہایت رنج اٹھایا ہے بہت
وادی و کہسار میں روتا ہوں ڈاڑھیں مار مار
دلبران شہر نے مجھ کو ستایا ہے بہت
وا نہیں ہوتا کسو سے دل گرفتہ عشق کا
ظاہراً غمگیں اسے رہنا خوش آیا ہے بہت
میرؔ گم گشتہ کا ملنا اتفاقی امر ہے
جب کبھو پایا ہے خواہش مند پایا ہے بہت |
Allama Iqbal | پریشان ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے علامہ اقبال غزلیں | پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبور نوا فردوس میں حوریں
مرا سوز دروں پھر گرمی محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جائے
بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری
وہی افسانۂ دنبالۂ محمل نہ بن جائے
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے |
Firaq GorakhPuri | تیز احساسِ خودی درکار ہے فراق گورکھپوری غزلیں | تیز احساس خودی درکار ہے
زندگی کو زندگی درکار ہے
جو چڑھا جائے خمستان جہاں
ہاں وہی لب تشنگی درکار ہے
دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام
آدمی کو آدمی درکار ہے
سو گلستاں جس اداسی پر نثار
مجھ کو وہ افسردگی درکار ہے
شاعری ہے سربسر تہذیب قلب
اس کو غم شائستگی درکار ہے
شعلہ میں لاتا ہے جو سوز و گداز
وہ خلوص باطنی درکار ہے
خوبیٔ لفظ و بیاں سے کچھ سوا
شاعری کو ساحری درکار ہے
قادر مطلق کو بھی انسان کی
سنتے ہیں بے چارگی درکار ہے
اور ہوں گے طالب مدح جہاں
مجھ کو بس تیری خوشی درکار ہے
عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی
اک ذرا دیوانگی درکار ہے
ہوش والوں کو بھی میری رائے میں
ایک گونہ بے خودی درکار ہے
خطرۂ بسیار دانی کی قسم
علم میں بھی کچھ کمی درکار ہے
دوستو کافی نہیں چشم خرد
عشق کو بھی روشنی درکار ہے
میری غزلوں میں حقائق ہیں فقط
آپ کو تو شاعری درکار ہے
تیرے پاس آیا ہوں کہنے ایک بات
مجھ کو تیری دوستی درکار ہے
میں جفاؤں کا نہ کرتا یوں گلہ
آج تیری ناخوشی درکار ہے
اس کی زلف آراستہ پیراستہ
اک ذرا سی برہمی درکار ہے
زندہ دل تھا تازہ دم تھا ہجر میں
آج مجھ کو بے دلی درکار ہے
حلقہ حلقہ گیسوئے شب رنگ یار
مجھ کو تیری ابتری درکار ہے
عقل نے کل میرے کانوں میں کہا
مجھ کو تیری زندگی درکار ہے
تیز رو تہذیب عالم کو فراقؔ
اک ذرا آہستگی درکار ہے |
Ahmad Faraz | تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست احمد فراز غزلیں | تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست
تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست
لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں
یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست
تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی
میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست
یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے
کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست
اب بھی آئے ہو تو احسان تمہارا لیکن
وہ قیامت جو گزرنی تھی گزر بھی گئی دوست
تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہے
ایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست
بارش سنگ کا موسم ہے مرے شہر میں تو
تو یہ شیشے سا بدن لے کے کہاں آ گئی دوست
میں اسے عہد شکن کیسے سمجھ لوں جس نے
آخری خط میں یہ لکھا تھا فقط آپ کی دوست |
Parveen Shakir | بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے پروین شاکر غزلیں | بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے
ہماری زندگی برباد کر کے
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منت صیاد کر کے
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کر کے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی میعاد کر کے |
Mirza Ghalib | ہر در و دیوارِ غم کدہ مرزا غالب کی غزلوں سے سبزہ زار ہے۔ | ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشواریٔ رہ و ستم ہم رہاں نہ پوچھ
جز دل سراغ درد بہ دل خفتگاں نہ پوچھ
آئینہ عرض کر خط و خال بیاں نہ پوچھ
ہندوستان سایۂ گل پاۓ تخت تھا
جاہ و جلال عہد وصال بتاں نہ پوچھ
غفلت متاع کفۂ میزان عدل ہوں
یا رب حساب سختیٔ خواب گراں نہ پوچھ
ہر داغ تازہ یک دل داغ انتظار ہے
عرض فضاۓ سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ
کہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہ
درد جدائی اسدؔ اللہ خاں نہ پوچھ
پرواز یک تپ غم تسخیر نالہ ہے
گرمیٔ نبض خار و خس آشیاں نہ پوچھ
تو مشق باز کر دل پروانہ ہے بہار
بیتابیٔ تجلیٔ آتش بجاں نہ پوچھ |
Mirza Ghalib | افسوس کہ دندان کا کیا رزق فلک نے مرزا غالب غزلیں | افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی در خور عقد گہر انگشت
کافی ہے نشانی ترا چھلے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بہ وقت سفر انگشت
لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت |
Akbar Allahabadi | مانی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے اکبر الہ آبادی غزلیں | معنی کو بھلا دیتی ہے صورت ہے تو یہ ہے
نیچر بھی سبق سیکھ لے زینت ہے تو یہ ہے
کمرے میں جو ہنستی ہوئی آئی مس رعنا
ٹیچر نے کہا علم کی آفت ہے تو یہ ہے
یہ بات تو اچھی ہے کہ الفت ہو مسوں سے
حور ان کو سمجھتے ہیں قیامت ہے تو یہ ہے
پیچیدہ مسائل کے لیے جاتے ہیں انگلینڈ
زلفوں میں الجھ آتے ہیں شامت ہے تو یہ ہے
پبلک میں ذرا ہاتھ ملا لیجئے مجھ سے
صاحب مرے ایمان کی قیمت ہے تو یہ ہے |
Jigar Moradabadi | لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا جگر مرادآبادی غزلیں | لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا
جس دل کو تم نے دیکھ لیا دل بنا دیا
ہر چند کر دیا مجھے برباد عشق نے
لیکن انہیں تو شیفتۂ دل بنا دیا
پہلے کہاں یہ ناز تھے یہ عشوہ و ادا
دل کو دعائیں دو تمہیں قاتل بنا دیا |
Bahadur Shah Zafar | ہم واقف ہیں کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں، بہادر شاہ ظفر کی غزلیں۔ | واقف ہیں ہم کہ حضرت غم ایسے شخص ہیں
اور پھر ہم ان کے یار ہیں ہم ایسے شخص ہیں
دیوانے تیرے دشت میں رکھیں گے جب قدم
مجنوں بھی لے گا ان کے قدم ایسے شخص ہیں
جن پہ ہوں ایسے ظلم و ستم ہم نہیں وہ لوگ
ہوں روز بلکہ لطف و کرم ایسے شخص ہیں
یوں تو بہت ہیں اور بھی خوبان دل فریب
پر جیسے پر فن آپ ہیں کم ایسے شخص ہیں
کیا کیا جفا کشوں پہ ہیں ان دلبروں کے ظلم
ایسوں کے سہتے ایسے ستم ایسے شخص ہیں
دیں کیا ہے بلکہ دیجئے ایمان بھی انہیں
زاہد یہ بت خدا کی قسم ایسے شخص ہیں
آزردہ ہوں عدو کے جو کہنے پہ اے ظفرؔ
نے ایسے شخص وہ ہیں نہ ہم ایسے شخص ہیں |
Mirza Ghalib | لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی، مرزا غالب غزلیں | لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا
حریف جوشش دریا نہیں خودداری ساحل
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا
بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشک باری کا
جنون برق نشتر ہے رگ ابر بہاری کا
برائے حل مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت
بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا
بہ وقت سرنگونی ہے تصور انتظارستاں
نگہ کو آبلوں سے شغل ہے اختر شماری کا
اسدؔ ساغر کش تسلیم ہو گردش سے گردوں کی
کہ ننگ فہم مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا |
Mirza Ghalib | ہوئی تاخیر تو کچھ بائسِ تاخیر بھی تھا مرزا غالب غزلیں | ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبۂ خوبی تقدیر بھی تھا
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد
ہاں کچھ اک رنج گراں باری زنجیر بھی تھا
بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا
بات کرتے کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا
یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی
گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا
دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا
نالہ کرتا تھا ولے طالب تاثیر بھی تھا
پیشہ میں عیب نہیں رکھیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی
آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا |
Mirza Ghalib | سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں، مرزا غالب غزلیں۔ | سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں
سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنان مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہو گئیں
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار
جو مری کوتاہیٔ قسمت سے مژگاں ہو گئیں
بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیۂ چاک گریباں ہو گئیں
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں |
Mirza Ghalib | ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں مرزا غالب غزلیں | ہے وصل ہجر عالم تمکین و ضبط میں
معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے
اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں
شوق فضول و جرأت رندانہ چاہیے
عاشق نقاب جلوۂ جانانہ چاہیے
فانوس شمع کو پر پروانہ چاہیے |
Sahir Ludhianvi | میں زندہ ہوں یہ مشتہر کیجیے، ساحر لدھیانوی غزلیں ۳ | میں زندہ ہوں یہ مشتہر کیجیے
مرے قاتلوں کو خبر کیجیے
زمیں سخت ہے آسماں دور ہے
بسر ہو سکے تو بسر کیجیے
ستم کے بہت سے ہیں رد عمل
ضروری نہیں چشم تر کیجیے
وہی ظلم بار دگر ہے تو پھر
وہی جرم بار دگر کیجیے
قفس توڑنا بعد کی بات ہے
ابھی خواہش بال و پر کیجیے |
Mohsin Naqvi | یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی، محسن نقوی غزلیں | یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی
لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی
اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی
اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمان وفا
اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی
کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی |
Dagh Dehlvi | فلک دیتا ہے جن کو عیش، ان کو غم بھی ہوتے ہیں۔ داغ دہلوی غزلیں۔ | فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری
پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے
کہیں یہ زخم دل شرمندہ مرہم بھی ہوتے ہیں
وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو
مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں
زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں
بظاہر رہنما ہیں اور دل میں بدگمانی ہے
ترے کوچے میں جو جاتا ہے آگے ہم بھی ہوتے ہیں
ہمارے آنسوؤں کی آبداری اور ہی کچھ ہے
کہ یوں ہونے کو روشن گوہر شبنم بھی ہوتے ہیں
خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا
جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں
ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوا ہے عشق اے ناصح
جدائی کس طرح سے ہو جدا توام بھی ہوتے ہیں
نہیں گھٹتی شب فرقت بھی اکثر ہم نے دیکھا ہے
جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں
بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دست وحشت سے
کہیں ایسے گریباں دامن مریم بھی ہوتے ہیں
طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی
کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں
جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاؤ
جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں
کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغؔ برحق ہے
مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں |
Nida Fazli | جسے دیکھتے ہی خماری لگے، ندا فاضلی غزلیں | جسے دیکھتے ہی خماری لگے
اسے عمر ساری ہماری لگے
اجالا سا ہے اس کے چاروں طرف
وہ نازک بدن پاؤں بھاری لگے
وہ سسرال سے آئی ہے مائکے
اسے جتنا دیکھو وہ پیاری لگے
حسین صورتیں اور بھی ہیں مگر
وہ سب سیکڑوں میں ہزاری لگے
چلو اس طرح سے سجائیں اسے
یہ دنیا ہماری تمہاری لگے
اسے دیکھنا شعر گوئی کا فن
اسے سوچنا دین داری لگے |
Parveen Shakir | چلنے کا حوصلہ نہیں، رکنا محال کر دیا پروین شاکر غزلیں | چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا |
Nida Fazli | سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو، ندا فاضلی غزلیں | سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
کہیں نہیں کوئی سورج دھواں دھواں ہے فضا
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو |
Jaan Nisar Akhtar | ای درد عشق، تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں، جان نثار اختر غزلیں | اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں
مجھ کو سنبھال حد سے گزرنے لگا ہوں میں
پہلے حقیقتوں ہی سے مطلب تھا اور اب
ایک آدھ بات فرض بھی کرنے لگا ہوں میں
ہر آن ٹوٹتے یہ عقیدوں کے سلسلے
لگتا ہے جیسے آج بکھرنے لگا ہوں میں
اے چشم یار میرا سدھرنا محال تھا
تیرا کمال ہے کہ سدھرنے لگا ہوں میں
یہ مہر و ماہ ارض و سما مجھ میں کھو گئے
اک کائنات بن کے ابھرنے لگا ہوں میں
اتنوں کا پیار مجھ سے سنبھالا نہ جائے گا
لوگو تمہارے پیار سے ڈرنے لگا ہوں میں
دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں
گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں |
Jigar Moradabadi | کیا تعجب کی میری روح رواں تک پہنچے جگر مرادآبادی کی غزلیں۔ | کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے
جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے
پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے
آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے
بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے
تو جہاں پر تھا بہت پہلے وہیں آج بھی ہے
دیکھ رندان خوش انفاس کہاں تک پہنچے
جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ برے
کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے
بڑھ کے رندوں نے قدم حضرت واعظ کے لیے
گرتے پڑتے جو در پیر مغاں تک پہنچے
تو مرے حال پریشاں پہ بہت طنز نہ کر
اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ کہاں تک پہنچے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
عشق کی چوٹ دکھانے میں کہیں آتی ہے
کچھ اشارے تھے کہ جو لفظ و بیاں تک پہنچے
جلوے بیتاب تھے جو پردۂ فطرت میں جگرؔ
خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے |
Mirza Ghalib | عشق تاثیر سے ناامید نہیں مرزا غالب غزلیں | عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجر بید نہیں
سلطنت دست بدست آئی ہے
جام مے خاتم جمشید نہیں
ہے تجلی تری سامان وجود
ذرہ بے پرتو خورشید نہیں
راز معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
گردش رنگ طرب سے ڈر ہے
غم محرومئ جاوید نہیں
کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں |
Allama Iqbal | یہ پیغام دی گئی ہے مجھے بعد صبح گاہی علامہ اقبال غزلیں | یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کج کلاہی
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الٰہ الا
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی |
Allama Iqbal | میں نے اپنی جولان گاہ زیر آسمان سمجھا تھا، علامہ اقبال غزلیں | اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں راز محبت پردہ داری ہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہ رو کی صدائے دردناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں |
Mirza Ghalib | مدت ہوئی ہے یار کو مہمان کیے ہوئے، مرزا غالب غزلیں۔ | مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر گرم نالہ ہائے شرربار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے
پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے
پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خون دل
ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا
جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے
اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے |
Meer Taqi Meer | جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکالتے ہیں میر تقی میر غزلیں | جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں |
Mirza Ghalib | پا بدامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد مرزا غالب غزلیں | پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
خار پا ہیں جوہر آئینۂ زانو مجھے
دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت
ہے نگاہ آشنا تیرا سر ہر مو مجھے
ہوں سراپا ساز آہنگ شکایت کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے
باعث واماندگی ہے عمر فرصت جو مجھے
کر دیا ہے پا بہ زنجیر رم آہو مجھے
خاک فرصت برسر ذوق فنا اے انتظار
ہے غبار شیشۂ ساعت رم آہو مجھے
ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے
مردمک ہے طوطیٔ آئینۂ زانو مجھے
یاد مژگاں میں بہ نشتر زار سودائے خیال
چاہیے وقت تپش یک دست صد پہلو مجھے
اضطراب عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہے
جستجوئے فرصت ربط سر زانو مجھے
چاہیے درمان ریش دل بھی تیغ یار سے
مرم زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے
کثرت جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ
خوب رویوں نے بنایا غالبؔ بد خو مجھے
فرصت آرام غش ہستی ہے بحران عدم
ہے شکست رنگ امکاں گردش پہلو مجھے
ساز ایمائے فنا ہے عالم پیری اسدؔ
قامت خم سے ہے حاصل شوخیٔ ابرو مجھے |
Nazm Tabatabai | یہ آہِ بے اثر کیا ہو، یہ نخلِ بے ثمر کیا ہو، نظم تباہ تبائی، غزلیں | یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
نہ ہو جب درد ہی یا رب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو
بغل گیر آرزو سے ہیں مرادیں آرزو مجھ سے
یہاں اس وقت تو اک عید ہے تم جلوہ گر کیا ہو
مقدر میں یہ لکھا ہے کٹے گی عمر مر مر کر
ابھی سے مر گئے ہم دیکھیے اب عمر بھر کیا ہو
مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں
یہ سچ ہے نازنیں ہو خوبصورت ہو مگر کیا ہو
لگا کر زخم میں ٹانکے قضا تیری نہ آ جائے
جو وہ سفاک سن پائے بتا اے چارہ گر کیا ہو
قیامت کے بکھیڑے پڑ گئے آتے ہی دنیا میں
یہ مانا ہم نے مر جانا تو ممکن ہے مگر کیا ہو
کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں
کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو |
Firaq GorakhPuri | فراق ایک نئی صورت نکل تو سکتی ہے، فراق گورکھپوری غزلیں | فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے
بقول اس آنکھ کے دنیا بدل تو سکتی ہے
ترے خیال کو کچھ چپ سی لگ گئی ورنہ
کہانیوں سے شب غم بہل تو سکتی ہے
عروس دہر چلے کھا کے ٹھوکریں لیکن
قدم قدم پہ جوانی ابل تو سکتی ہے
پلٹ پڑے نہ کہیں اس نگاہ کا جادو
کہ ڈوب کر یہ چھری کچھ اچھل تو سکتی ہے
بجھے ہوئے نہیں اتنے بجھے ہوئے دل بھی
فسردگی میں طبیعت مچل تو سکتی ہے
اگر تو چاہے تو غم والے شادماں ہو جائیں
نگاہ یار یہ حسرت نکل تو سکتی ہے
اب اتنی بند نہیں غم کدوں کی بھی راہیں
ہوائے کوچۂ محبوب چل تو سکتی ہے
کڑے ہیں کوس بہت منزل محبت کے
ملے نہ چھاؤں مگر دھوپ ڈھل تو سکتی ہے
حیات لو تہ دامان مرگ دے اٹھی
ہوا کی راہ میں یہ شمع جل تو سکتی ہے
کچھ اور مصلحت جذب عشق ہے ورنہ
کسی سے چھٹ کے طبیعت سنبھل تو سکتی ہے
ازل سے سوئی ہے تقدیر عشق موت کی نیند
اگر جگائیے کروٹ بدل تو سکتی ہے
غم زمانہ و سوز نہاں کی آنچ تو دے
اگر نہ ٹوٹے یہ زنجیر گل تو سکتی ہے
شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانیٔ حسن
نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے
کبھی وہ مل نہ سکے گی میں یہ نہیں کہتا
وہ آنکھ آنکھ میں پڑ کر بدل تو سکتی ہے
بدلتا جائے غم روزگار کا مرکز
یہ چال گردش ایام چل تو سکتی ہے
وہ بے نیاز سہی دل متاع ہیچ سہی
مگر کسی کی جوانی مچل تو سکتی ہے
تری نگاہ سہارا نہ دے تو بات ہے اور
کہ گرتے گرتے بھی دنیا سنبھل تو سکتی ہے
یہ زور و شور سلامت تری جوانی بھی
بقول عشق کے سانچے میں ڈھل تو سکتی ہے
سنا ہے برف کے ٹکڑے ہیں دل حسینوں کے
کچھ آنچ پا کے یہ چاندی پگھل تو سکتی ہے
ہنسی ہنسی میں لہو تھوکتے ہیں دل والے
یہ سر زمین مگر لعل اگل تو سکتی ہے
جو تو نے ترک محبت کو اہل دل سے کہا
ہزار نرم ہو یہ بات کھل تو سکتی ہے
ارے وہ موت ہو یا زندگی محبت پر
نہ کچھ سہی کف افسوس مل تو سکتی ہے
ہیں جس کے بل پہ کھڑے سرکشوں کو وہ دھرتی
اگر کچل نہیں سکتی نگل تو سکتی ہے
ہوئی ہے گرم لہو پی کے عشق کی تلوار
یوں ہی جلائے جا یہ شاخ پھل تو سکتی ہے
گزر رہی ہے دبے پاؤں عشق کی دیوی
سبک روی سے جہاں کو مسل تو سکتی ہے
حیات سے نگہہ واپسیں ہے کچھ مانوس
مرے خیال سے آنکھوں میں پل تو سکتی ہے
نہ بھولنا یہ ہے تاخیر حسن کی تاخیر
فراقؔ آئی ہوئی موت ٹل تو سکتی ہے |
Allama Iqbal | عجیب وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں علامہ اقبال کی غزلیں۔ | انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادھے بھولے بھالے ہیں
مرے اشعار اے اقبالؔ کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ دردانگیز نالے ہیں |
Akbar Allahabadi | عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا، اکبر الہ آبادی کی غزلیں | عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا
جو برہمن نے کہا آخر وہ سب کرنا پڑا
صبر کرنا فرقت محبوب میں سمجھے تھے سہل
کھل گیا اپنی سمجھ کا حال جب کرنا پڑا
تجربے نے حب دنیا سے سکھایا احتراز
پہلے کہتے تھے فقط منہ سے اور اب کرنا پڑا
شیخ کی مجلس میں بھی مفلس کی کچھ پرسش نہیں
دین کی خاطر سے دنیا کو طلب کرنا پڑا
کیا کہوں بے خود ہوا میں کس نگاہ مست سے
عقل کو بھی میری ہستی کا ادب کرنا پڑا
اقتضا فطرت کا رکتا ہے کہیں اے ہم نشیں
شیخ صاحب کو بھی آخر کار شب کرنا پڑا
عالم ہستی کو تھا مد نظر کتمان راز
ایک شے کو دوسری شے کا سبب کرنا پڑا
شعر غیروں کے اسے مطلق نہیں آئے پسند
حضرت اکبرؔ کو بالآخر طلب کرنا پڑا |
Firaq GorakhPuri | مجھ کو مارا ہے ہر ایک درد و دوا سے پہلے، فراق گورکھپوری غزلیں | مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے
دی سزا عشق نے ہر جرم و خطا سے پہلے
آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے
ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے
فتنے برپا ہوئے ہر غنچۂ سربستہ سے
کھل گیا راز چمن چاک قبا سے پہلے
چال ہے بادۂ ہستی کا چھلکتا ہوا جام
ہم کہاں تھے ترے نقش کف پا سے پہلے
اب کمی کیا ہے ترے بے سر و سامانوں کو
کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفا سے پہلے
عشق بے باک کو دعوے تھے بہت خلوت میں
کھو دیا سارا بھرم شرم و حیا سے پہلے
خود بخود چاک ہوئے پیرہن لالہ و گل
چل گئی کون ہوا باد صبا سے پہلے
ہم سفر راہ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات
ہم پہنچ جائیں گے اس آبلہ پا سے پہلے
پردۂ شرم میں صد برق تبسم کے نثار
ہوش جاتے رہے نیرنگ حیا سے پہلے
موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات
تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے
بے تکلف بھی ترا حسن خود آرا تھا کبھی
اک ادا اور بھی تھی حسن ادا سے پہلے
غفلتیں ہستئ فانی کی بتا دیں گی تجھے
جو مرا حال تھا احساس فنا سے پہلے
ہم انہیں پا کے فراقؔ اور بھی کچھ کھوئے گئے
یہ تکلف تو نہ تھے عہد وفا سے پہلے |
Parveen Shakir | راستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی پروین شاکر غزلیں | رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی
خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی
سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی
بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی
وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد
اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی
اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی
خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی |
Mirza Ghalib | دل سے تیری نگاہ جگر تک اتر گئی مرزا غالب غزلیں | دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذت فراغ
تکلیف پردہ داری زخم جگر گئی
وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی
دیکھو تو دل فریبی انداز نقش پا
موج خرام یار بھی کیا گل کتر گئی
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی
نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
مارا زمانہ نے اسداللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی |
Faiz Ahmad Faiz | نہ گنواؤ نوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا، فیض احمد فیض کی غزلیں | نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
ادھر ایک حرف کہ کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سن کے اڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا |
Jaan Nisar Akhtar | ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا جاں نثار اختر غزلیں | ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دل تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا
گزر گیا ہے کوئی لمحۂ شرر کی طرح
ابھی تو میں اسے پہچان بھی نہ پایا تھا
معاف کر نہ سکی میری زندگی مجھ کو
وہ ایک لمحہ کہ میں تجھ سے تنگ آیا تھا
شگفتہ پھول سمٹ کر کلی بنے جیسے
کچھ اس کمال سے تو نے بدن چرایا تھا
پتا نہیں کہ مرے بعد ان پہ کیا گزری
میں چند خواب زمانے میں چھوڑ آیا تھا |
Jigar Moradabadi | شرما گئے، لجا گئے، دامن چھڑا گئے، جگر مرادآبادی غزلیں | شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے
اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آ گئے
دل پر ہزار طرح کے اوہام چھا گئے
یہ تم نے کیا کیا مری دنیا میں آ گئے
سب کچھ لٹا کے راہ محبت میں اہل دل
خوش ہیں کہ جیسے دولت کونین پا گئے
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
عقل و جنوں میں سب کی تھیں راہیں جدا جدا
ہر پھر کے لیکن ایک ہی منزل پہ آ گئے
اب کیا کروں میں فطرت ناکام عشق کو
جتنے تھے حادثات مجھے راس آ گئے |
Akbar Allahabadi | اگر دل واقف نیرنگی تاب صنم ہوتا، اکبر الہ آبادی غزلیں | اگر دل واقف نیرنگیٔ طبع صنم ہوتا
زمانہ کی دو رنگی کا اسے ہرگز نہ غم ہوتا
یہ پابند مصیبت دل کے ہاتھوں ہم تو رہتے ہیں
نہیں تو چین سے کٹتی نہ دل ہوتا نہ غم ہوتا
انہیں کی ہے وفائی کا یہ ہے آٹھوں پہر صدمہ
وہی ہوتے جو قابو میں تو پھر کاہے کو غم ہوتا
لب و چشم صنم گر دیکھنے پاتے کہیں شاعر
کوئی شیریں سخن ہوتا کوئی جادو رقم ہوتا
بہت اچھا ہوا آئے نہ وہ میری عیادت کو
جو وہ آتے تو غیر آتے جو غیر آتے تو غم ہوتا
اگر قبریں نظر آتیں نہ دارا و سکندر کی
مجھے بھی اشتیاق دولت و جاہ و حشم ہوتا
لئے جاتا ہے جوش شوق ہم کو راہ الفت میں
نہیں تو ضعف سے دشوار چلنا دو قدم ہوتا
نہ رہنے پائے دیواروں میں روزن شکر ہے ورنہ
تمہیں تو دل لگی ہوتی غریبوں پر ستم ہوتا |
Gulzar | دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی گلزار غزلیں | دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی
مرے محلے کا آسماں سونا ہو گیا ہے
بلندیوں پہ اب آ کے پیچے لڑائے کوئی
وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے
کہاں گئے بہتے پانیوں میں بلائے کوئی
ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے
جٹائیں آنکھوں پہ گر رہی ہیں اٹھائے کوئی
مزار پہ کھول کر گریباں دعائیں مانگیں
جو آئے اب کے تو لوٹ کر پھر نہ جائے کوئی |
Jaun Eliya | اگر سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی جون ایلیا غزلیں | سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکون دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترک تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی |
Javed Akhtar | شہر کے دکان داروں کاروبار عشق میں سود کیا زیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے، جاوید اختر غزلیں | شہر کے دکاں دارو کاروبار الفت میں سود کیا زیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقد جاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
کوئی کیسے ملتا ہے پھول کیسے کھلتا ہے آنکھ کیسے جھکتی ہے سانس کیسے رکتی ہے
کیسے رہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
وصل کا سکوں کیا ہے ہجر کا جنوں کیا ہے حسن کا فسوں کیا ہے عشق کا دروں کیا ہے
تم مریض دانائی مصلحت کے شیدائی راہ گمرہاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
زخم کیسے پھلتے ہیں داغ کیسے جلتے ہیں درد کیسے ہوتا ہے کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
نامراد دل کیسے صبح و شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسے مرتے ہیں
تم کو کب نظر آئی غم زدوں کی تنہائی زیست بے اماں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
جانتا ہوں میں تم کو ذوق شاعری بھی ہے شخصیت سجانے میں اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو صرف لفظ سنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے |
Habib Jalib | اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا حبیب جلیب غزلیں | اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا
مجھ کو انسان سے اوتار کیا
دشت غربت میں دل ویراں نے
یاد جمنا کو کئی بار کیا
پیار کی بات نہ پوچھو یارو
ہم نے کس کس سے نہیں پیار کیا
کتنی خوابیدہ تمناؤں کو
اس کی آواز نے بیدار کیا
ہم پجاری ہیں بتوں کے جالبؔ
ہم نے کعبے میں بھی اقرار کیا |
Mirza Ghalib | رفتار عمر قطع راہ اضطراب ہے مرزا غالب غزلیں | رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
مینائے مے ہے سرو نشاط بہار سے
بال تدرو جلوۂ موج شراب ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پاۓ ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے
جاداد بادہ نوشی رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
نظارہ کیا حریف ہو اس برق حسن کا
جوش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے
میں نا مراد دل کی تسلی کو کیا کروں
مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا اسدؔ مسرت پیغام یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشک سوال و جواب ہے
ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض
جو دانہ دام میں ہے سو اشک کباب ہے
بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورق انتخاب ہے |
Mirza Ghalib | ارض ناز شوخی دندان برائے خندہ ہے مرزا غالب غزلیں | عرض ناز شوخیٔ دنداں برائے خندہ ہے
دعواۓ جمعیت احباب جاۓ خندہ ہے
ہے عدم میں غنچہ محو عبرت انجام گل
یک جہاں زانو تأمل در قفاۓ خندہ ہے
کلفت افسردگی کو عیش بیتابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بناۓ خندہ ہے
شورش باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیط گریہ و لب آشناۓ خندہ ہے
خود فروشی ہاۓ ہستی بسکہ جاۓ خندہ ہے
ہر شکست قیمت دل میں صداۓ خندہ ہے
نقش عبرت در نظر یا نقد عشرت در بساط
دو جہاں وسعت بہ قدر یک فضاۓ خندہ ہے
جاۓ استہزا ہے عشرت کوشی ہستی اسدؔ
صبح و شبنم فرصت نشو و نماۓ خندہ ہے |
Jaan Nisar Akhtar | چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے، جاں نثار اختر غزلیں | چونک چونک اٹھتی ہے محلوں کی فضا رات گئے
کون دیتا ہے یہ گلیوں میں صدا رات گئے
یہ حقائق کی چٹانوں سے تراشی دنیا
اوڑھ لیتی ہے طلسموں کی ردا رات گئے
چبھ کے رہ جاتی ہے سینے میں بدن کی خوشبو
کھول دیتا ہے کوئی بند قبا رات گئے
آؤ ہم جسم کی شمعوں سے اجالا کر لیں
چاند نکلا بھی تو نکلے گا ذرا رات گئے
تو نہ اب آئے تو کیا آج تلک آتی ہے
سیڑھیوں سے ترے قدموں کی صدا رات گئے |
Wali Mohammad Wali | دل ہوا ہے میرا خراب سخن والی محمد والی غزلیں | دل ہوا ہے مرا خراب سخن
دیکھ کر حسن بے حجاب سخن
بزم معنی میں سر خوشی ہے اسے
جس کوں ہے نشۂ شراب سخن
راہ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن
جلوہ پیرا ہو شاہد معنی
جب زباں سوں اٹھے نقاب سخن
گوہر اس کی نظر میں جا نہ کرے
جن نے دیکھا ہے آب و تاب سخن
ہرجا گویاں کی بات کیونکہ سنے
جو سنا نغمۂ رباب سخن
ہے تری بات اے نزاکت فہم
لوح دیباچۂ کتاب سخن
ہے سخن جگ منیں عدیم المثال
جز سخن نیں دجا جواب سخن
اے ولیؔ درد سر کبھو نہ رہے
جب ملے صندل و گلاب سخن |
Firaq GorakhPuri | اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یوں ہی کبھی لب کھولیں ہیں، فراق گورکھپوری غزلیں۔ | اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں
پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں
دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات
جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں
فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہو لیں ہیں
خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیل جائیں ہیں جل تھل پر
کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولیں ہیں
باغ میں وہ خواب آور عالم موج صبا کے اشاروں پر
ڈالی ڈالی نورس پتے سہج سہج جب ڈولیں ہیں
اف وہ لبوں پر موج تبسم جیسے کروٹیں لیں کوندے
ہائے وہ عالم جنبش مژگاں جب فتنے پر تولیں ہیں
نقش و نگار غزل میں جو تم یہ شادابی پاؤ ہو
ہم اشکوں میں کائنات کے نوک قلم کو ڈبو لیں ہیں
ان راتوں کو حریم ناز کا اک عالم ہوئے ہے ندیم
خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں
غم کا فسانہ سننے والو آخر شب آرام کرو
کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا اب سو لیں ہیں
ہم لوگ اب تو اجنبی سے ہیں کچھ تو بتاؤ حال فراقؔ
اب تو تمہیں کو پیار کریں ہیں اب تو تمہیں سے بولیں ہیں |
Habib Jalib | یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو، حبیب جالب غزلیں | یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو
اس سے لرزاں تھے بہت شب کے نگہباں یارو
اس نے ہر گام دیا حوصلۂ تازہ ہمیں
وہ نہ اک پل بھی رہا ہم سے گریزاں یارو
اس نے مانی نہ کبھی تیرگیٔ شب سے شکست
دل اندھیروں میں رہا اس کا فروزاں یارو
اس کو ہر حال میں جینے کی ادا آتی تھی
وہ نہ حالات سے ہوتا تھا پریشاں یارو
اس نے باطل سے نہ تا زیست کیا سمجھوتہ
دہر میں اس سا کہاں صاحب ایماں یارو
اس کو تھی کشمکش دیر و حرم سے نفرت
اس سا ہندو نہ کوئی اس سا مسلماں یارو
اس نے سلطانیٔ جمہور کے نغمے لکھے
روح شاہوں کی رہی اس سے پریشاں یارو
اپنے اشعار کی شمعوں سے اجالا کر کے
کر گیا شب کا سفر کتنا وہ آساں یارو
اس کے گیتوں سے زمانے کو سنواریں یارو
روح ساحرؔ کو اگر کرنا ہے شاداں یارو |
Bahadur Shah Zafar | دیکھ دل کو میرے اے کافر بے پیر نہ توڑ، بہادر شاہ ظفر غزلیں | دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ
گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ
غل سدا وادئ وحشت میں رکھوں گا برپا
اے جنوں دیکھ مرے پاؤں کی زنجیر نہ توڑ
دیکھ ٹک غور سے آئینۂ دل کو میرے
اس میں آتا ہے نظر عالم تصویر نہ توڑ
تاج زر کے لیے کیوں شمع کا سر کاٹے ہے
رشتۂ الفت پروانہ کو گل گیر نہ توڑ
اپنے بسمل سے یہ کہتا تھا دم نزع وہ شوخ
تھا جو کچھ عہد سو او عاشق دلگیر نہ توڑ
رقص بسمل کا تماشا مجھے دکھلا کوئی دم
دست و پا مار کے دم تو تہ شمشیر نہ توڑ
سہم کر اے ظفرؔ اس شوخ کماندار سے کہہ
کھینچ کر دیکھ مرے سینے سے تو تیر نہ توڑ |
Faiz Ahmad Faiz | ہم نے سب شہر میں سنوارے تھے فیض احمد فیض کی غزلیں۔ | ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے
میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشت فلک میں تارے تھے
عمر جاوید کی دعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے |
Meer Taqi Meer | بہ رنگ و بوئے گل اُس باغ کے ہم آشنا ہوتے، میر تقی میر کی غزلیں | برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
کہ ہم راہ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے
فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم
غبار راہ ہوتے یا کسو کی خاک پا ہوتے
الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے
تو ہے کس ناحیے سے اے دیار عشق کیا جانوں
ترے باشندگاں ہم کاش سارے بے وفا ہوتے
اب ایسے ہیں کہ صانع کے مزاج اوپر بہم پہنچے
جو خاطر خواہ اپنے ہم ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے
کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میرؔ کیا جانیں
انہیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے |
Naji Shakir | اے صبا کہ بہار کی باتیں ناجی شاکر غزلیں | اے صبا کہہ بہار کی باتیں
اس بت گل عذار کی باتیں
کس پہ چھوڑے نگاہ کا شہباز
کیا کرے ہے شکار کی باتیں
مہربانی سیں یا ہوں غصے سیں
پیاری لگتی ہیں یار کی باتیں
چھوڑتے کب ہیں نقد دل کوں صنم
جب یہ کرتے ہیں پیار کی باتیں
پوچھیے کچھ کہیں ہیں کچھ ناجیؔ
آ پڑیں روزگار کی باتیں |
Bahadur Shah Zafar | کیا کہوں دل مائل ذلف دوتا کیونکر ہوا بہادر شاہ ظفر غزلیں | کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا
یہ بھلا چنگا گرفتار بلا کیونکر ہوا
جن کو محراب عبادت ہو خم ابروئے یار
ان کا کعبے میں کہو سجدہ ادا کیونکر ہوا
دیدۂ حیراں ہمارا تھا تمہارے زیر پا
ہم کو حیرت ہے کہ پیدا نقش پا کیونکر ہوا
نامہ بر خط دے کے اس نو خط کو تو نے کیا کہا
کیا خطا تجھ سے ہوئی اور وہ خفا کیونکر ہوا
خاکساری کیا عجب کھووے اگر دل کا غبار
خاک سے دیکھو کہ آئینہ صفا کیونکر ہوا
جن کو یکتائی کا دعویٰ تھا وہ مثل آئینہ
ان کو حیرت ہے کہ پیدا دوسرا کیونکر ہوا
تیرے دانتوں کے تصور سے نہ تھا گر آب دار
جو بہا آنسو وہ در بے بہا کیونکر ہوا
جو نہ ہونا تھا ہوا ہم پر تمہارے عشق میں
تم نے اتنا بھی نہ پوچھا کیا ہوا کیونکر ہوا
وہ تو ہے نا آشنا مشہور عالم میں ظفرؔ
پر خدا جانے وہ تجھ سے آشنا کیونکر ہوا |
Bahadur Shah Zafar | ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے بہادر شاہ ظفر غزلیں | ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
پر جو سبب غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے
ہم دیکھتے ہیں تم میں خدا جانے بتو کیا
اس بھید کو اللہ کی قسم کہہ نہیں سکتے
رسوائے جہاں کرتا ہے رو رو کے ہمیں تو
ہم تجھے کچھ اے دیدۂ نم کہہ نہیں سکتے
کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر
جو تو نے کئے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے
ہے صبر جنہیں تلخ کلامی کو تمہاری
شربت ہی بتاتے ہیں سم کہہ نہیں سکتے
جب کہتے ہیں کچھ بات رکاوٹ کی ترے ہم
رک جاتا ہے یہ سینہ میں دم کہہ نہیں سکتے
اللہ رے ترا رعب کہ احوال دل اپنا
دے دیتے ہیں ہم کر کے رقم کہہ نہیں سکتے
طوبائے بہشتی ہے تمہارا قد رعنا
ہم کیونکر کہیں سرو ارم کہہ نہیں سکتے
جو ہم پہ شب ہجر میں اس ماہ لقا کے
گزرے ہیں ظفرؔ رنج و الم کہہ نہیں سکتے |
Altaf Hussain Hali | ہے یہ تکیہ تیری عطاؤں پر الطاف حسین حالی غزلیں | ہے یہ تکیہ تری عطاؤں پر
وہی اصرار ہے خطاؤں پر
رہیں نا آشنا زمانہ سے
حق ہے تیرا یہ آشناؤں پر
رہروو با خبر رہو کہ گماں
رہزنی کا ہے رہنماؤں پر
ہے وہ دیر آشنا تو عیب ہے کیا
مرتے ہیں ہم انہیں اداؤں پر
اس کے کوچہ میں ہیں وہ بے پر و بال
اڑتے پھرتے ہیں جو ہواؤں پر
شہسواروں پہ بند ہے جو راہ
وقف ہے یاں برہنہ پاؤں پر
نہیں منعم کو اس کی بوند نصیب
مینہ برستا ہے جو گداؤں پر
نہیں محدود بخششیں تیری
زاہدوں پر نہ پارساؤں پر
حق سے درخواست عفو کی حالیؔ
کیجے کس منہ سے ان خطاؤں پر |
Jaan Nisar Akhtar | صبح کے درد کو راتوں کی جلن کو بھولیں جاں نثار اختر غزلیں | صبح کے درد کو راتوں کی جلن کو بھولیں
کس کے گھر جائیں کہ اس وعدہ شکن کو بھولیں
آج تک چوٹ دبائے نہیں دبتی دل کی
کس طرح اس صنم سنگ بدن کو بھولیں
اب سوا اس کے مداوائے غم دل کیا ہے
اتنی پی جائیں کہ ہر رنج و محن کو بھولیں
اور تہذیب غم عشق نبھا دیں کچھ دن
آخری وقت میں کیا اپنے چلن کو بھولیں |
Kaifi Azmi | جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں، کیفی اعظمی غزلیں | جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں
تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو
تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں |
Meer Taqi Meer | پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، میر تقی میر غزلیں | پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے
رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے
تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے |
Waseem Barelvi | اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے، وسیم بریلوی غزلیں | اسے سمجھنے کا کوئی تو راستہ نکلے
میں چاہتا بھی یہی تھا وہ بے وفا نکلے
کتاب ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ ذرا
نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے
میں تجھ سے ملتا تو تفصیل میں نہیں جاتا
مری طرف سے ترے دل میں جانے کیا نکلے
جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے
اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلہ نکلے
تمام شہر کی آنکھوں میں سرخ شعلے ہیں
وسیمؔ گھر سے اب ایسے میں کوئی کیا نکلے |
Waseem Barelvi | کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا، وسیم بریلوی غزلیں | کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا
آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا
تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تری کیا
ہر شخص مرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا
پیاسے رہے جاتے ہیں زمانے کے سوالات
کس کے لیے زندہ ہوں بتا بھی نہیں سکتا
گھر ڈھونڈ رہے ہیں مرا راتوں کے پجاری
میں ہوں کہ چراغوں کو بجھا بھی نہیں سکتا
ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا |
Gulzar | شام سے آج سانس بھاری ہے گلزار غزلیں | شام سے آج سانس بھاری ہے
بے قراری سی بے قراری ہے
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے
رات کو دے دو چاندنی کی ردا
دن کی چادر ابھی اتاری ہے
شاخ پر کوئی قہقہہ تو کھلے
کیسی چپ سی چمن میں طاری ہے
کل کا ہر واقعہ تمہارا تھا
آج کی داستاں ہماری ہے |
Kaifi Azmi | میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا، کیفی اعظمی غزلیں | میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں
یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا |
Akbar Allahabadi | جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا - اکبر الہ آبادی کی غزلیں | جب یاس ہوئی تو آہوں نے سینے سے نکلنا چھوڑ دیا
اب خشک مزاج آنکھیں بھی ہوئیں دل نے بھی مچلنا چھوڑ دیا
ناوک فگنی سے ظالم کی جنگل میں ہے اک سناٹا سا
مرغان خوش الحاں ہو گئے چپ آہو نے اچھلنا چھوڑ دیا
کیوں کبر و غرور اس دور پہ ہے کیوں دوست فلک کو سمجھا ہے
گردش سے یہ اپنی باز آیا یا رنگ بدلنا چھوڑ دیا
بدلی وہ ہوا گزرا وہ سماں وہ راہ نہیں وہ لوگ نہیں
تفریح کہاں اور سیر کجا گھر سے بھی نکلنا چھوڑ دیا
وہ سوز و گداز اس محفل میں باقی نہ رہا اندھیر ہوا
پروانوں نے جلنا چھوڑ دیا شمعوں نے پگھلنا چھوڑ دیا
ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں ہر موڑ پہ اک لیسنس طلب
اس پارک میں آخر اے اکبرؔ میں نے تو ٹہلنا چھوڑ دیا
کیا دین کو قوت دیں یہ جواں جب حوصلہ افزا کوئی نہیں
کیا ہوش سنبھالیں یہ لڑکے خود اس نے سنبھلنا چھوڑ دیا
اقبال مساعد جب نہ رہا رکھے یہ قدم جس منزل میں
اشجار سے سایہ دور ہوا چشموں نے ابلنا چھوڑ دیا
اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی آثار و نشاں سب قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ میں چلنا چھوڑ دیا
جب سر میں ہوائے طاعت تھی سرسبز شجر امید کا تھا
جب صرصر عصیاں چلنے لگی اس پیڑ نے پھلنا چھوڑ دیا
اس حور لقا کو گھر لائے ہو تم کو مبارک اے اکبرؔ
لیکن یہ قیامت کی تم نے گھر سے جو نکلنا چھوڑ دیا |
Mirza Ghalib | برسیکالِ گریہِ عاشق ہے، دیکھا چاہیے مرزا غالب کی غزلیں۔ | برشکال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
کھل گئی مانند گل سو جا سے دیوار چمن
الفت گل سے غلط ہے دعوی وارستگی
سرو ہے با وصف آزادی گرفتار چمن
صاف ہے از بسکہ عکس گل سے گلزار چمن
جانشین جوہر آئینہ ہے خار چمن
ہے نزاکت بس کہ فصل گل میں معمار چمن
قالب گل میں ڈھلی ہے خشت دیوار چمن
تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار
جوہر آئینہ ہے یاں نقش احضار چمن
بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست
ہے کلاہ ناز گل بر طاق دیوار چمن
وقت ہے گر بلبل مسکیں زلیخائی کرے
یوسف گل جلوہ فرما ہے بہ بازار چمن
وحشت افزا گریہ ہا موقوف فصل گل اسدؔ
چشم دریا ریز ہے میزاب سرکار چمن |
Jigar Moradabadi | آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا، جگر مرادآبادی غزلیں | آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا
تاریک مثل آہ جو آنکھوں کا نور تھا
کیا صبح ہی سے شام بلا کا ظہور تھا
وہ تھے نہ مجھ سے دور نہ میں ان سے دور تھا
آتا نہ تھا نظر تو نظر کا قصور تھا
ہر وقت اک خمار تھا ہر دم سرور تھا
بوتل بغل میں تھی کہ دل ناصبور تھا
کوئی تو دردمند دل ناصبور تھا
مانا کہ تم نہ تھے کوئی تم سا ضرور تھا
لگتے ہی ٹھیس ٹوٹ گیا ساز آرزو
ملتے ہی آنکھ شیشۂ دل چور چور تھا
ایسا کہاں بہار میں رنگینیوں کا جوش
شامل کسی کا خون تمنا ضرور تھا
ساقی کی چشم مست کا کیا کیجیے بیان
اتنا سرور تھا کہ مجھے بھی سرور تھا
پلٹی جو راستے ہی سے اے آہ نامراد
یہ تو بتا کہ باب اثر کتنی دور تھا
جس دل کو تم نے لطف سے اپنا بنا لیا
اس دل میں اک چھپا ہوا نشتر ضرور تھا
اس چشم مے فروش سے کوئی نہ بچ سکا
سب کو بقدر حوصلۂ دل سرور تھا
دیکھا تھا کل جگرؔ کو سر راہ مے کدہ
اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چور تھا |
Mirza Ghalib | دیکھنا قسمت کی آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے مرزا غالب غزلیں | دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے
غیر کو یا رب وہ کیونکر منع گستاخی کرے
گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے
شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے
دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے
دور چشم بد تری بزم طرب سے واہ واہ
نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے
گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق
پر ہم ایسے کھوے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے
اس کی بزم آرائیاں سن کر دل رنجور یاں
مثل نقش مدعائے غیر بیٹھا جائے ہے
ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جاے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے
نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے
سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے |
Subsets and Splits